اپنا گمشدہ خزانہ لے لو
برکت خان امجدی
جب میں فیضان اشرف باسنی میں جماعت سادسہ کا طالب تھا اس وقت ایک کتاب مسلمانوں کی ایجادات کے بارے میں پڑھی تو یقین نہ ہوا ہوائی فائرنگ سمجھ کر چھوڑ دیا کیونکہ میں نے اسکولی نصاب میں مسلمان سائنسدانوں کا نام تک نہیں سنا تھا بعد میں جامعہ امجدیہ میں ٫٫ایجادات کی کہانی،، کتاب پڑھی پھر کچھ یقین آیا اس کے بعد طیفور بھائی کی کے پاس ٫٫گولڈن ایج سے انحطاط تک،، نام سے ایک کتاب تھی اس کو پڑھا تو پہلے تو کچھ یقین نہ ہوا لیکن بعد میں یقین آنا شروع ہوا اور مزید اس قسم کی کتابوں کی جستجو میں لگ گیا لیکن وہ کتابیں بھی میسر نہ آئی جن کا گولڈن ایج میں سلیم صاحب نے حوالہ دیا تھا سلیم صاحب بھی میری نظر غیر معتمد ہونے لگے اس لئے کہ ماخذ میسر ہی نہیں تو حوالہ جھوٹ ہو سکتا ہے تو ان کے بارے میں طیفور بھائی نے بتایا کہ بھائی جن کی کتاب پر اس دور کے جید علمائے کرام نے تقریظات لکھی وہ کتاب کیسے غلط ہو سکتی ہے چلو فرض کر لیتے ہیں کتاب درست ہے لیکن ہماری ایجادات یورپ نے اپنے نام کیسے کی؟ اس کا جواب دینے سے سلیم صاحب کی کتاب بھی قاصر رہی بعد میں وہ حوالے جو سلیم صاحب نے دئے تھے میرے ذہن سے نکل گئے لیکن ایک دن صراط پبلکشنز کے واٹس ایپ مجموعہ میں سلیم صاحب کی کتاب نظر نواز ہوئی اسی کو منگوایا اور حرف بحرف پڑھا اب ذہن کافی ترقی کر چکا تھا ماضی کے مقابلے یہود و نصاری کی چالیں بھی پڑھی تو سلیم صاحب کی کتاب کافی حد تک معتبر ہوئی اس میں موجود حوالہ ٫٫معرکہ مذہب و سائنس،، نے اور آنکھیں کھول دی اس کو بھی میں نے حرف بحرف پڑھ ڈالا پھر میرے ذہن میں آیا کہ اور کوئی کتاب پڑھنی چاہیے تو ٫٫یورپ پر اسلام کے احسانات،، ڈاکٹر غلام جیلانی برق کی پڑھی اس کتاب نے کافی حد تک بالغ بنا دیا یقیناً برق صاحب نے قوم کے گم شدہ خزانے کی طرف رہنمائی کی ہے اور وہ یورپ جو اپنے آپ کو ترقی یافتہ سمجھتا ہے اس کی حقیقت کھل کر سامنے آگئی کہ یہ یورپ ترقی یافتہ نہیں بلکہ چوری کا ماہر ہے اس نے ہمارا سارا علمی سرمایہ بڑی چالاکی سے چوری کیا اور ہمیں خبر تک نہ ہوئی ہماری کتابوں سے ہمارے نام خروچ کر اپنا نام لکھا ہمارے لوگوں کی ایجادات اپنے لوگوں کے نام کر کے اس کو دنیاں میں مشہور کیا ہماری لائیبریریوں پر قابض ہوا اور ہم کو سوچ کا غلام بنا کر رکھ دیا ورنہ
جس وقت مسلمان بڑے بڑے محلات میں رہتے تھے اس وقت یورپی لوگ پہاڑوں اور جنگلوں میں گزرے حیات کرتے تھے جس وقت مسلمانوں نے اپنی تعمیراتی ترقی کا دنیا کو لوہا منوایا اس وقت یورپ کے لوگ کچے مکانات میں رہتے جن میں کھڑی و روشندان تک نہ تھا جب ہمارے ماہرین ستاروں کی چال ناپنے کے آلے تیار کر رہے تھے اس وقت یورپ سوئی سے بھی واقف نہ تھا جب ہم کپڑوں بر نت نئے نقش و نگار بنا رہے تھے اس وقت آدھا یورپ ننگا اور آدھا درختوں کے چھال و پتوں سے جسم ڈھانپ رہا تھا جب یورپ کاغذ وکتاب سے ناآشنا تھا اس وقت بغداد و سسلی میں ایسا گھر تلاش کرنا ناممکن تھا جس میں سیکڑوں کتب پر مشتمل لائیبریری نہ ہو
آپ انہی باتوں سے پتہ لگا سکتے ہیں کہ اصل موجد کون ہے؟ اور سارق کون ہے؟ ایجاد مشکل کام ہے اور سرقہ آسان کام ہے اور ہماری تاریخ کو مسخ کر کے ہمیں یہ بتایا کہ
تم جاہل، تمہارے آباؤ و اجداد ناہل، تمہارے علماء غیر معتمد، تمہارے پیر و صوفیاء ٹھگ ، تمہارے حکمران عیش پرست، تم نے کچھ نہیں کیا سوائے غلامی کے یہ سوچ یورپ نے ہمارے اذہان و قلوب میں ڈال کر ہمیں بنا قیمت کے وفادار غلام بنا لیا ہم نے وفاء میں اس کے ہی گیت گائے اور یورپ سے مقابلہ کرنا محال و ناممکن سمجھ بیٹھے
ان کی مزید تفصیل کے لئے آپ ایجادات کی کہانی، گولڈن ایج سے انحطاط تک، معرکہ مذہب و سائنس، اسلام پر یورپ کے احسانات وغیرہ کتب کا مطالعہ کریں
برکت خان امجدی
مذید پڑھیں
زلزلہ کا پس منظر اور حقائق
موجودہ سیاست اسلام اور اہل اسلام (قسط اول)
مخدوم سمناں کا رند تصوف