حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ

Table of Contents

حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ

از قلم : سرور علی الرقیبی

نام و نسب

آپ کا نام حسین،کنیت ابوعبداللہ اور لقب سبط رسول اور ریحانةالرسول ہے۔ سلسلہ نسب اس طرح ہے : حسین بن علی بن ابو طالب بن عبد المطلب اور والدہ کی طرف سے شجرہ نسب کچھ یوں ہے:حسین بن فاطمہ بنت محمد ﷺ۔ والد کی طرف سے تیسری پشت اور والدہ کی جانب سے دوسری پشت میں جا کر آپ رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شجرہ نسب سے مل جاتا ہے۔

ولادت باسعادت :

حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت ۵/ شعبان المعظم ٤ ھ کو مدینہ طیبہ میں ہوئی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے داٸیں کان میں اذان دی اور بائیں کان میں تکبیر کہی پھر اپنا لعاب دہن منہ میں ڈالا اور دعائے خیر فرماتے ہوئے آپ کا نام مبارک”حسین” رکھا ۔ پھر ساتویں روز آپ کا عقیقہ کیا اور بال اتروا کر ان کے وزن کے برابر چاندی خیرات کی ۔

تعلیم و تربیت :

حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے نانا جان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آغوش مبارک میں پرورش پائی، آپ کے بچپن کے سات برس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں گزرے۔ آپ اور حضرت امام حسن رضی اللہ عنھما کی تعلیم و تربیت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی کمی نہ چھوڑی یہی وجہ کہ دونوں بھائی بچپن سے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بہترین اخلاق کا نمونہ تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم حسنین کریمین کو اپنے ساتھ رکھتے اور انھیں ہر چیز کے آداب سکھاتے۔

بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں زکاۃ کی کھجورں کا ایک ٹوکرا لایا گیا۔ آپ انھیں تقسیم فرمانے کا ارادہ رکھتے تھے کہ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ جو کہ ابھی چھوٹے تھے آئے اور ایک کھجور اٹھا کر منہ میں ڈال لیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کھجور حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے منہ سے نکالی اور فرمایا کہ میرے اہل بیت کے لیے زکاۃ حرام ہے ۔ پس اس دن سے حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے نانا جان حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ذہن نشین کر لی اور پھر کبھی اہل بیت کی سیادت پر حرف نہ آنے دیا ۔

فضائل و مناقب :

سطور بالا سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ آپ نواسہ رسول خاتون جنت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لخت جگر اور امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے نور نظر ہیں ۔ آپ کے فضائل و مناقب میں متعدد حدیثیں وارد ہیں۔ بطور نمونہ اس اختصار میں چند احادیث ذکر کی جاتی ہیں ۔

روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنھاکے گھر سے ہوا ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت امام حسین کے رونے کی آواز سنی تو گھر کے اندرجاکر حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنھا سے ارشاد فرمایا: کہ” اے فاطمہ تمہیں معلوم ہے کہ حسین کے رونے سے میرا دل دکھتا ہے پس تم اسے رونے نہ دیا کرو“۔
حضرت یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں ۔ (ترمذی) (ابن ماجہ،ص:١٤)

یعنی حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت سیدنا امام حسین سے انتہائی قرب ہے ۔ لہٰذا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سے اور امام حسین رضی اللہ عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا کر کے سمجھنے کی کوشش نہ کی جائے ۔

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ” جسے پسند ہو کہ کسی جنتی جوانوں کے سردار کو دیکھے تو حسین بن علی (رضی الله عنهما ) کو دیکھے ۔( نور الابصار،ص:١١٤)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے ارشاد فرمایا: "چھوٹا بچہ کہاں ہے ، حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ دوڑتے ہوئے آئے اور سرکار کی گود میں بیٹھ گئے اور اپنی انگلیاں سر کار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی مبارک میں داخل کر دیں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا منہ کھول بوسہ لیا اور ارشاد فرمایا: اے اللہ میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما اور اس سے بھی محبت فرما جو اس سے محبت کرے“ ۔ (نورالابصار،ص:١١٤ )

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے فقط دنیا والوں سے ہی نہیں چاہا کہ میرے نواسےحسین سے محبت کریں، بلکہ بارگاہ الہی میں بھی عرض گزار ہوئے کہ میرے مولیٰ حسین سے محبت فرما حتیٰ کہ سرکار نے یہ بھی عرض کی کہ پروردگار اس سے بھی محبت فرما جو حسین سے محبت کرے۔

یہ عظمت و رفعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےحضرت سیدنا امام حسین کو عطا فرمائی۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم امام حسین کے لعاب کو اس طرح چوستے ہیں جیسے آدمی کجھور چوستا ہے (نورالابصار،ص:١١٤)

علم و فضل :

حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ علم و فضل میں یکتاے زمانہ تھے، ظاہر و باطنی علوم کے منبع تھے، یہی وجہ تھی کہ اگر کسی کو کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو وہ آپ سے رجوع کرتا اور اپنے مسئلے کا شافی علاج پاتا ۔
حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے تبحر علمی کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے دودھ پینے والے بچے کے وظیفہ سے متعلق مسئلہ دریافت کیا گیا تو انھوں نے آپ سے مسئلہ کی بابت دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ ماں کے پیٹ سے نکلنے کے بعد جب بچہ آواز دے دے یعنی روئے اس وقت وہ وظیفہ کا مستحق ہو جاتا ہے۔

عبادت و ریاضت :

نواسہ رسول حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ عالم با عمل ، متقی و پرہیز گار، ولی کامل ، عارف باللہ اور سچے عاشق رسول تھے ۔ آپ نے اپنی زندگی عشق الہیٰ اور عشق رسول میں بسر کی ۔ آپ کے دن درس و تدریس اور راتیں عبادت الہی میں گزرتی تھیں ۔ بے شمار لوگوں نے آپ کو رات رات بھر قیام کرتے دیکھا ہے ۔ آپ کے خشوع و خضوع کا عالم یہ ہوتا تھا کہ دیکھنے والوں کی آنکھوں سے آنسو نکل آتے تھے ۔ نماز اور روزے کے سختی سے پابند تھے۔ بوقت شہادت بھی آپ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں مسجود تھے ۔ آپ نے اپنی زندگی میں پچیس حج پیدل کیے آپ رضاے الہی کے تابع اور سنت رسول کے مظہر کا مل تھے ۔
ابن عربی بیان فرماتے ہیں: کہ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ اللہ عزوجل کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھے اور اپنی عبادت و ریاضت میں بے مثل تھے قرآن مجید کے صحیح عالم با عمل اور صاحب جود و کرم تھے ۔

اخلاق و عادات :

حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہایت پاکیزہ اخلاق و عادات کے مالک تھے ۔ چونکہ آپ نے بچپن میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کا شرف حاصل کیا تھا ۔ اسی وجہ سے آپ اخلاق و عادات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و عادات کے مظہر ا تم تھے ۔ آپ غرور و تکبر سے پاک تھے۔ عاجزی و انکساری آپ کے مزاج کا حصہ تھی ۔ روایات میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ آپ کہیں تشریف لے جا رہے تھے کہ راستہ میں چند غربا کو کھانا تناول فرماتے دیکھا ان لوگوں نے آپ کو کھانے کی دعوت دی تو آپ نے بجائے کسی ناگواری کے ان کی دعوت قبول فرمالی اور فرمایا کہ اس وقت مجھے کھانے کی حاجت نہیں مگر میں تمھاری خوشی کی خاطر چند لقمے ضرور تناول فرماؤں گا پھر آپ ان کے ساتھ ہی تشریف فرما ہو گئے اور چند لقمےتناول فرمائے ۔
حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ میرے والد بزرگ وار حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ بزرگوں، یتیموں، مسکینوں اور بیواؤں کے گھر خود کھانا لے کر جایا کرتے تھے اور ان کے کام کاج کی مشقت برداشت کرتے تھے یہاں تک کہ آپ کے پیٹھ پر نشانات پڑ جاتے تھے ۔

شہادت :

حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت کے چند ہی دنوں بعد اللہ جل مجدہ الکریم نے حضرت جبریل امین کے ذریعہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے شہادت کی خبر دی اور عمر کی ترقی کے ساتھ یہ خبر لوگوں میں مشہور ہوتی چلی گئی حتی کہ خود امام حسین رضی اللہ عنہ کو بھی اس بات کا علم ہو گیا کہ مجھے جام شہادت نوش کرنا ہے مگر کبھی بھی آپ اس اندوہ ناک خبر سے پریشان ہوئے اور نہ ہی رنجیدہ اور کبیدہ خاطر ہوئے بلکہ ہر آنے والی گھڑی کا خندہ پیشانی سے استقبال کرتے رہے یہاں تک کہ وہ دور بھی آیا کہ ٦٠ھ میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا وصال ہو گیا ۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے وصال کے بعد ان کی جگہ ان کا بدبخت بیٹا یزید پلید تحت نشین ہوا۔ اس نے حکومت کی کرسی سنبھالتے ہی اپنی بیعت کا پروانہ جاری کر دیا۔ چونکہ یزید فاسق و فاجر ، ظالم و جابر، شرابی و بے نمازی ، عیاش و بد معاش اور خلاف شرع کام کرنے والا تھا حتی کہ بہت سی حرام چیزوں کو حلال سمجھتاتھا جن کی حرمت قطعی ہے۔ اس لیے حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے صاف لفظوں میں بیعت سے انکار کر دیا۔ آپ انکار پر انکار کرتے رہے اور یزید اور اس کے نمائندے اصرار پر اصرار کرتے رہے۔ اصرار وانکار کی کشمکش نے جنگ کی صورت اختیار کرلی ۔ یزیدیوں نے امام حسین اور آپ کے رفقا اور جاں نثاروں پر ظلم و جفا کرنا شروع کر دیا۔ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے ظلم و جفا کے اس طوفان کو ہر طرح سے روکنے کی کوشش کی، جنگ و جدال کے ہوا کا رخ موڑنا چاہا مگر بدبخت یزیدیوں نے نہ مانا ، امام حسین اور آپ کے رفقا پر ظلم و استبداد کے پہاڑ توڑے جانے لگے ، حتی کہ نواسہ رسول کے خیمہ پر پانی لے جانے پر پابندی لگا دی گئی کہ شاید اس طرح امام حسین اور ان کے رفقا بیعت قبول کر لیں مگر حضرت سیدنا امام حسین کی طرف سے جب کوئی لچک نظر نہ آئی تو یزیدیوں نے امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں پر ظلم و بربریت کی حد پار کرتے ہوئے جنگ کا اعلان کر دیا۔ مجبورا آپ کے جاں نثار بھی میدان میں نکل آئے ۔ اس حق و باطل کی لڑائی میں یزیدی فوج حضرت سیدنا امام حسین اور آل رسول کے مقابل ہوئی ۔ اسی معرکہ حق و باطل میں حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ١٠/ محرم الحرام ٦١ھ بروز جمعہ ، عین وقت جمعہ شہید ہوئے اور تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ ہمیش کے لیے زندہ و جاوید ہو گئے ۔

قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
بڑے خوش نصیب ہیں وہ مسلمان جو نواسہ رسول، باع علی و فاطمہ کے بھول حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سچی الفت و محبت کرتے ہیں اور ان کی پاکیزہ سیرت پر عمل پیراں ہیں رب قدیر ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
بجاہ سید المرسلین ﷺ .

العبدالعاجز : سرور علی الرقیبی

متعلم : جامعہ اشرفیہ،مبارک پور
٣/محرم الحرام ١٤٤٥ ھ بروز جمعہ، مطابق ٢١/جولاٸ٢٠٢٣ ٕ ۔

مزید پڑھیں

اسلامی سال نو کا آغاز اور ہمارا رویہ

بدلاؤ میں بقا ہے

مسلم اسکولوں میں اسلامی

شیئر کیجیے

Leave a comment