علامہ محمد احمد مصباحی احوال و افکار مطالعاتی میز سے

علامہ محمد احمد مصباحی احوال و افکار مطالعاتی میز سے

Table of Contents

علامہ محمد احمد مصباحی احوال و افکار مطالعاتی میز سے

ثاقب قمری مصباحی

 

کسی زمانے میں ابن تیمیہ کے شاگرد ابن قیم نے خانۂ کعبہ کا غلاف پکڑ کر حلفاً کہا تھا کہ "اگر اس عہد میں ابن تیمیہ عالم نہیں تو بہ خدا روئے زمین پر کوئی عالم نہیں۔” مجھے نہیں پتا کہ صدرالعلماء حضرت علامہ محمد احمد مصباحی جیسی ہمہ جہت اور عبقری شخصیت کو ابن تیمیہ جیسے زندیق عالم سے تشبیہ دینا کہاں تک درست ہے لیکن ارباب علم و ادب اور اہلیان بصارت و بصیرت سے معذرت کرتے ہوئے میں ابن قیم کا یہ جملہ قدرے تصرف کے ساتھ بہر حال دہرانا چاہوں گا کہ "اگر اس عہد میں علامہ محمد احمد مصباحی عالم نہیں تو بہ خدا روئے زمین پر کوئی عالم نہیں-"

صادق ہوں اپنے قول میں غالب خدا گواہ!
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے

حضرت علامہ احمد مصباحی دنیاے علم و آگہی میں کسی تعریف و تعارف کے محتاج نہیں۔ علم و ادب، تہذیب و ثقافت، زہد و تقویٰ، شرافت و دیانت، اخلاص و ایثار، متانت و شائستگی، حلم و بردباری اور عجز و انکسار سے مملو کسی ملکوتی صفات ہستی کا جب بھی ہم تصور کرتے ہیں تو ذہن کی اسکرین پر لازمی طور سے مصباحی صاحب کی تصویر ابھر آتی ہے۔ آپ نے گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کر تحقیق و تصنیف، تدریس و تنظیم، تبلیغ و اشاعت اور قوم کی صلاح و فلاح کی خاطر وہ کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں کہ ان کا کماحقہ ادراک و ابلاغ جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

”ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا”

حضرت صدر العلماء کے حوالے سے میں اگر کچھ کہوں تو بعید از قیاس نہیں کہ کوئی اُسے محض تلمیذانہ عقیدت و محبت پر محمول کر لے؛ لہذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ میں یہاں اپنی کوئی رائے پیش کرنے کی بجائے ان چند مشاہیر علم و فن اور اساطین قوم و ملت کے اقوال و اقتباسات پیش کر دوں جن کا فکری استناد اور قلمی حوالہ تقریباً ہر ایک کے نزدیک مسلم الثبوت ہے۔
ماضی قریب کی عظیم المرتبت شخصیت حضرت شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی نے موصوف کے حوالے سے لکھا ہے:
"قدرت نے انھیں ذہانت و فطانت اور قوت حفظ کے ساتھ مطالعے کا ذوق و شوق بہت زیادہ عطا فرمایا ہے، حفظِ اوقات میں اپنا ثانی نہیں رکھتے، کوئی لمحہ ضائع نہیں ہونے دیتے، ہر وقت مصروف۔ یہی وجہ ہے کہ جملہ علوم و فنون میں مہارت تامہ رکھتے ہیں، خصوصیت کے ساتھ علمِ ادب میں اقران پر فائق ہیں”۔
جس ذات کو علامہ ارشد القادری نے خود یہ لکھا ہو کہ "آپ اشرفیہ کے قطب ہیں” بھلا ان کی علمی و فکری برتری میں کس کور چشم کو کلام ہو سکتا ہے! اگر قاری کی نازک مزاجی پر بار نہ ہو تو میں مفتی محمد نظام الدین رضوی (صدر شعبہ افتا وشیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ مبارک پور) کی یہ عبارت بھی نقل کرنا چاہوں گا:
"آپ (علامہ محمد احمد مصباحی) کو اللّٰہ تعالیٰ نے بہت کچھ خوبیوں سے نوازا ہے، درسِ نظامی کے فنون متداولہ پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ عربی زبان و ادب میں آپ اپنے اقران میں ممتاز و منفرد ہیں۔ محقق، مصنف، مدبر، خاشع، متواضع ہیں، مصروف زندگی میں بھی اوراد و وظائف کے پابند ہیں”
محولہ بالا اقتباسات سے قارئین کو بہت حد تک حضرت مصباحی صاحب کی علمی عظمت و رفعت کا اندازہ ہو گیا ہوگا؛ تاہم اس حوالے سے عالمی اسلامی اسکالر حضرت مولانا فروغ القادری (ورلڈ اسلامک مشن لندن) کی یہ تحریر بھی دل چسپی سے خالی نہیں:
"علامہ محمد احمد مصباحی ادام اللہ فضلہ کی پرشکوہ شخصیت میں نئے عہد کے طلبہ کے اخذ و جذب کے لیے بہت کچھ موجود ہے۔ ان کا ایوانِ علم مختلف النوع موضوعات و عناوین کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ دینی، مذہبی، اعتقادی، اور مسلکی اعتبار سے شاید ہی کوئی ایسا موضوع ہو جسے آپ کے اشہبِ فکر نے دو آتشہ نہ بنا دیا ہو۔ ان کے فکری و عملی پس منظر کو سمجھنے کے لیے تاریخِ اسلام، تاریخِ تجدید، تاریخِ اجتہاد، تاریخِ علومِ اسلامی اور خاص مسلک امام احمد رضا محدث بریلوی کی تحریکات کا مطالعہ ضروری ہے۔ شب و روز کی دقت طرازی، محنت کوشی اور نئے نئے آفاق کو سر کرنے کی مسلسل جستجو نے مصباحی صاحب قبلہ کو عصر حاضر میں علم و فن کا امام بنا دیا ہے”۔

سوانح نگاری اصلاً تاریخ نویسی ہی کی ایک شاخ ہے؛ جس میں ماہرینِ علم و ہنر اور اربابِ فکر و فن کے حیاتیاتی حقائق اور تجربات کا بیان کمال شرح و بسط کے ساتھ کیا جاتا ہے؛ تاکہ آنے والی نسلیں ان تجرباتی خطوط کی روشنی میں اپنی ترقیاتی حصولیابی کا لائحۂ عمل تشکیل دے سکیں۔ تذکرہ نویسی اور سوانح نگاری کا اساسی مقصد جہاں صاحبِ سوانح کی علمی وجاہت اور فنی جلالت سے دنیا کو روشناس کرانا ہوتا ہے؛ وہیں ان کی مختلف الجہات شخصیت کی علمی پذیرائی اور عزت افزائی کرکے انھیں عزم محکم اور سعیِ پیہم کے حوالے سے "ھل من مزید” کا حوصلہ و ولولہ دینا ہوتا ہے۔ اور ان دونوں باتوں کا فائدہ قوم و ملت کو کماحقہ تبھی مل سکتا ہے جب کہ صاحبِ سوانح کی زندگی میں ہم ان کی صلاحیت و قابلیت کا اعتراف کریں۔ لیکن نہ جانے ہم میں یہ وبا کہاں سے پھیل گئی ہے کہ ہم زندگی میں تو کسی کا اعزاز و اکرام قطعاً ملحوظ نہیں رکھتے؛ تاہم جیسے ہی وہ دنیا سے رخت سفر باندھتے ہیں؛ آنکھ بند ہوتے ہی ہم ان کے عرس کی تیاری میں جٹ جاتے ہیں۔

ایک طرف ہر شاعر ان کی شان میں فصیح و بلیغ مناقب و قصائد لکھ رہا ہوتا ہے تو دوسری طرف محرروں کو قلمی زور آزمائی کے دورے پڑ رہے ہوتے ہیں؛ اور تو اور مقررین کی ٹولی الگ اپنی توصیفی شعلہ بیانی کا جوہر دکھا رہی ہوتی ہے۔ الغرض یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہتا ہے جب تک کہ انھیں وقت کا امام اعظم یا کم از کم مصداقِ ولایت ثابت نہ کردیا جائے۔ میں ہرگز یہ نہیں کہتا کہ بعدِ وفات خدا نخواستہ اپنے محسنین کو فراموش کر دیا جائے یا ان کی زندگی کے متعلق غور نہ کیا جائے لیکن ذرا سوچیں! کیا ایسا ممکن نہیں کہ ہم کسی ذات کے لیے جو جذبۂ عقیدت و محبت ان کی رحلت کے بعد اپنے دل میں پیدا کرتے ہیں؛ اس کا نصف حصہ ہی ان کی زندگی میں پیدا کرکے قوم و ملت کی فلاح و بہبود اور علوم و فنون کی ترویج و تشہیر کا باعث بن جائیں!

ایں سخن را چہ جواب است تُو ہم می دانی!

صاحبِ سوانح کی زندگی میں اگر ان کا "زندگی نامہ” لکھا جائے تو اس میں احوال و کوائف اور حقائق و شواہد کے ساتھ خرد برد کرنے کا امکان بہت حد تک کم ہو جاتا ہے؛ نیز ان کی شخصیت کے ایسے گوشے بھی تحقیقی کسوٹی پر پرکھے جاسکتے ہیں جو اب تک پردۂ خفا میں تھے۔ جب کہ ان کی وفات کے بعد بہت سارے تجربے، منصوبے اور فوز و فلاح کے خاکے جو انہوں نے انتہائی قیمتی وقت صرف کرکے حاصل کیے ہوتے ہیں؛ اُنھیں کے ساتھ دفن ہو جاتے ہیں۔ اور اس طرح ان کا فکری و مشاہداتی سرمایہ صحیح معنی میں قوم تک نہ پہنچ پانے کے باعث نسل نو فکر و تدبر اور بصیرت و ذکاوت سے مملو ایک قابل قدر انسائیکلوپیڈیا سے محروم رہ جاتی ہے۔

قابلِ مبارک باد ہیں مربی مشفق مفتی توفیق احسن برکاتی صاحب کہ انھوں نے مردہ پرستی کے اس فرسودہ نظام کی اصلاحی کوشش فرمائی اور ان دقیانوسی روایتوں کی زنجیریں توڑ کر بہ ظاہر بہت معمولی لباس میں چلنے پھرنے والی ایک غیر معمولی شخصیت کی مثالی زندگی کے اہم پہلوؤں کو اجاگر کیا۔ مصنف کتاب عصر حاضر کے ایک بالغ نظر عالمِ دین اور نکتہ سنج محقق و دانش ور ہیں۔ ان کا علمی و ادبی پایہ تحریر، تدریس اور تقریر تینوں میدانوں کو محیط ہے؛ یعنی بیک وقت وہ جہاں جامعہ اشرفیہ مبارک پور جیسے مرکزی ادارے کی مسند تدریس سے وابستہ ہیں؛ وہیں ان کے کہنہ مشق قلم کی برق رفتاری نے دو درجن سے زیادہ تحقیقی و تنقیحی کتابیں تالیف کی ہیں۔ علاوہ ازیں وہ اپنی پُرمغز تقریروں کی وجہ سے بھی ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں اور وقتا فوقتاً دینی پروگراموں میں عوام و خواص سے خطاب کرتے رہتے ہیں۔

پانچ ابواب پر مشتمل یہ کتاب کئی حوالوں سے دستاویزی حیثیت کی حامل اور انتہائی وقيع ہے۔ اس کے پہلے باب میں عالم اسلام کی عظیم دانش گاہ جامعہ اشرفیہ مبارک پور کی علمی، ادبی، تہذیبی، تربیتی اور روحانی خدمات کی ایک جھلک دکھائی گئی ہے۔ ابتداً تحریکِ اشرفیہ كا آغاز، اس تحریکی کامیابی کے مراحل اور اس حوالے سے کلیدی کردار ادا کرنے والی شخصیت حافظ ملّت اور اُن کی جوہر آشنائی، افراد سازی، قوتِ ارادی، فکری توانائی اور دور اندیشی جیسی اہم باتوں کو موضوعِ سخن بنایا گیا ہے، جس سے اس دور کی تعمیری، تحریکی اور تعلیمی سرگرمیوں کی مکمل تصویر صاف و شفاف آئینہ کی مانند ظاہر ہو جاتی ہے۔ ممکن ہے کہ یہاں پہنچ کر قارئین وقتی طور پر کش مکش میں پڑ جائیں کہ آخر کتاب کا آغاز اُس موضوع سے کیوں کیا جا رہا ہے؛ جو براہِ راست عنوانِ کتاب سے میل ہی نہیں کھاتا! لیکن بہت معمولی غور و خوض کے بعد جب مصنف کی فکری بصیرت اور قلمی تجربہ کاری کے اسرار منکشف ہوتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ جس باب کو وہ غیر متعلق سمجھ رہے تھے، اس کے بغیر تو موضوع کا حق ہی ادا نہیں ہو سکتا؛ کیوں کہ مصباحی صاحب کے پاس علم و ادب کی صورت میں جو بیش بہا خزانہ ہے وہ خالص حافظ ملت علیہ الرحمہ ہی کا عطیہ اور جامعہ اشرفیہ ہی کی دین ہے؛ گویا صاحبِ سوانح اور جامعہ اشرفیہ کا حوالہ (خواہ ان کا تعلیمی زمانہ ہو یا تدریسی) باہم لازم و ملزوم ہیں اور ایسا کیوں نہ ہو کہ جامعہ اشرفیہ سے مصباحی صاحب کے تعلیمی، تدریسی، تنظیمی، تحقیقی اور اشاعتی تعلق کا دورانیہ تقریباً پانچ چھ دہائیوں کو محیط ہے۔

دوسرے باب میں پچاس عناوین کے تحت حضرت صدرالعلماء کے سوانحی احوال اور علمی کمالات پر انتہائی شرح و بسط کے ساتھ گفتگو کی گئی ہے؛ جو ہر جہت سے متوازن اور معتدل معلوم ہوتی ہے ،کیوں کہ اس میں نہ تو مبالغہ آرائی کی آمیزش ہے اور نہ غلو بیانی کا شائبہ۔ یعنی افراط و تفریط سے احتراز کرتے ہوئے یہاں لازماً ایسا بیانیہ اپنایا گیا ہے کہ ہر گام مصنف کے صریرِ خامہ سے دیانت داری کی اذان سنائی دیتی ہے اور ہر قدم پر "ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں” کی جلوہ طرازیاں نظر آتی ہیں۔ جاننا چاہیے کہ حضرت صدر العلماء کے لیے پہلے بھی دل میں کچھ کم محبت نہ تھی، لیکن اب جب کہ ان کی زندگی کے بہت سارے حقائق و آثار کھل کر ہمارے سامنے آ چکے ہیں؛ ان کی جلالتِ علمی، وجاہتِ ادبی اور فکری ترفع کے آگے جبین شوق بے ساختہ جُھکی جا رہی ہے اور سانسوں کی مالا کا ایک ایک تسبیحی دانہ”قربانت شوم” کے ورد سے سرشار و شادکام ہوا جاتا ہے۔

تیسرے اور چوتھے باب میں صاحبِ سوانح کی تحقیقی اور قلمی معرکہ آرائی کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ علامہ صدر العلماء کی زنبیل حیات میں دیگر چیزوں کی بہ نسبت قلمی سرمایہ وفور مقدار میں پایا جاتا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ مصنف نے اس کے لیے الگ سے باب باندھا ہے اور ان کی تصنیفات و نگارشات پر خصوصی کلام کیا ہے۔ باب سوم میں علامہ کے ذوقِ تحریر و تصنیف اور جذبۂ تحقیق و تدقیق کا اجمالی بیان ہے اور پھر ان کی مطبوعہ و غیر مطبوعہ کتب و مقالات کے مختصر احوال ذکر کیے گئے ہیں۔ یوں ہی باب چہارم میں مختلف علوم و فنون میں لکھی گئی علامہ کی درجن بھر سے زائد کتب پر تفصیلی تبصرہ کیا گیا ہے؛ جس میں ان منتخب تصانیف کے حوالے سے بہت اہم معلومات فراہم کی گئی ہیں۔

باب پنجم میں علامہ احمد مصباحی کی علمی اور تجرباتی زندگی کے رشحات فکر و آگہی کو جگہ دی گئی ہے۔ در اصل مفکرانہ ذہن اور مدبرانہ مزاج رکھنے والی ذات کے یہ وہ فکر پارے ہیں جن میں نسل نو کے کسب و جذب کے لیے ہر وہ چیز موجود ہے جس کو اپنا کر کوئی فوز و فلاح کی منزلیں طے کرتا ہے اور زمانے کے ہجوم میں بھی انفراد و اختصاص کا مصداق و مستحق ٹھہرتا ہے ۔سچ کہوں تو یہ وہ خطوط و نقوش ہیں جن کی سیاہی مستعار لے کر دنیا کےبڑے سے بڑے پراجیکٹ کا فلاحی نقشہ تیار کیا جا سکتا ہے اور ان کے ذریعے بلند سے بلند علمی و ادبی آسمان میں کمند ڈالا سکتا ہے۔
"علّامہ محمد مصباحی احوال و افکار” صدر العلماء جیسے علم نواز اور ادب پرور محسن کے علمی اور ملی احسانات کا بدل تو نہیں ہو سکتی ،البتہ یہ سوانحی نقش اس جہاں دیدہ مفکر اور دور رس مدبر کی حیاتی تفہیم میں ضرور سنگ میل ثابت ہوگا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ مصنفِ کتاب کی تمام تر علمی، تحقیقی اور دینی خدمات کو توشۂ آخرت بنائے اور ہر محاذ پر انھیں سرفراز و شاد کام فرمائے؛ آمین!

از قلم: ثاقب قمری مصباحی

ڈائریکٹر: دبستانِ فکر و نظر
26/ اکتوبر 2022ء

مزید پڑھیں

عصر حاضر میں دعوت و تبلیغ کا فقدان اور امت مسلمہ کی بد حالی

ہمیں مرشد کی ضرورت کیوں؟

علم حدیث میں امام اعظم کا مقام ومرتبہ

شیئر کیجیے

Leave a comment