اہل بیت سے محبت مسلمانوں کی سعادت مندی

اہل بیت سے محبت مسلمانوں کی سعادت مندی

Table of Contents

اہل بیت سے محبت مسلمانوں کی سعادت مندی

جمال الدین قادری انواری

حضور نبی کریم ﷺ کےاہل قرابت اور اہل بیت اطہار سے محبت و مؤدت اور عقیدت و احترام سعادت مندی اور خوش نصیبی کی پہچان ہے،تمام امت مسلمہ پر ان پاکیزہ حضرات کی محبت و تعظیم ضروری ہے اور ان سے بغض و عداوت، نفرت و عناد اور ان کی توہین و تنقیص بد نصیبی اور دنیا و آخرت میں خسارہ و نقصان کا سبب اور اللہ کے غضب و قہر کے نازل ہونے کا باعث ہے اس لئے ہمیں چاہیئے کہ جس رسول پاک نے ہمیں ایمان جیسی دولت سرمدی، خدا وند ِقدوس کی معرفت اور دوسری تمام نعمتوں کو پانے کی راہیں بتائی ان کے اہل بیت سے خوب پیار و محبت اور حسنِ سلو ک سے پیش آئیں،ان کی محبت کا چراغ اپنے دلوں میں جلائیں ،کہ رسول پاک ﷺ ان حضرات سے بے حد محبت فرماتے اور بارگاہ الٰہی میں یوں عرض کرتے ”مولیٰ میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی انہیں اپنا محبوب بنا اور ان سے بھی محبت فرما جو ان سے محبت رکھے “۔

حضرت زید بن عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا” میں تم میں دو چیز چھوڑے جا رہا ہوں اگر تم اسے مضبوطی سے تھامے رہوگے تو میرے بعد ہر گز گمراہ نہ ہو گے ان میں سے ایک دوسری سے زیادہ عظمت والی ہے ،پہلی کتاب اللہ،اللہ کی رسی ہے جو آسمان سے زمین کی طرف لٹکائی گئی ہے اور دوسری چیز میرے اہل بیت و میری عترت ہیں اور یہ دونوں ہر گز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملاقات کریں گے تم غور کرو میرے بعد تم کس طرح ان میں میری نیابت کرتےہو “۔(ترمذی ج/۲ ص/۲۲۰ )۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ سے محبت رکھو اس کی نعمتوں کا لحاظ رکھتے ہوئے ،مجھ سے محبت کرو اللہ تعالیٰ کی محبت کی خاطر اور میرے اہل بیت سے محبت کرو میری وجہ سے “(ترمذی ج/۲ ص/ ۲۲۰ ،در منثور ج/۵ص/ ۷۰۲)۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”اپنی امت میں سب سے پہلے میں جس کی شفاعت کروں گا وہ میرے اہل بیت ہیں” (المعجم الکبیر ج/۱۲ ص/ ۳۲۱)۔

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میری شفاعت میرے امتیوں کے لئے جو میرے اہل بیت سے محبت کرتے ہیں (تاریخ بغداد ج/۲ ص/ ۱۴۶)۔

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا “میرے اہل بیت کی مثال تم میں حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی طرح ہے جو اس میں سوار ہوا نجات پاگیا اور جو اس سے پیچھے رہ گیا ہلاک ہو گیا ”( الصوائق المحرقہ ص /۲۸۲)۔

حضرت عمران بن حسین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا “میں نے اپنے رب سے عرض کی کہ میرے اہل بیت میں سے کسی کو دوزخ میں داخل نہ کرے تو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمالیا ”(ایضا ص /۲۸۳)۔

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ بیان کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا “اپنی اولاد کو تین چیزوں پر ادب سکھاؤ (۱) نبی کی محبت (۲) اہل ِبیتِ نبی کی محبت (۳) تلاوت ِقرآن پر ،کیونکہ حافظ قرآن اللہ کے سایۂ رحمت میں ہوں گے جس دن اس کے سایۂ رحمت کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہوگا ”(کنز العمال ج/۱۶ ص /۴۵۶ ،کشف الخفا ء ج/۱ ص/ ۷۴) ۔

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا “سب سے پہلے جو میرے پاس حوض کوثر پر آئے گا وہ میرے اہل بیت ہیں” (کنز العمال ج/۱۲ ص /۱۰۰)۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا “تم میں پل صراط پر سب سے زیادہ ثابت قدم رہنے والا وہی ہوگا جو سب سے زیادہ محبت میرے اہل بیت اور میرے صحابہ سے کرنے والا ہوگا ”(کنز العمال ج/۱۲ ص/۹۶)۔

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا "جو شخص میرے اہل بیت میں سے کسی کے ساتھ احسان کرے گا تو میں قیامت کے دن اسے اس احسان کا بدلہ دوں گا ”(کنز العمال ج/۱۲ ص/۶۳۰ )۔

امام بیہقی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا “بندہ مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کی جان سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں، اور میری اولاد اس کی اولاد سے زیادہ محبوب نہ ہو جائے، اور میری ذات اس کی ذات سے محبوب تر نہ ہوجائے ”(صواعق محرقہ ص /۳۴۴ )۔

قارئین کرام :اب تک جو اہل بیت کی فضیلت و شان میں احادیث مذکور ہوئیں و ہ تمام اہل بیت کو عام ہیں ،ان میں سے کسی کا نام صراحت کے ساتھ مذکور نہیں ہوا ،اب ہم ان احادیث کو تحریر کرتے ہیں جن میں حضرت علی ،فاطمہ اور امام حسن و حسین رضی اللہ عنہم کا ذکر ہے پھر وہ احادیث لکھی جائیں گی جن میں الگ الگ ان مقدس حضرات کے فضائل وکرامات اور خصو صیات مذکور ہو ں گی!۔

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ،فاطمہ اور حسنین کریمین کے متعلق فرمایا “جو ان سے جنگ کرے گا میں ان سے جنگ کروں گا اور جو ان سے صلح کرے گا میں اس سے صلح رکھوں گا- “(ترمذی ،مستدرک ج/۳ ص/۱۴۹)۔

امام احمد نے روایت کیا کہ حضور اقد س ﷺ نے حضرت امام حسن و حسین رضی اللہ عنہما کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا ”جو شخص مجھ سے ،ان دونوں سے ،اور ان کے والدین سے محبت رکھے گا وہ قیامت کے دن (جنت میں )میرے درجے میں ہوگا “(صواعق محرقہ ص /۲۳۵ ،کنز العمال ج/۱۳ ص/۲۷۵)۔

نوٹ :اس حدیث میں بیان ہوا کہ محبان اہل بیت سرکار کے ساتھ جنت میں آپ کے درجے میں ہوں گے تو اس سے مراد یہ ہے کہ جنت میں آپ ﷺ جس درجہ اور منزل میں تشریف فرماہوں گے محبان اہل بیت کا درجہ آپ کے درجے کے قریب ہوگا۔

ابن سعد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا ”جنت میں جو سب سے پہلے داخل ہوگا وہ میں ہوں گا اور فاطمہ اور حسن و حسین ہوں گے، میں نے عرض کی یا رسول اللہ :اور ہم سے محبت کرنے والے ؟ تو آپ نے فرمایا تمہارے بعد“۔

تنبیہ : شیعہ حضرات اس حدیث سے اس غلط فہمی اور خوش فہمی میں نہ رہیں کہ وہ تو حضرات ِ اہل بیت سے خوب عقیدت و محبت رکھتے ہیں لہٰذا وہ جنتی ہیں ،کیونکہ ان جاہلوں اور بے وقوفوں نے حضرات اہل بیت کی محبت میں کس قدر غلو اور زیادتی کی کہ حد شرع کا پاس و لحاظ نہ رہا ،یہاں تک کہ ان لوگوں نے صحابہ کی تکفیر کی اور امت کو گمراہ کیا ،حضرات شیخین (حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما ) کو غاصب و باغی کہا ،ان کی شان میں توہین و تنقیص کی

لہٰذا ان کی محبت ان کے لئے تباہی و ہلاکت اور دوذخ میں جانے کا سبب بنے گی ،خود حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ” مجھ سے حد سے زیادہ محبت کرنے والا جو مجھے میرے مرتبے سے بڑھائے گا وہ ہلاک ہوگا” (صواعق محرقہ ص /۲۳۵)۔

اورایک روایت میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا “میری محبت اور حضرت ابو بکر و عمر فاروق سے دشمنی و عداوت ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتی ،کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں ،جو ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتیں (ایضا ص /۲۳۸)۔

بلکہ اہل بیت کرام سے حقیقی معنوں میں محبت کرنے والا گروہ اہل سنت و جماعت ہے جو انبیاء کرام ،صحابۂ عظام ،ابو بکر و عمرفاروق، عثمان و حیدر اور حضرت فاطمہ و حضرات حسنین کریمین سے شریعت کے دائرے میں رہ کر محبت کرتے ہیں ان کے قول وکردار ،سیرت و اخلاق کو اپنے لئے نمونۂ عمل اور مشعل ہدایت سمجھتے ہیں۔

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب آیت مباہلہ نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ،حضرت فاطمہ اور حسین رضی اللہ عنہم کو بلایا اور بارگاہ خداوندی میں عرض گزار ہوئے اے اللہ یہ میری اہل ہیں (ایضا ص /۱۸۷)۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”جنت میں ایک درجہ جسے وسیلہ کہا جاتا ہے ،جب تم اللہ تعالیٰ سے سوال کرو تو میرے لیے وسیلہ مانگو، صحابہ نے عرض کیا :یا رسول اللہ:آپ کے ساتھ اس درجے میں کون رہے گا ؟ آپ نے فرمایا :علی ،فاطمہ اور حسن و حسین (کنز العمال ج/۱۳ ص/۲۷۵)۔

بارگاہ مولیٰ تعالیٰ میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سبھی مسلمانوں کو حضور نبی کریم ﷺ اور آپ کے اہل بیت اطہار سے محبت کرنے کی توفیق عنایت فرمائے ۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین[صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم]

جمال الدین قادری انواری

استاذ :دارالعوم انوار مصطفیٰ سہلاؤ شریف ،پوسٹ گرڈیا،تحصیل :رامسر ضلع:باڑمیر(راجستھان)۔

مزید پڑھیں

محرم الحرام خرافات رسومات واصلاح

عشرہ محرم الحرام میں رنج و غم کرنا جائز ہے یا نہیں؟

مراسم محرم الحرام_ ایک تجزیاتی مطالعہ

شیئر کیجیے

Leave a comment