منقبت سلطان الہند رضی اللہ تعالیٰ عنہ
قلب میں میرے ابھی ہجر کی تازہ تھی چبھن
دیکھ کر چیخ پڑے اُس کو جوانانِ چمن
تھپکیاں دے کے سلاتی ہے تری یاد مجھے
مجھ کو تنہائی میں محسوس جو ہوتی ہے گُھٹن
کب تلک یوں ہی رہیں منتظرِ فردا ہم
ہم پہ کھل جائیں کسی روز تو اسرارِ سخن
آمدِ بادشہِ چشت سے جب صُبح ہوئی
تب مسرّت میں ہوئی رقص کُناں ارضِ وطن
کیوں نہ ہو قابلِ تعظیم ترا نام و نسب
تیری رَگ رَگ میں سَرایت ہوا جب خونِ حسن
چشتیہ باغ میں مہکیں ہیں وہی پھول جنھیں
رشک صد بار کریں دیکھ کے گُلہائے عدن
پرکشش کوچۂ خواجہ کی ہے زیب و زینت
خطۂ ہند پہ دیکھی نہ کہیں ایسی پَھبن
اکبر و شاہجہاں کی کوئی تخصیص نہیں
سر بخم ہیں اسی چوکھٹ پہ سلاطینِ زمن
نکہتِ کاکلِ جاناں کو اگر سُونگھ لیں لوگ
نظر انداز کریں خُوشبوے آہوئے خُتن
کاش گردن میں رہے طَوقِ غلامی تیرا
تیری توصیف میں ہوں "وا” مری نسلوں کے دہن
یا الہی! مری تربت میں بھی ہوں مُوئے نبی ﷺ
چادرِ خواجۂ اجمیر بنے میرا کفن
منبعِ نور ہے سنگِ درِ خواجہ خاکٓی
ماند ہیں اس کے مُقابل میں سبھی لعلِ یمن
از : شمس تبریز خاکٓی ظہوری مرکزی
خانقاہ ظہوریہ چشتیہ قادریہ{بلگرام شریف}
رابطہ نمبر : 8791336136