آپ کا وقت ہیرے سے زیادہ قیمتی ہے

آپ کا وقت ہیرے سے زیادہ قیمتی ہے

Table of Contents

آپ کا وقت ہیرے سے زیادہ قیمتی ہے

تحریر: شہباز احمد مصباحی

آپ کا وقت ہیرے سے زیادہ قیمتی ہے
آپ کا وقت ہیرے سے زیادہ قیمتی ہے

وقت اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے، جو امیر و غریب، چھوٹے بڑے، سب کو یکساں طور پر ملی ہے۔ جس نے اس نعمت کی قدر کی وہ کام یاب ہے، جس نے اسے ضائع کر دیا وہ خسارے میں ہے۔ زمانہ انہی کو یاد رکھتا ہے جو اس کی قدر کرتے ہیں۔

مصطفیٰ جان رحمت، سرکار دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا وقت کی اہمیت سے متعلق ارشاد ہے :
نعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنْ النَّاسِ الصِّحَّةُ وَالْفَرَاغُ.
(صحیح البخاری، الحدیث : 6412)
دونعمتیں ایسی ہیں جن میں اکثر لوگ گھاٹے میں ہیں۔
صحتفراغت۔

دوسری حدیث میں ہے:
"من حسن اسلام المرء ترکہ مالایعنیہ”
*کسی شخص کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ بے کار باتوں کو چھوڑ دے۔*
(جامع الترمذی، الحدیث :2317)
یعنی ایسی باتیں یا ایسے کام، جس سے نہ تو دنیوی فائدہ اور نہ دینی، تو ایسی چیزوں کے ٹوہ میں پڑکر وقت ضائع نہ کرے ۔

حضرت مفتی قاسم عطاری دام ظلہ العالی (صاحب تفسیر صراط الجنان) نے وقت کی اہمیت کے حوالے سے اپنے ایک بیان میں فرمایا:

وقت اڑتا جارہا ہے، اچھی خبر یہ ہے کہ اس کا اڑانا آپ کے ہاتھ میں ہے کہ آپ اسے کیسے اور کدھر اڑا رہے ہیں ۔
اگر آپ کو اپنی زندگی سے پیار ہے تو وقت ضائع نہ کریں؛کیوں کہ وقت ہی کا نام تو زندگی ہے۔ اگر آپ نے وقت ضائع کیا تو گویا آپ نے اپنی زندگی کو ضائع کردیا ۔

مزید فرماتے ہیں:
وقت وہ شی ہے جس نے اسے صحیح استعمال کیا وہ بھی دوسروں کو کہتا ہے "وقت کی قدر کرو” اور جس نے وقت کو برباد کیا وہ بھی دوسروں کو کہتا ہے "وقت کی قدر کرو” ۔
آپ وقت کی قدر کرنے والے وہ بنیں، جو کام یاب ہوکر کہتے ہیں کہ وقت کی قدر کرو، وہ نہ بنیں، جو ناکام ہوکر کہتے ہیں کہ وقت کی قدر کرو۔

عزیز طلبہ ! جب آپ اپنے اسلاف کرام اور کامیاب شخصیات کی زندگی کا مطالعہ کریں گے تو مشترکہ طور پر سب کے اندر یہ بات نظر آئے گی کہ وہ وقت کے بڑے پابند تھے، ان کا کوئی لمحہ ضائع نہیں ہوتا تھا، یہی وجہ ہے کہ آج دنیا انہیں اپنا آئیڈیل تسلیم کرنے کے ساتھ ان کے علمی کارنامے سے استفادہ کرتی ہے ۔

حضرت امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ جب کھانا تناول کرتے تو اس میں جو وقت لگتا، اس پر بہت افسوس کرتے کہ اتنا وقت ضائع ہوگیا اور میں علم حاصل نہیں کرسکا۔
(قیمۃ الزمن عندالعلما،ص: 65، 66، ناشر : مکتب المطبوعات الاسلامیہ)

امام حافظ منذری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کھانے کے وقت میں بھی کتاب کے مطالعے میں مصروف رہتے ۔
(مرجع سابق، ص:69)

محدث وقت، حضرت امام ابوبکر خطیب بغدادی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ راہ چلتے ہوئے بھی کتاب کا مطالعہ کرتے رہتے۔
(مرجع سابق، ص: 51)

علم عروض کے موجد اور فن نحو کے مشہور امام خلیل بن احمد فرماتے تھے:
وہ ساعتیں مجھ پر بڑی گراں گزرتی ہیں جن میں، میں کھانا کھاتا ہوں۔
(علم اور علما کی اہمیت، ص:23، ناشر : مکتبہ اہل سنت)

اسی کتاب میں ہے :
مشہور محدث، ابن شاہین رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے صرف روشنائی اتنی استعمال کی کہ اس کی قیمت سات سو درہم بنتی تھی ۔

حضرت امام محمد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی تالیفات ایک ہزار کے قریب ہیں ۔

حضرت ابن جریر رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اپنی زندگی میں تین لاکھ اٹھاون ہزار اوراق لکھے۔

علامہ باقلانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے صرف معتزلہ کے رد میں ستر ہزار اوراق لکھے ۔
(مرجع سابق : ص:21)

اعلیٰ حضرت، مجدد دین و ملت، امام احمد رضا قادری حنفی قدس سرہ نے ایک ہزار سے زائد کتابیں تصنیف فرمائیں، اور فتویٰ نویسی کی ابتدا سوا تیرہ سال کی عمر میں کی اور دن رات میں اڑھائی تین گھنٹے کے قریب آرام فرماتے، بیماری کی حالت میں بھی کبھی مطالعہ و تصنیف و تحریر کو نہ چھوڑا۔
(مرجع سابق، ص:17)

عزیز طلبہ! یہ تھے ہمارے اسلاف جن کا ایک ایک لمحہ قیمتی تھا، تبھی کامیابی نے ان کے قدم کا بوسہ لیا، اگر ہم بھی اپنے اوقات کو قیمتی بنالیں تو ہم بھی کامیاب لوگوں کی فہرست میں نظر آئیں گے ۔

ہمیں چاہیے کہ درس گاہ میں پابندی کے ساتھ شریک ہوں، اساتذہ کے لبوں سے لٹائے جانے والے انمول موتیوں کو دامن میں سمیٹیں، براہ راست ان کے فیوض و برکات سے مالا مال ہوں۔

ارسطو کا قول ہے :

مجھے کسی استاد کی خدمت میں بیٹھ کر ایک درس لینا، دس سال کے مطالعہ سے بہتر ہے ۔

درس گاہ کے اوقات کا بے صبری سے انتظار کریں، اپنی دیگر مصروفیات سے کہیں کہ مجھے درس گاہ میں شرکت کرنی ہے۔

قاضی الشرق والغرب سیدنا امام ابویوسف رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ بڑی پابندی کے ساتھ اپنے مشفق استاد سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی درس گاہ میں حاضر ہوا کرتے تھے، اسی دوران آپ کے لخت جگر کا وصال ہوگیا، تجہیز و تکفین اپنے رشتہ داروں کے حوالے کرکے درس گاہ میں شرکت کے لیے چلے گئے ۔
(قیمۃ الزمن عند العلما، ص:30)

استاذ گرامی، صدرالعلما علامہ محمد احمد مصباحی دام ظلہ العالی لکھتے ہیں:

(جامعہ اشرفیہ) مبارک پور کے پورے تین سالہ ایام تعلیم میں کل غیر حاضری بیس دن سے زیادہ نہ ہوگی، جس میں دو تین دن کسی ضرورت کے تحت اور باقی سخت علالت کے تحت ہے۔
(ماہ نامہ اشرفیہ مبارک پور،نومبر، دسمبر 1992ء، ص:39)

اے طالبان علوم نبویہ!
جی ہاں، مستقبل میں آپ کو امت مسلمہ کی قیادت کرنی ہے۔
دین اسلام پر دشمنان دین کے یلغار کا جواب آپ کو دینا ہے۔
مذہب و مسلک پر حملہ کا دفاع آپ کو کرنا ہے۔
اہل سنت و جماعت اور مجلس جامعات المدینہ کی امیدیں آپ سے وابستہ ہیں۔
اپنے والدین کے آپ وہ خواب ہیں، جسے وہ آنکھوں میں سجائے ہوئے ہیں، اسے آپ کو شرمندۂ تعبیر کرنا ہے۔
آپ آنے والے وقت کے مفتی، مفسر، محدث، مصنف اور مبلغ ہیں۔

بس ضرورت ہے کہ ہم وقت کی قدر کریں، اگر آج ہم نے وقت کی قدر کی، کل وقت بھی ہماری قدر کرے گا۔

تحریر: شہباز احمد مصباحی

جامعۃ المدینہ––پڑاؤ،بنارس

مزید پڑھیں

متحد ہو تو بدل ڈالو زمانے کا نظام

زندگی میں والدین کی اہمیت

 

 

شیئر کیجیے

Leave a comment