مختصر تاریخ تعمیر کعبہ

مختصر تاریخ تعمیر کعبہ

Table of Contents

مختصر تاریخ تعمیر کعبہ

از قلم: محمد توصیف رضا

مختصر تاریخ تعمیر کعبہ
مختصر تاریخ تعمیر کعبہ

 

زمانہ آدم علیہ السلام سے دور حاضر تک کی مختصر تاریخ تعمیر کعبہ

تفاسیر و تواریخ کی کتب میں ہے کہ کعبہ مقدسہ سب سے پہلے فرشتوں نے موتیوں سے بنایا – حضرت آدم علیہ السلام کی بنیاد پر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے نشان لگایا اور اپنا پر مار کر تحت الثریٰ تک بنیاد قائم کی اور اس میں کوہ لبنان، کوہ طور، کوہ جودی، کوہ حرا، کوہ ذیتا کے پتھر فرشتوں نے بھرے اور بیت اللہ شریف کی تعمیر میں تین پہاڑوں کے پتھر استعمال کئے گئے یعنی کوہ ابو قیس، کوہ حرا، کوہ درقان بیت اللہ شریف کی تعمیر کی ابتدا یکم ذیقعدہ کو ہوئی اور ٢۵ ذیقعدہ کو مکمل ہو گئی —

( ١ ) کعبہ معظمہ کو سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے تعمیر کیا اور وہ عمارت طوفان نوح علیہ السلام تک قائم رہی طوفان میں وہ عمارت تو منہدم ہو گئی مگر حجر اسود کو جبرئیل علیہ السلام نے جبل ابوقیس ( قریب کعبہ شریف ) میں بحفاظت رکھ دیا تھا طوفان کے ختم ہونے کے بعد کعبہ مکرمہ کے مقام پر ایک سرخ رنگ کا ٹیلہ نمودار ہو گیا تھا —

( ٢ ) حضرت آدم علیہ السلام کے وصال کے بعد آپ کے بیٹوں نے چند پتھر جمع کر کے مکان تیار کیا

( ٣ ) انہیں بنیادوں پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ساتھ ملاکر کعبہ مکرمہ کو بنایا جس پتھر پر کھڑے ہوکر حضرت ابراھیم علیہ السلام کام کرتے تھے وہ ابھی تک وہاں موجود ہے جسے مقام ابراہیم کہتے ہیں

( ۴ ) ایک پہاڑی کے نالے کے پانی کی وجہ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بنائی ہوئی عمارت بھی گر گئی تو قبیلہ جرہم نے اسے جوں کا توں پھر سے بنا دیا

( ۵ ) قبیلہ جرہم کی بنائی ہوئی عمارت بھی گر گئی پھر قوم عمالیق کے ایک قبیلہ بنی حمیر نے تعمیر کیا

( ٦ ) قبیلہ بنی حمیر کے بعد قصیٰ بن کلاب نے اسے بنایا اور اس پر غلاف سیاہ ڈالا – یہ عمارت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دس بارہ برس کی عمر تک قائم رہی اس وقت ایک عورت پردہ کے پاس کھڑی ہوئی بخور جلا رہی تھی کہ پردہ میں آگ لگی اور تمام عمارت جل گئی

( ٧ ) پھر اہل قریش نے خانہ کعبہ کو بنایا اور وہی صورت حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے زمانہ تک قائم رہی یعنی دائرہ مطاف ہی حد حرم تھا اور آمد و رفت باب بنی شیبہ سے ہوتی تھی – جسے اب ” باب السلام ، کہتے ہیں حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ( ١۴ ھجری ) میں مطاف کے ارد گرد کے مکان لوگوں سے مول لے کر صحن بڑھا دیا اور اس کے ارد گرد قدم آدم کے برابر دیوار کھڑی کر دی اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے زمانے میں اور مکان خرید کر صحن کو اور بھی کشادہ کیا

( ٨ ) حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد میں بدستور قدیم خانہ کعبہ کو بنایا اور حطیم کی زمین کو پھر اندر لے لیا اور دو دروازے زمین کے برابر بنا کے بھرت کو اندر سے نکال دیا ( ٢٧ رجب ٦۴ ھجری ) کو یہ عمارت تیار ہو چکی اور حرم کے ارد گرد کے مکان خرید کے مسجد الحرام میں شامل کر لئے گئے

( ٩ ) ان کے بعد بنی امیہ کا دور ہوا حجاج بن یوسف کے نائب عبد الملک بن مروان نے حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی عمارت کو نا پسند کرتے ہوئے دوبارہ قریش طرز پر بنا دیا مشرق کی طرف صرف ایک دروازہ رکھا اور اندر سے قد آدم بھرت کر کے دروازہ اونچا کر دیا اور چھت اور کواڑ ساج کی لکڑی کے بنائے اور حطیم کی زمین کو باہر کر دیا – یہ تعمیر ( ٧۴ ھجری) میں ہوئی پھر ولید بن عبد الملک نے صحن کو بڑھا دیا اور ( ١٦٩ ھجری ) میں اس کی تعمیر ختم ہوئی پھر معتضد عباسی نے صحن کو بڑھایا اور محلہ دار الندوہ کو حرم میں داخل کر کے ایک دروازہ قائم کیا جس کا نام باب الزیارہ رکھا چنانچہ یہ تعمیر حجاج بن یوسف کے عہد سے سلطان مراد خاں بن احمد خان ( سلطان روم ) کے عہد تک قائم رہی

( ١٠ ) پھر اس کے بعد خانہ کعبہ کی تعمیر عثمانی سلطان مراد خان نے کرائی مراد خاں کے وصال کے بعد خانہ کعبہ کی تعمیر و توسیع عثمانی سلاطین کی دور میں ہوتی رہی

( ١١ ) پھر عثمانی سلاطین کے بعد تعمیر کا کام بنو سعود نے کیا اور سعودی حکومت نے حاجیوں کی زیادتی کی سبب خانہ کعبہ کے گرد زمین کو مزید کشادہ کیا اور ضررت کے تحت ابھی بھی تعمیری کام ہوتا رہتا ہے——-

طالب دعا
محمد توصیف رضا

مزید پڑھیں

متحد ہو تو بدل ڈالو زمانے کا نظام

زندگی میں والدین کی اہمیت

آپ کا وقت ہیرے سے زیادہ قیمتی ہے

باب اعتقادیات کے مشاہیر ائمۂ کرام

 

شیئر کیجیے

Leave a comment