کس کس کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں کس کس کو نہیں؟

کس کس کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں کس کس کو نہیں؟

Table of Contents

کس کس کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں کس کس کو نہیں؟

از قلم:محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی

کس کس کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں کس کس کو نہیں؟سوال:

اپنے خاندان یا رشتے دار میں سے کن کن کو زکوة نہیں دے سکتے؟ اور کن کن کو دے سکتے ہیں؟ ( زکوۃ کے احکام )(کس کس کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں )

جواب:

اپنے خاندان میں سے اپنی اصل جیسے ماں باپ ، دادا دادی، نانا نانی وغیرہ (یعنی جن کی اولاد میں صاحب نصاب ہے) اور اپنی اولاد جیسے بیٹا بیٹی، پوتا پوتی، نواسا نواسی وغیرہ (یعنی صاحب نصاب کی نسل سے جو ہیں) انھیں زکوة نہیں دے سکتے ۔فتاوی عالمگیری جلد اول ،کتاب الزکاة، باب المصارف ،ص: ١٨٨/ میں ہے "لایدفع الی اصلہ وان علا وفرعہ وان سفل” اور ایساہی کچھ مزید وضاحت کے ساتھ ھدایہ اولین ، جلد اول ، کتاب الزکوة ، ص: ١٨٦ / میں ہے ” ولایدفع المزکی مالہ الی ابیہ وجدہ وان علا ولا الی ولدہ وولد ولدہ وان سفل لان منافع الاملاک بینھم متصلة فلایتحقق التملیک علی الکمال”۔

اسی طرح عورت شوہر کو اور شوہر عورت کو زکوة نہیں دے سکتے۔اسی میں ہے ” ولا الی امراتہ للاشتراک فی المنافع عادة ولا تدفع المراة الی زوجھا عند ابی حنیفة رحمہ اللہ تعالی کذا فی العالمگیری ایضا ۔

اور اپنے خاندان و رشتے دار میں سے اپنے سگے یا علاتی یا اخیافی بھائیوں اور بہنوں ۔ بہو ، داماد ، سوتیلی ماں ، سوتیلا باپ ، خالہ خالو، چچا چچی، بھتیجا بھتیجی ، بھانجا بھانجی ، پھوپھا پھوپھی، ماما ممانی، ساس سسر وغیرہم جیسے اہل خاندان ورشتے دار کو زکوة دے سکتے ہیں۔ بلکہ ان کو دینا غیروں کو دینے سے افضل ہے کہ یہ صدقہ بھی ہے اور صلہ رحمی بھی ۔بشرطیکہ یہ فقیر اور محتاج ہوں ۔ فتاوی امجدیہ ، جلد اول ، ص: ٣٧١۔

 

سوال:

اگر کوئی سید محتاج اور ضرورت مند ہوں تو کیا ان کو زکوة دے سکتے ہیں ؟*

جواب:

نہیں دے سکتے اگر دیں گے تو زکوة ادا نہ ہوگی ۔ حدیث شریف میں ہے "انما الصدقات اوساخ الناس لاتحل لمحمد ولا لآل محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ”

ہاں اگر کوئی سید زادہ حاجت مند ہوں تو زکوة کے علاوہ کسی دوسرے پاکیزہ مال سے ان کی خدمت کریں اگر اس کی استطاعت نہ ہو اور زکوة ہی کے مال سےان کی خدمت کرنا چاہیں تو کسی مستحق زکوة کو وہ مال دے دیں اور مالک کردیں اور اس سے کہ دیں کہ تو اپنی طرف سے فلاں سید زادے کو یہ مال دیدے تو اس طرح سے دے سکتے ہیں۔ (فتاوی امجدیہ ، جلد اول، ص :٣٩٠)ایساہی فتاوی رضویہ جلد چہارم میں بھی ہے ۔

 

سوال :

کیا کسی غریب وہابی دیوبندی یا کافر و مشرک کو زکوة دینے سے زکاة ادا ہوجائے گی؟*

جواب:

ہرگز نہیں اس کو زکوة دینا حرام ہے اعلی حضرت امام احمد رضا خاں علیہ الرحمہ وہابی ، دیوبندی ، کافر ، مشرک وغیرہ کو زکوة دینے سے متعلق فرماتے ہیں "ان کو زکوة دینا حرام ہے ان کو زکوة دینے سے زکوة ادا نہ ہوگی۔ (فتاوی رضویہ جلد چہارم ،ص: ۴٢٨)۔

*فقط واللہ تعالی اعلم بالصواب*

*کتبہ*

العبد الفقیر الی ربہ القدیر محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی غفرلہ القوی

خادم اشرفی نقشبندی دار الافتاء وشیخ الحدیث وصدرالمدرسین جامعہ فاطمة الزھراء للبنات سلواس دادرا نگر حویلی ۔

١۴/ رمضان المبارک ١۴۴٢۔p

٢٧/اپریل ٢٠٢١ بروز منگل

 

گزارش:

اس میں زکوة سے متعلق اور کس طرح کےسوالات درج کیا جانا چاہیے آپ ہمیں ہمارے نمبر پر لکھ کر بھیج سکتے ہیں ان شاء اللہ العزیز ہم اسے اگلی قسطوں میں شامل تحریر کرنے کی بھر پور کوشش کریں گے ۔ ہاں مگر جلدی جلدی کی گردان نہ گردانیں کہ ہم خود ہی اپنے احباب کے سوالات کے جوابات جلد از جلد لکھنے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں مگر چہ کنم کارہائے دیں و دنیا نمی گزارند۔

 

از قلم:محمد ساحل پرویز اشرفی جامعی

9156461563

زکوٰۃ کے اھم فضائل

 

شیئر کیجیے

Leave a comment