سوانح حیات امام محمد بن حسن شیبانی

سوانح حیات امام محمد بن حسن شیبانی

Table of Contents

سوانح حیات امام محمد بن حسن شیبانی

راقم الحروف؛ محمد اشفاق عالم امجدی علیمی (بچباری آبادپور کٹیہار)
فضیلت سال اخیر؛ جامعہ علیمیہ جمداشاہی(بستی یوپی)

امام محمد بن حسن شیبانی حدیث و فقہ کے استاذ امام اور مجتھد عابد و زاہد و فیاض صاحب تصانیف کثیرہ واصل مراتب عظیمہ کے مالک ہے آپ نے ایک لاکھ سے زیادہ مسائل مستنبط کیے۔ ہزار کے لگ بھگ کتابیں تصنیف کیں اور بے شمار شاگرد چھوڑے خطیب بغدادی لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ ابن الحشم نے یحیٰی بن صالح سے کہا تم امام مالک بن انس اور امام محمد بن حسن دونوں کی خدمت میں رہے ہو ، بتاؤ ان دونوں میں کون زیادہ فقیہ تھا۔ تو یحیٰی بن صالح نے بغیر کسی تردد کے جواب دیا امام محمد امام مالک سے زیادہ فقیہ تھے۔
اور یہی خطیب بغدادی لکھتے ہیں کہ امام شافعی فرمایا کرتے تھے کہ علوم فقہیہ میں مجھ پر سب سے زیادہ احسان جس شخص کا ہے وہ محمد بن حسن ہیں امام ذہبی لکھتے ہیں کہ امام شافعی کہتے تھے کہ اگر میں یہ کہنا چاہوں کہ قرآن محمد بن حسن کی لغت میں اترا ہے تو میں یہ بات امام محمد کی وضاحت کی بنیاد پر کہہ سکتاہوں اور مولانا عبد الحئی لکھتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل سے کسی نے پوچھا آپ نے یہ مسائل دقیقہ کہاں سے سیکھے، فرمایا امام محمد کی کتابوں سے۔

ولادت و سلسلہ نسب؛ خطیب بغدادی حافظ ذہبی اور ابو محمد عبد القادر قرشی صاحب الجواھر المضیہ نے آپ کا نام اس طرح ذکر کیا ہے۔ ابو عبداللہ محمد بن حسن بن فرقد شیبانی حافظ ابن بزاد کردی اور دوسرے محققین نے بھی آپ کا نسب یونہی ذکر کیا ہے البتہ صاحب کافی نے ایک روایت سے آپ کا نسب یوں بھی بیان کیا ہے محمد بن حسن بن عبداللہ طاوءس بن ہرمز ملک بنی شیبان لیکن صحیح نسب وہی ہے جس کو اکثر علماء نے بیان کیا ہے۔ نسبت شیبانی کے بارے میں بھی مختلف آراء ہیں بعض علماء کے خیال میں یہ آپ کے قبیلہ کی نسبت ہے اور بعض محققین کے نزدیک یہ نسبت دلائی ہے کیونکہ آپ کے والد بنو شیبان کے غلام تھے آپ کے والد حسن بن فرقد دمشق کے شہر حرب کے رہنے والے تھے بعد میں وہ ترک وطن کرکے عراق کے شہر واسط میں آگیے امام محمد ١٣٢ھ میں اسی جگہ پیدا ہوئے بعض تذکرہ نویسوں نے ١٣٥ھ بھی سال ولادت تحریر کیا ہے۔

تعلیم وتربیت؛ واسط میں کچھ عرصہ ٹھہر نے کے بعد آپ کے والد کوفہ چلے آۓ اور امام محمد کی تعلیم وتربیت کا آغاز اسی شہر سے ہوا حرمین شریفین کے بعد کوفہ اس دور کا سب سے بڑا مرکز علمی خیال کیا جاتا تھا اس وقت کوفہ میں امام اعظم ابوحنیفہ ،امام ابو یوسف ،مسعر بن کدام اور سفیان ثوری جیسے نابغہ روزگار حضرات کے علم وفضل کا چرچا تھا امام محمد نے قرآن کریم پڑھا علوم ادبیہ حاصل کیے اور پھر دینی علوم کی طرف متوجہ ہوگئے۔
امام اعظم ابو حنیفہ کی خدمت میں؛ امام محمد ایک مرتبہ ایک اعظم کی مجلس میں حاضر ہوئے مجلس میں آکر امام صاحب کے بارے میں سوال کیا امام ابو یوسف نے آپ کی رہنمائی کی آپ نے امام اعظم سے دریافت کیا کہ ایک نابالغ لڑکا عشاء کی نماز پڑھ کر سو جائے اور اسی رات فجر سے پہلے وہ بالغ ہو جائے تو وہ نماز دہرائے گا یا نہیں۔امام اعظم نے فرمایا دہرائے گا امام محمد اسی وقت اٹھ کر ایک گوشہ میں نماز پڑھی امام اعظم نے یہ دیکھ کر بے ساختہ فرمایا انشاءاللہ یہ لڑکارجل رشیدہ ثابت ہوگا اس واقعہ کے بعد امام محمد گاہے گاہے امام اعظم کی مجلس میں حاضر ہوتے رہے کم سن تھے اور بے حد خوبصورت جب باقاعدہ تلمس کی درخواست کی تو امام اعظم نے فرمایا پہلے قرآن حفظ کرو پھر آنا۔ سات دن بعد پھر حاضر ہو گئے امام اعظم نے فرمایا؛ میں نے کہا تھا کہ قرآن مجید حفظ کر کے پھر آنا عرض کیا میں نے قرآن کریم حفظ کر لیا ہے۔ امام اعظم نے ان کے والد سے کہا اس کے سر کے بال منڈوا دو لیکن بال منڈوانے کے بعد ان کا حسن اور دمکنے لگا ابو نواس نے اس موقع پر یہ اشعار کہے۔
حلقوا راسه لیکسوہ قبحا۔غیرۃ منہم علیه وشحا۔
کان فی وجهه صباح و لیل۔نزعوا لیله وابقوہ صبحا۔

(سوانح حیات امام محمد بن حسن شیبانی)

لوگوں نے ان کا سر منڈا دیا تاکہ ان کی خوبصورتی کم ہو ان کے چہرے میں صبح بھی تھی اور رات بھی رات کو انہوں نے ہٹا دیا صبح تو پھر بھی باقی رہی امام محمد چار سال تک امام اعظم کی خدمت میں رہے اور سفر و حضر میں بھی امام صاحب کے ساتھ رہے اور ان سے علوم دینیہ خصوصا فقہ میں برابر استفادہ کرتے رہے۔
امام ابو یوسف سے تلمذ؛ فقہ ایک وسیع علم ہے کیونکہ کتاب و سنت سے مسائل کے استنباط اور اجتہاد کے لیے وقیع نظر اور بصیرت کی ضرورت ہے ۔امام محمد کو اس موضوع پر جس عظیم کام کرنے کی ضرورت تھی اس لیے ابھی علم کی مزید تحصیل اور مہارت کی ضرورت تھی ۔اس لیے امام اعظم کے وصال کے بعد امام محمد نے امام ابو یوسف کی طرف رجوع کیا ۔
۔امام ابو یوسف جو ہر شناس تھے ۔انہوں نے امام محمد کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ۔علم و فضل اور مرتبہ کی برتری کے باوصف وہ امام محمد کی بہت روایت کرتے تھے۔اسماعیل بن حماد بیان کرتے ہیں کہ امام ابو یوسف علی الصبح درس شروع کیا کرتے تھے ۔ امام محمد اس وقت سماع حدیث کے لیے دوسرے اساتذہ کے پاس جاتے تھے ۔جب امام ابو یوسف حدیث کے درس میں پہنچتے تو ان کے زیر درس کافی مسائل گزر چکے ہوتے تھے ۔لیکن امام ابو یوسف امام محمد کی خاطر ان تمام مسائل کو پھر دہرایا کرتے تھے۔
امام مالک کی خدمت میں؛ امام محمد کو فقہ کے ساتھ ساتھ علم حدیث کی تحصیل کی بھی لگن تھی چنانچہ وہ امام اعظم کے بعد امام مالک کے درس حدیث میں حاضر ہوئے جس طرح امام اعظم فقہ میں بے نظیر تھے اسی طرح امام مالک علم حدیث میں بے مثال تھے اور یہ امام محمد کی خوش قسمتی تھی کہ ان کو امام اعظم اور امام مالک جیسے دو عظیم اماموں سے درس حدیث میں حاضر ہوئے جس طرح امام اعظم فقہ میں بے نظیر تھے اسی طرح امام مالک علم حدیث میں بے مثال تھے ۔اور یہ امام محمد کی خوش قسمتی تھی کہ ان کو امام اعظم اور امام مالک جیسے دو عظیم اماموں سے شرف تلمذ حاصل ہوا۔امام محمد بیان فرماتے ہیں کہ وہ تین سال سے زیادہ عرصہ تک امام مالک کی خدمت میں رہے اور ان سے ٧٠٠ سے زیادہ احادیث کا سماع کیا۔
دیگر اساتذہ؛ امام ابو حنیفہ امام ابو یوسف اور امام مالک کے علاوہ جن اساتذہ سے امام محمد نے علم حدیث حاصل کیا خطیب بغدادی نے ان میں مسعر بن کدام، سفیان ثوری، عمر بن زرا در مالک بن مفعول کا ذکر کیا ہے حافظ بن حجر عسقلانی ان اساتذہ کے علاوہ امام اوزاعی اور زمعہ بن صالح کا بھی ذکر کیا ہے ۔اور امام نوری نے تہذیب الا سما میں ان کے اساتذہ میں ربیع بن صالح اور بکیر بن عامر کا بھی ذکر کیا ہے۔ ان مشاہیر اساتذہ حدیث کے علاوہ امام محمد نے اس وقت کے دیگر مشاہیر حدیث سے بھی استفادہ کیا اور ان سے روایت اور اجازت حاصل کی۔

(سوانح حیات امام محمد بن حسن شیبانی)

تلامذہ؛ امام محمد کے علم و فضل کی شہرت بہت دور دور پھیل چکی تھی اور اطراف و اکناف سے تشنگان علم آپ کی خدمت میں آکر علم کی پیاس بجھاتے تھے۔ خطیب بغدادی نے آپ کے تلامذہ میں محمد بن ادریس شافعی، ابو سلیمان جونسجانی، ہشام بن عبیداللہ رازی، ابو عبد اللہ القاسم بن سلام، اسماعیل بن توبہ اور علی بن مسلم کا ذکر کیا ہے، حافظ ابن حجر نے ان کے علاوہ علی ابن مسلم طوسی کا بھی ذکر کیا ہے۔
ذہانت و فطانت؛ امام محمد بےحد ذہین اور زیرک تھے، اور بڑے بڑے عقدوں کو آسانی سے حل کر دیا کر تے تھے، اور امام بخاری بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ فضیل نے ابراہیم سے مسئلہ پوچھا کہ اگر مینڈک سرکہ میں گر جائے تو سرکہ پاک ہے یا ناپاک، ابراہیم نے کہا مجھے معلوم نہیں، یحییٰ بن سلام سے پوچھو ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا مجھے پتہ نہیں عثمان بن عیینہ سے پوچھو ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا مجھے علم نہیں امام محمد سے پوچھو، امام محمد سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ سرکہ پاک ہے کیونکہ مینڈک اپے معدن میں مرا ہے پھر اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا اگر مینڈک پانی میں مر جائے تو وہ پانی پاک ہوتا ہے اور اس پانی کو سرکہ میں ڈال دو تو وہ سرکہ بھی پاک رہے گا، اسی طرح مینڈک سرکہ میں گر جائے تو وہ بھی ناپاک نہیں ہو گا امام محمد نے جب اس مسئلہ کی تقریر کی تو سامعین حیران رہ گئے
ایک مرتبہ ہارون رشید نے آپ سے کہا کہ میں نے زبیدہ سے کہا کہ میں امام عادل ہوں اور امام عادل جنت میں ہوتا ہے، زبیدہ نے پلٹ کر کہا نہیں تم ظالم اور فاجر ہو اور جنت کے اہل نہیں ہو، آپ نے یہ سن کر ہارون رشید سے فرمایا کبھی گناہ کے وقت یا گناہ کے بعد تم کو خدا کا خوف لاحق ہوا ہارون رشید نے کہا خدا کی قسم مجھے گناہ کے بعد اللہ تعالٰی کا بے حد خوف ہوتاہے پھر تم دو جنتوں کے وارث ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ولمن خاف مقام ربہٖ جنتان، جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتاہے اللہ تعالٰی اس کو دو جنتیں عطافرماتاہے۔

(سوانح حیات امام محمد بن حسن شیبانی)

وصال؛ امام محمد نے اٹھاون سال عمر گزاری اور عمر کا بیشتر حصّہ فقہی تحقیقات اور مسائل کے استنباط اور اجتہاد میں گزارا۔ جب دوبارہ عہدۂ قضا پر بحال ہوئے اور قاضی القضاۃ مقرر ہوئے تو ان کو ایک مرتبہ ہارون الرشید اپنے ساتھ سفر پر لے گیا وہاں( رَے) کے اندر نبویہ نامی ایک بستی میں آپ کا وصال ہوگیا‌ اسی سفر میں ہارون کے ساتھ نحو کا مشہور امام کسائی بھی تھا اور اتفاق سے اسی دن یا دو دن بعد اس کا بھی انتقال ہوگیا۔ ہارون الرشید کو ان دونوں ائمہ فن کے وصال کا بے حد ملال ہوا اور اس نے افسوس سے کہا آج میں نے فقہ اور نحو دونوں کو رے میں دفن کردیا۔ روایت ہے کہ بعد وصال کسی نے آپ کو خواب میں دیکھ کر پوچھا کہ آپ کا نزع کے وقت کیا حال تھا۔ آپ نے فرمایا میں اس وقت مکاتب کے مسائل میں سے ایک مسئلہ پر غور کر رہا تھا مجھ کو روح نکلنے کی کچھ خبر نہیں ہوئی۔
خطیب بغدادی نے امام محمد کے تذکرہ کے اخیر محمد یہ نامی ایک بہت بڑے بزرگ جن کا شمار ابدال میں کیا جاتا ہے سے ایک روایت نقل ہے وہ فرماتے ہیں میں نے محمد بن حسن کو ان کے وصال کے بعد خواب میں دیکھا تو پوچھا اے ابو عبد اللہ! آپ کا کیا حال ہے؟ کہا اللّٰہ تعالٰی نے مجھ سے فرمایا آگر تمہیں عذاب دینے کا ارادہ ہوتا تو میں تمہیں یہ علم نہ عطا کرتا۔ میں نے پوچھا اور ابو یوسف کا کیا حال ہے؟ مجھ سے بلند درجہ میں ہیں۔ پوچھا اور ابو حنیفہ؟ کہا وہ ہم سے بہت زیادہ بلند درجوں پر فائز ہے۔(ماخوذ تذکرۃ المحدثین
رب غافر قدیر ہم سبھوں کو جملہ مشائخ عظام کے فیضان سے مالامال فرمائے، اور بزرگان دین کے نقش قدم پر چلنے اور مسلک حق یعنی مسلک اعلیٰ حضرت پہ قائم و دائم رہنے کی توفیق مرحمت فرمائے آمین بجاہ سید الانبیاء والمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم۔

خادم مسلک اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز (منجانب؛ امجدی مشن، المسائل بالدلائل گروپ


حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ

سوانح حیات امام ابو جعفر طحاوی

حیات اعلی حضرت علیہ الرحمہ

شیئر کیجیے

Leave a comment