نکاح رحمت یا زحمت؟

نکاح رحمت یا زحمت؟

Table of Contents

نکاح رحمت یا زحمت؟
نکاح رحمت یا زحمت؟

نکاح رحمت یا زحمت؟

تحریر: ساغر جمیل رشک مرکزی

نکاح ایک ایسی عبادت ہے جو تقریباً تمام انبیا و رسولان عظام کی سنت رہی ہے۔ اور اسے آدھا دین قرار دیا گیا ہے۔ یہ نگاہوں کو نیچی کرتا ہے اور گناہوں سے دور رکھتا ہے۔ زوجین کو سکون بخشتا ہے اور افزائش نسل کا سبب بنتا ہے۔ جب اللہ تبارک وتعالی نے اپنے خلیفہ ابو البشر حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام کو پیدا فرمایا تو آپ جنت میں ساری آسائشیں ہونے کے باوجود گھبراتے تھے اور تنہائی سے کوفت محسوس کرتے تھے تب اللہ تعالی نے آپ کی اُس تنہائی کو دور کرنے کے لیے آپ کی بائیں پسلی سے حضرت حوا علیہا السلام کو پیدا فرمایا پھر آپ دونوں کے درمیان رشتہء ازدواج قائم فرمایا تاکہ آپ دونوں ایک دوسرے کے لیے حلال ہوجائیں اور سکون حاصل کر سکیں جیسا کہ ارشاد باری تبارک وتعالی ہے: "وہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی میں سے اس کا جوڑا بنایا کہ اس سے چین پائے”۔(الأعراف 7/آیت 189) جس نکاح کو اللہ تعالی نے چین و سکون کے لیے قائم فرمایا اسی کو ہم نے سینکڑوں والدین کے چین و سکون کو برباد کرنے کا ذریعہ بنالیا ۔ نکاح کے حوالے سے اگر ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو اس میں اسلامی رسمیں کم، غیر اسلامی رسمیں زیادہ ملیں گی۔ چاہے جہیز کے نام پر ہو یا باراتیوں کے کھانے کے نام پر، منہ دکھائی کے طور پر ہو یا مہندی کی رسم کے طور پر، آتش بازی کی شکل میں ہو یا بینڈ باجے کی شکل میں گو کہ بے شمار غلط رسمیں ہم نے اختیار کر لی ہیں اور سیدھے سادے دینی فریضے کو لکھوں کا پیکج بنا کر رکھ دیا ہے۔ایک اور مقام پر ارشاد فرماتا ہے:”اور اس کی نشانیوں سے ہے کہ تمہارے لیے تمہارے ہی جنس سے جوڑے بنائے کہ ان سے آرام پاؤ اور تمھارے درمیان محبت اور رحمت رکھی بے شک اس غور و فکر کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں”۔ جس رشتے کو اللہ تعالیٰ نے محبت و رحمت کا ضامن قرار دیا ہے اسی پاک رشتے کو ہم نے جہیز کے نام پر لوٹنے اور کمانے کا سامان بنا لیا۔ذرا سوچیں کہ آخر اس عورت کے دل میں محبت کیسے پیدا ہوسکتی ہے جس کے والدین کو ہم نے بار قرض سے بوجھل کر دیا ہو اور دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے پر مجبور کر دیا ہو۔اسی طرح ایک اور مقام پر اللہ جل جلالہ کا فرمان عالی شان ہے:”اور نکاح کردو اپنے میں ان کا جو بے نکاح ہوں اور اپنے لائق بندوں اور کنیزوں کا اگر وہ فقیر ہوں تو اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی کر دیگا اور اللہ وسعت والا علم والا ہے”۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے کہ اپنے غریب غلاموں کا نکاح کردو ہم اپنے فضل سے اُنہیں غنی کردیں گے مگر ہم اس آیت کا مفہوم کچھ اس طرح سمجھتے ہیں کہ لڑکی والوں سے جہیز مانگ لو غنی ہو جاؤ گے۔اب آئیے احادیثِ مبارکہ پر ایک نظر ڈالتے ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کے متعلق کیا ارشاد فرمایا ہے۔چانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اے نوجوانوں تم میں سے جو نکاح پر قدرت رکھے چاہیے کہ وہ شادی کرلے کیوں کہ یہ نگاہ کو نیچی کرنے والا اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا ہے اور جو استطاعت نہ رکھے تو وہ روزہ رکھے کیوں کہ یہ شہوت کو توڑنے والا ہے”۔(کتب ستہ) اس حدیث پاک پر ذرا غور کیجیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نکاح نگاہوں کو نیچی کرتا ہے اور شرمگاہ کی حفاظت کرتا ہے اور عصر حاضر کی شادیوں کا جائزہ لیجیے تو معلوم ہوگا کہ ہمارے یہاں شادیوں کی تقاریب میں نگاہیں نيچی نہیں ہوتیں بلکہ اور اوپر اٹھنے لگتی ہیں، ایسے تنگ اور چھوٹے چھوٹے لباس زیب تن کیے جاتے ہیں جو نا قابل بیان ہے۔اللہ بچائے ایسی تقریبوں سے۔ حتٰی کہ وہ عورتیں جو عام دنوں میں پردے کا اہتمام کرتی ہیں مگر شادیوں میں ان کے لباس بھی حیا سوز نظر آتے ہیں۔اب آئیے ولیمے کے تعلق سے ایک روایت ملاحظہ فرمائیں۔جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں انصار و مہاجرین کے ما بین مواخات فرمائی اور بے سر و سامان مہاجرین کو انصار کا بھائی قرار دیا، تو ان کو جہاں مال و اسباب کی ضرورت تھی وہیں زندگی گزارنے کے لیے شادی بیاہ کی بھی ضرورت تھی۔چناچہ حضرت عبد الرحمن بن عوف نے ایک عورت سے نکاح کر لیا۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد الرحمن بن عوف پر پیلے پن کا اثر دیکھا تو سرکار پوچھا یہ کیا ہے؟ تو آپ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے کھجور کی گٹھلی کے وزن کے برابر سونے پر ایک عورت سے نکاح کر لیا تو آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”بارك الله لك” اللہ تمہیں برکت سے نوازے اور (فرمایا) ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری سے۔(کتب ستہ)اگر ہم اس روایت پر غور کریں تو کئی چیزیں نکل کر سامنے آتی ہیں ایک تو یہ کہ دعوت و ولیمہ لڑکے پر ہے نہ کہ لڑکی والوں پر مگر ہمارے معاشرے میں اس کی صورت کُچھ یوں ہے کہ لڑکے والے ولیمہ تو کرتے ہیں لیکن لڑکی والوں پر کئی گنا بوجھ ڈال دیتے ہیں یعنی ان کے رشتے داروں کا انتظام الگ کرنا پڑتا ہے اور باراتیوں کے لشکر کا الگ اور ان دونوں سے بڑا بوجھ جہیز کا ہوتا ہے جس کے تلے بہت سے والدین کی زندگیاں ختم ہو جاتی ہیں مگر ان کا بوجھ ہلکا نہیں ہوتا۔ اور لڑکے اتنے بے شرم اور بے حس بن جاتے ہیں کہ نہ تو مہر ادا کرتے ہیں اور نہ ہی جہیز لینے میں کوئی کسر چھوڑتے ہیں۔ اور دوسری بات یہ کہ آپ نے فرمایا "ولیمہ کرو اگرچہ ایک بکری سے” یہ اس بات پر دال ہے کہ ولیمہ کرنے کے لیے ضروری نہیں کہ لاکھوں خرچ کریں بلکہ صدق دل سے اپنی استطاعت کے مطابق خرچ کرنا سنت کی ادائیگی کے لیے کافی ہے۔ اور تیسری بات یہ کہ جِس رشتے سے منسلک ہونے والوں کے لیے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی ہو تو غور کریں وہ رشتہ کتنا با برکت ہوگا مگر ہم نے اسی مبارک رشتے کو غیر شرعی کاموں اور رسم و رواج سے دنیا و آخرت میں زحمت بنا لیا ہے۔ہمارے معاشرے میں اتنی ساری برائیاں شادی بیاہ کے حوالے سے رائج ہیں لیکن تعجب ہے کہ ہم انہیں برائی نہیں سمجھتے بلکہ صرف رسم و رواج سمجھ کر کرتے ہی جا رہے ہیں اور دوسروں سے نئی نئی برائیاں اخذ کرنے میں لگے ہیں۔ اگر بنظر عمیق ان کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ صرف رسم و رواج نہیں بلکہ بدعت سیئہ ہے نیز مسلمانوں کو معاشی اعتبار سے کمزور کرنا ہے، اور نوجوانوں کو زنا جیسے برے فعل کی طرف دھکیلنا ہے۔ کیوں کہ بے جا رسومات کی وجہ سے غریب حتی کہ متوسط گھرانے کی لڑکیاں کنواری رہ جاتی رہ جاتی ہیں جس کی وجہ سے اجنبی مردوں کی طرف ان کا رجحان بڑھتا ہے، غلط روابط و تعلقات پیدا ہوتے ہیں اور یہی زنا تک لے جاتے ہیں۔ ان سب کی سب سے بڑی وجہ ہے ہماری قرآن و سنت سے رو گردانی اور اسلامی تعلیمات سے دوری۔ اور دوسری وجہ ہے فلم بنی کیوں کہ لوگ جیسا فلموں اور ڈراموں میں دیکھتے ہیں ویسا ہی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر ابھی ان برائیوں پر بند نہ باندھا گیا تو وہ دن دور نہیں کہ صرف ہمارے نام مسلمانوں جیسے ہوں گے باقی سارے کام غیروں جیسے۔لہذا ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اسلام اور پیغمبر اسلام کی تعلیمات کو عام کریں۔ قرآن و سنت کے مطابق زندگی گذاریں۔ نکاح کو آسان بنائیں اور زنا کو مشکل کریں تاکہ ایک صالح اور پاکیزہ معاشرہ وجود میں آئے اور زندگی پرسکون گذرے۔

تحریر: ساغر جمیل رشک مرکزی

ریسرچ اسکالر البرکات اسلامک ریسرچ اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ، علی گڑھ

مزید پڑھیں

کتابیں پڑھنے والا انسان ایک زندگی میں سو زندگی جی لیتا ہے

مساجد اور ائمۂ مساجد کا احترام دینی واخلاقی فریضہ

حضور حجۃ الاسلام اور قانون تحدید عمر ازدواج

حضور اعلی حضرت کا حیرت انگیز قوت حافظہ

معاشرہ کی تعمیر میں دینی مدارس کا کردار

اجمل العلما سیرت و خدمات

پر سکون نیند ایک بڑی نعمت ہے

دعوت و تبلیغ کا نبوی منہج

شیئر کیجیے

Leave a comment