نئی دنیا کے نئے کاروبار

نئی دنیا کے نئے کاروبار

Table of Contents

نئی دنیا کے نئے کاروبار
نئی دنیا کے نئے کاروبار

نئی دنیا کے نئے کاروبار

از قلم: پٹیل عبد الرحمن مصباحی

یہ نئی دنیا ہے، اسے ظلم و زیادتی کا جہان کہتے ہیں. یہاں ہر مجبوری ایک کاروبار ہے اور ہر کمزوری و لاچاری کی قیمت وصول کی جاتی ہے. زمینی حقیقت یہ ہے کہ آج کی دنیا بھوک، قرض اور علاج جیسے عالمی دھندوں کی آماجگاہ ہے. پرانے دور میں یہ تینوں چیزیں انسان کی بنیادی ضروریات میں سے تھیں مگر نئی یعنی کہ کیپٹلزم کی دنیا میں ان کو بہترین سامان تجارت کے درجے میں اتار لیا گیا ہے. یہ کاروبار بہت وسیع پیمانے پر اور انتہائی منظم طریقے سے کیے جاتے ہیں. ایک طرف غریبوں سے کوڑی کے مول مزدوری کروا کر خوب نفع کمایا جاتا ہے، جب کہ دوسری طرف متوسط طبقے کو محدود تنخواہ کے ساتھ زندگی بھر نوکری کا پابند رکھا جاتا ہے. پھر ان ہی مفلسوں کو امیری کے خواب دکھا کر سودی قرضے تھما دیے جاتے ہیں. پھر مزدوری اور نوکری کی مشقت میں پِس کر قرضے کا بوجھ لیے پھرنے والا کوئی غریب یا متوسط درجے کا انسان جب اپنی صحت گنوا بیٹھے تو اسے علاج کی معاشی قتل گاہ میں لایا جاتا ہے.

اس کے بعد شروع ہوتا ہے کھیل رفاہ عامہ اور انسانی حقوق کا. ایک طرف بھوکوں کی مدد کے نام پر ان ہی غریبوں کے ہاتھوں سے تیار کردہ لاکھوں ٹن اناج میں سے چند ٹکڑے ان کے سامنے پھینک دیے جاتے ہیں اور اسی نوکری پیشہ متوسط طبقے کو اسی کی محنت سے جمع کیے گئے مختلف فنڈز؛ بھیک کی شکل میں دیے جاتے ہیں. جب کہ دوسری طرف غریب مریضوں کے علاج کے پردے میں اپنی دوائیوں کی تجربہ گاہ تعمیر کی جاتی ہے اور متوسط طبقے کا مریض انشورنس کے نام پر علاج کے ایک اور دلدل میں پھنس جاتا ہے. اس طرح امیروں کا اپنا ہی برپا کیا ہوا غریبوں کا استحصال؛ ان کی اپنی ہی شہرت کا ذریعہ بن جاتا ہے. پھر باری آتی ہے میڈیا کی. سرمایہ داروں کا غلام میڈیا چند سکے لے کر ان سفید پوش بھیڑیوں کو غریب پرور، عالمی برادری کا ہمدرد اور رفاہ عامہ کا تاجدار بنا کر پیش کر دیتا ہے اور چپکے سے غربت کے کاروبار میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے نفع خوری کی عالمی دوڑ میں شامل ہو جاتا ہے.

اس سے بھی دردناک مرحلہ ہنگامی صورت حال میں پیش آتا ہے، جب حکومتوں اور سرمایہ داروں کے گٹھ جوڑ سے عالمی سطح پر مہنگائی کا میلا رچایا جاتا ہے. یہ انسانیت سوز عمل بھی بھوک، قرضے اور علاج کی آڑ ہی میں انجام دیا جاتا ہے. راتوں رات جب بھی دنیا کو بدلنے کے خوبصورت نعرے کے ساتھ کسی انا پرست متعصب حکمران کا کوئی فرمان نافذ ہوتا ہے تو غریب کی جھولی میں اپنی سابقہ محنت کے بدلے میں صرف بھوک آتی ہے؛ کیوں کہ اس کی یومیہ اجرت کسی قسم کے ہنگامی حالات کے لیے پس اندازی کی اجازت نہیں دیتی. دوسری جانب متوسط طبقہ ناچار کئی گنا زائد قیمت پر چیزیں خریدنے پر مجبور ہوتا ہے؛ اس خیال میں کہ زندگی بچ گئی تو پھر کچھ کما لیں گے. جب کہ تیسری طرف کھڑے رہ کر ٹھنڈے دل و دماغ سے تباہی کا نظارہ کرنے والا سیاسی و معاشی اشرافیہ کا سفاک جھنڈ؛ غریبوں اور متوسط لوگوں کے قافلے کو لوٹتا ہوا پھر بھوک، قرض اور علاج کا کھیل کھیلنے کے لیے نئے میدان کی تلاش میں نکل پڑتا ہے. یہ کوئی مفروضہ نہیں بلکہ ایسی حقیقت ہے جسے عمومی طور پر پچھلی ایک صدی کے عرصے میں برتا گیا ہے اور خصوصی طور پر گزشتہ سال عالمی وبا کے دوران اور اس کے بعد کے ایام میں پوری دنیا نے اسے صرف دیکھا ہی نہیں بلکہ جھیلا بھی ہے.

کیا موجودہ دنیا کا یہ بھیانک نقشہ ہمیں اسلامی تعلیمات کی عالم گیر اہمیت کی طرف توجہ نہیں دلاتا؟ کیسا حکیم رب ہے جس نے مؤمن کا کفارہ بھی کھانا کھلانا مقرر فرمایا. کیسی رحمت والی ذات ہے ہمارے آقا ﷺ کی جن کے خُلق عظیم کا نمایاں وصف بھوکوں کو کھانا کھلانا ہے. کیا غریب پرور لوگ بستے تھے خانقاہوں میں، جنہوں نے اپنے رسول کی اتباع میں "لنگر” کے نام پر ہمیشہ اپنا دسترخوان آباد رکھا. کیسا متوازن ہے وہ منشور جہاں سود خور؛ خدا رسول سے لڑائی مول لینے والا قرار پاتا ہے اور قرض کی رقم ہضم کر جانے کا عادی؛ شہید بھی ہو تو قابل گرفت ٹھہرتا ہے. کیسا رحمت والا ہے وہ نظام جہاں بیماری کو متعدی نہیں مانا جاتا اور عیادت کو اہم فریضہ کا درجہ حاصل ہے. ایک ایسا نظام زندگی جس کے احکام کسی بھی مرحلے میں انسانی ضروریات کو کاروبار نہیں بننے دیتے. جس کے معاشرتی قوانین؛ غذائی تعاون، مالی تعاون اور طبّی سہولت کو انفرادی ذمہ داری بنا کر ہر فرد کو ایک دوسرے کی ضرورت کا کفیل بنا دیتے ہیں.

ظلم و زیادتی کی یہ نئی دنیا جہاں ہر ضرورت اور ہر مجبوری کو کاروبار بنا لیا گیا ہے؛ بے تاب ہے ایسے کسی نظام کے لیے جو اس کے تمام دکھوں کا مداوا کر سکے اور اس کی ضروریات کو تجارتی ڈھانچے میں ڈھلنے سے بچا سکے. بلا شبہ موجودہ انسانیت کی اس دردناک صدا کا ایک ہی جواب ہے یعنی آخری پیغمبر کا دین اسلام. یقیناً آج کی نئی دنیا ماضی کے کسی بھی دور سے زیادہ اسلام کی محتاج بھی ہے اور منتظر بھی. مگر اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ جدیدیت زدہ نام نہاد اسلامی دانشوروں کا وہ گروہ ہے جو حقیقی اسلامی تعلیمات کا ناقد اور اسلام کے ہر پہلو کو جدیدیت و جمہوریت سے ہم آہنگ کر کے ایک ماڈرن اسلام وضع کرنے کا خواہاں ہے. رکاوٹ کے اِس جرم میں ان کے ساتھ علمائے سوء اور صوفیائے خام بھی برابر کے شریک ہیں. بہر حال نئی دنیا کا انتظار ختم کرنے کے لیے انتظار ہے تو صرف اِس بات کا کہ اسلام کی تعلیمات کو جو حقیقی معنوں میں فلاح و بہبودی کی ضامن ہیں؛ فکری طور پر اجاگر کیا جائے اور عملی طور پر زندگی میں شامل کر لیا جائے.

از قلم: پٹیل عبد الرحمن مصباحی، گجرات (انڈیا)

مزید پڑھیں

اچھے ذریعۂ معاش کی ابتدا کیسے کریں!

اسلاف کرام کی تجارت اور ہمارا معاشرہ

تصانیف رضاکی خصوصیات و انفرادیت

شیئر کیجیے

Leave a comment