موجودہ سیاست اسلام اور اہل اسلام قسط دوم
از قلم: محمد توصیف رضا قادری علیمی
سیاست کرو:
چین کی زندگی جینے کے لئے ایک مضبوط لائحہ عمل تیار کرنی ہی پڑےگی اگر ہم نے اس میں کوتاہی برتی تو ہماری حالت ویسی ہی ہوجائے گی کہ لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی، یاد رہے دین کو صرف نماز، روزہ کی حد تک محدود سمجھ کر دوسرے شعبوں سے بالکل غفلت اختیار کرنا بھی بہت بڑی غلطی ہے، دین کے بہت سارے شعبے ہیں، جن میں سیاست بھی ایک اہم شعبہ ہے
نیز جب ملک میں ووٹ اور جمہوری حق کے استعمال کرنے ، پارلیامنٹ میں اپنا نمائندہ بھیجنے کا موقع مل رہا ہے تو ہم پیچھے کیوں ؟؟؟ ہمارے نمائندگان اسمبلی یا پارلیامنٹ میں پہونچنے سے ہماری آواز بن کر ہمارے خلاف اٹھنے والا ہر فتنہ دم شکستہ ہوگا اور قانون سازی کرنے والے بھیڑیے بھی منہ کی کھائیں گے، اس کے لئے سب سے پہلے ہم کو حد سے زیادہ چوکنا بھی رہنا ہوگا۔۔۔
خبردار سیکولرزم لبرلزم:
(1) ہمارے اس دور کے سامنے اصل مسئلہ یہ ہے کہ سیکولرزم کا چولا لوگوں کو پہنہ کر دھوکے میں رکھا جا رہا ہے اور مملکت کے تمام باشندوں کو فرقہ وارانہ طاقتوں سے ڈرا دھمکا کر مسلم کمیونیٹی کو سائڈ لائن کر کے اپنی ووٹ بینک قائم رکھنا چاہتی ہے
اور اسی طرح مسلمانوں کی حالات پسماندگی کی طرف چلا جا رہا ہے، اب تو حالات انتنے بگڑ گئے ہیں کہ طرح طرح کی پابندیاں عائد کر کے خوف و ہراس پیدا کر رہیں ہیں، کبھی مبلینچنگ کی دھمکی،کبھی مساجد پر حملے اور کبھی مدارس پر غلط الزامات، یہ سب چیزیں ہو رہی ہے ہیں جس سے ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت نازک دور میں داخل ہو چکی ہے
۔۔۔اور ہم ہیں کہ ابھی تک خواب غفلت میں سوئے ہوئے ہیں بلکہ لگتا ہے کہ آسام کے مسلمانوں کی حالت سے ہم بے خبر ہیں جہاں خود اپنے ملک میں رہتے ہوئے ان کو ملک بدر کرنے کا ڈر ستارہا ہے اور ہم برما کے حالات سے بھی سبق نہیں لے رہے ہیں جہاں پہلے مسلمانوں سے ووٹ دینے کا اختیار چھینا گیا اور بعد میں مسلمانوں کو چن چن کر مار کاٹا گیا اور ملک بدر کر دیا گیا، آج جس کو دنیا روہنگیا مسلم کے نام سے جانتی ہے-
(2) بی جے پی یعنی آر ایس ایس کا اصل مقصد ہندوستانی سیکولرزم ختم کر کے ہندوتوا قوانین نافذ کرنا ہے جو کہ سیکولرزم قوانین سے بھی خطرناک ہے، بالخصوص انکی غلاظت یہ ہے کہ مسلمانوں کی شہریت منسوخ کر دیا جائے اور غلام بنا کر کیمپوں میں طرح طرح کی اذیتیں دی جائے (اللّٰہ خیر کرے) ،
معلوم ہونا چاہیے کہ ہندوتوا در اصل سیکولرزم ہی ہے مگر اسے سخت سیکولرزم (یعنی کمیونزم) کہا جائےگا، بظاھر تو یہ ہندوؤں کا خیر خواہ ہیں مگر ان کی ہندو مذھب سے دور دور تک کا تعلق نہیں،
ثابت ہوا کہ یہ بھی تحریکِ الحاد کی ایک شاخ ہے جو مذھب کا چولا پہنا ہوا ہے۔۔۔۔اسی طرح اسلامی ریاستوں کا یہی حال ہے بظاھر اسلامی حکومت نظر تو آتی ہے مگر اندر سے سیکولرزم کی جامہ پہنے ہوئے ہوتے ہیں مثلاََ پڑوسی ملک پاکستان، یہاں آئے دن عاشقانِ نبی ﷺ کو بڑی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس کے بر عکس سیکولرزم ذہین رکھنے والوں کو ریاستی پروڈکشن دی جاتی ہے-
(3) دُنیا میں سیکولرزم نظام کو قائم رکھنے کے لیے یہ لوگ کچھ ایسے ترکیبات نکالی ہے کہ جس سے انسان جلد متاثر ہو، جب کہ وہ عظیم دھوکہ ہی ہوتا ہے یعنی ایک تیر سے دو نشانی، عوام کو یہ امید اور یقین دلائی جاتی ہے کے معاشرتی، معاشی اور مذہبی ظلم و جبر سے نجات پانے کے لیے ہماری دی ہوئی ہدایات کو فالو کریں اور لوگ مجموعی طور پر مستقبل کی فلاح و بہبود سمجھتے ہوئے ان کے ہدایات پر عمل کرنا شروع کر دیتے ہیں، اور بہت حد تک یہ سیکولرزم نظام لوگوں کے دلوں میں اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں، بالآخر اسی طرح یہ سیکولرزم نظام چلتا رہتا ہے، اب لمحہ فکر یہ ہے کہ اس سے نجات کس طرح ملےگی ؟ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ ہمیں میدانِ سیاست میں حصہ لینے ہونگے، تبھی اس سے نجات مل پائےگی،
(4) یہ ذہن نشین کر لیں کہ سیکولرزم پارٹیوں کی اقتدار سے مسلمانوں کے حالات پر کوئی خاص فرق نہیں پڑےگا جیسا کہ سابقہ حالات گزر گئی مگر ہاں بی جے پی جب تک اقتدار میں ہونگے مسلمانوں پر ظلم و تشدّود سر عام ہوتا رہے گا، اور یہ بھی قابلِ غور ہے کہ سیکولر اور کمیونل پارٹیاں ڈرا کر یہ کوششیں کرتی ہے کہ کسی بھی طرح مسلمان آپس میں متحد نہ ہو-
(5) ہمارے دماغ میں یہ بات بٹھا دی گئی ہے کہ اگر ملک کا مسلمان اپنی قیادت کے لئے مسلم پارٹیاں کو انتخاب کرتے ہیں تو ملک میں فساد پیدا ہوگا، یہی سیکولرزم ہے یعنی ہمیشہ غلام بنائے رکھنے کا اِن کی کوششیں رہتی ہے، اس کا مطلب صاف ہے کہ ملک کا مسلمان غیروں کی قیادت کرے اور ان کے پیچھے پیچھے غلامی کی ثبوت دیتے رہیں، پھر بھی مسلم برادران سیکولرزم کی قیادت کرنے پر مجبور، آخر کیوں، حاصل کیا ہے ؟ غلامی، ظلم و ستم، سیاست سے بے دخل، (CAA NRC) کا ڈر، جان کا خوف وغیرہ اور سیکولرزم کا مجموعی طور پر یہی مفہوم نکلتا ہے
*نوٹ:* یہ واضح رہے، سیکولرزم کے دعووں کے برخلاف ملک کا مسلمان کسی دوسرے کے مفادات، جائز مطالبات اور ان کی ترقی کی مخالفت ہرگز نہیں کرتا بلکہ اپنے اور ملک کے مفادات کے تحفظ کے لیے اپنی سیاسی قیادت کھڑا کرنا چاہتا ہے
نیز یہ بھی واضح رہے! عملی میدان میں لفظ سیاست اور قیادت میں بہت بڑا فرق ہے، بھلے ہی لغوی طور پر لفظِ سیاست کے معنی قیادت کرنا ہو مگر عملی طور پر موجودہ سیاست کے معنیٰ کچھ اور ہے, دیکھا جاۓ تو آج کی سیاست بیوقوف بنانے کا ایک فن ہے یعنی وعدہ کرو اور بھول جاؤ جو کہ اسلامی اُصولِ سیاست کے برخلاف ہے
—- جاری —-
از قلم: محمد توصیف رضا قادری علیمی
(بانی الغزالی اکیڈمی و اعلیٰحضرت مشن، آبادپور تھانہ (پرمانک ٹولہ) ضلع کٹیہار بہار، الھند: متعلم دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی،بستی۔ یوپی،۔۔۔۔شائع کردہ: 23/اگست/2022)