وہ حسین ابن علی حیدر کرار ہی ہے
محمد جسیم اکرم مرکزی
بادۂ عشق نبی ہم کو پلایا جس نے
دین اسلام پہ مر مٹنا سکھایا جس نے
پرچم حق کو بلندی پہ اٹھایا جس نے
وعدۂ احمدِ مختار نبھایا جس نے
وہ حسین ابن علی حیدر کرار ہی ہے
یعنی وہ جلوہ گہِ بوسۂِ سرکار ہی ہے
اپنے کنبے کو شریعت پہ لٹایا جس نے
دین احمد کو لہو دے کے بچایا جس نے
ضرب شمشیر و سناں سینے پہ کھایا جس نے
غلبۂ دیں کے لیے خون بہایا جس نے
وہ حسین اب علی حیدر کرار ہی ہے
یعنی وہ جلوہ گہِ بوسۂِ سرکار ہی ہے
جو ولی ابن ولی اور شہید ابن شہید
فاطمہ بنت پیمبر کا ہے جو لعل رشید
جس کی تطہیر پہ شاہد ہے کلام توحید
جس سے خائف ہے زمانے کا ہر اک شمر و یزید
وہ حسین ابن علی حیدر کرار ہی ہے
یعنی وہ جلوہ گہِ بوسۂِ سرکار ہی ہے
گردنِ ظلم پہ اک آخری شمشیر ہے جو
رب کی آیات کی چلتی ہوئی تفسیر ہے جو
کربلا پاک میں بھی سجدۂ توقیر ہے جو
وادی کرب میں ایوب کی تصویر ہے جو
وہ حسین ابن علی حیدر کرار ہی ہے
یعنی وہ جلوہ گہِ بوسۂِ سرکار ہی ہے
جس کے حلقوم میں جانے کو ہے ترسا پانی
جس کو حسرت کی نگاہوں سے ہے دیکھا پانی
جس کی آہوں میں ہے خود پھوٹ کے رویا پانی
ہر طرف جس کے لیے اب بھی ہے بہتا پانی
وہ حسین ابن علی حیدر کرار ہی ہے
یعنی وہ جلوہ گہِ بوسۂِ سرکار ہی ہے
آتش ظلم سے جو کنبے کو جلتے دیکھا
جس نے قاسم کی جوانی کو مچلتے دیکھا
جان اصغر کو تہِ تیر نکلتے دیکھا
جس نے عباس کو گھوڑے سے پھسلتے دیکھا
وہ حسین ابن علی حیدر کرار ہی ہے
یعنی وہ جلوہ گہِ بوسۂِ سرکار ہی ہے
راکب دوش نبی مرکز انوار ہے جو
نازش آل علی سید اخیار ہے جو
منبع جود و سخا حاکم و سردار ہے جو
مخزن صبر و رضا دین پہ سرشار ہے جو
وہ حسین ابن علی حیدر کرار ہی ہے
یعنی وہ جلوہ گہِ بوسۂِ سرکار ہی ہے
دیکھ کر چہرۂ پر نور صحابہ نے کہا
اس میں آتا ہے نظر جلوۂ شاہ بطحا
آیا ہے جس کے لیے باغ جناں سے جوڑا
جس کی ناراضگی ناراضگیِ نور خدا
وہ حسین ابن علی حیدر کرار ہی ہے
یعنی وہ جلوہ گہِ بوسۂِ سرکار ہی ہے
اپنے شانے پہ شہ دیں نے بٹھایا جس کو
رب کے قرآن کی تفسیر سکھایا جس کو
سارے اسرار شریعت کے بتایا جس کو
فرش سے عرش تلک سارا دکھایا جس کو
وہ حسین ابن علی حیدر کرار ہی ہے
یعنی وہ جلوہ گہِ بوسۂِ سرکار ہی ہے
آخری دم بھی قضا سجدہ جو ہونے نہ دیا
دست ظالم پہ جو بیعت کا نہ سمجھوتا کیا
کربلا میں جو شہادت کا عجب جام پیا
ہے جسیمِ رضَوی جو قمَرِ "بل احیا”
وہ حسین ابن علی حیدر کرار ہی ہے
یعنی وہ جلوہ گہِ بوسۂِ سرکار ہی ہے