جانشین ابن سبااوراہل سنت میں طبقہ بندی
از قلم: طارق انور مصباحی
خلافت عثمانیہ کے عہد میں ایک یہودی بظاہر مسلمان بن کر مسلمانوں کے درمیان بے حساب فتنہ وفساد مچایا۔اس کا نام عبد اللہ بن سبا تھا۔حضرات تابعین عظام،بلکہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین بھی اس یہودی کے فتنوں سے خود کومحفوظ نہ رکھ سکے۔ ابن سبا کی فتنہ پردازیوں کے سبب خلیفہ سوم حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی الم ناک شہادت کا حادثہ درپیش ہوا۔جنگ جمل وجنگ صفین کا واقعہ رونما ہوا۔ اسی کی فتنہ پردازیوں کے سبب شیعہ فرقہ کا وجود ہوا۔رافضیت وشیعیت دراصل ابن سبا کی فتنہ انگیزیوں کی یادگار ہے۔سبائیوں نے اسلامی تاریخ کو باہمی اختلافات سے بھر دیا۔
ا بن سبا نے لوگوں کو اس قدر گمراہ کردیا تھا کہ شیعوں میں سے بعض لوگ شیر خدا حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اللہ اور معبود ماننے لگے تھے۔ کفر وارتداد کے سبب حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان مرتد ین کوآگ میں جلا دیا تھا۔چند رافضی ضرور آگ میں جل گئے،لیکن رافضیت نہ جل سکی۔ سبائی ضلالت دم نہ توڑ سکی۔وہ آج تک زندہ ہے۔
سوال: بعض لوگ کہتے ہیں کہ بھارت میں مذہب اہل سنت وجماعت میں طبقہ بندی کا سبب یہ ہے کہ لوگ یہ کہنے لگے تھے کہ امام اہل سنت قدس سرہ العزیز کی تحریر حرف آخر نہیں۔لوگ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃوالرضوان کی تحقیق کے برخلاف تحقیق کرنے لگے تھے۔ اسی سبب سے اختلاف ہوگیا۔ کیا یہ بات صحیح ہے؟ یااختلاف کا کچھ دوسرا سبب ہے؟
جواب:برصغیرمیں اہل سنت وجماعت اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیزکے عہد مسعو د سے ہی مجددموصوف کو اپنا قائد وپیشوا مانتے آئے ہیں۔ ان کی کتب ورسائل سے استفادہ وافادہ،ان کی طباعت واشاعت،ان کی تعلیمات پر عمل،ان کا ذکر خیر کرتے آئے ہیں۔
لوگ ابتدائی مرحلہ کی طبقہ بندی کا سبب ٹی وی سے متعلق تحقیقات کو سمجھتے ہیں۔یہ خیال حقیقت پرمبنی نہیں،نیزٹی وی سے متعلق اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃوالرضوان کی کوئی تحریر نہیں، کیوں کہ ٹی وی کی ایجاد ان کی وفات کے بعد ہوئی۔
اسکاٹ لینڈ کے سائنس داں:جان لوئی بیرڈ(Baird John Logie) (1888-1946)نے 1926 سے ٹی وی کی ایجاد کا پروگرام شروع کیا۔
مختلف تجرباتی مراحل سے گزر کر چند سال بعد ٹی وی ایجاد کیا۔اس کے ایجاد کردہ ٹیلی ویژن پر پہلی مرتبہ 30:دسمبر 1929 کو بی بی سی لندن کا پروگرام نشر ہوا۔
بھارت میں موجودہ طبقہ بندی علمی اختلافات کے سبب نہیں ہوئی،بلکہ تبرا بازی کے سبب ہوئی ہے۔ٹی وی کی تحقیق 1984سے شروع ہوئی،اورغالبا1987میں مکمل ہوگئی۔ ٹی وی کا تحقیقاتی مرحلہ بالکل مکمل ہو چکا تھا۔ ہر طرف خموشی تھی۔ایک دوسرے کے یہاں آمد ورفت کا سلسلہ جاری تھا۔نہ کسی پر تنقیدآرائی ہوتی تھی،نہ کسی کے خلاف ماحول سازی۔
اس کے بعد 1989 سے لفظ ”کملی“ کی تحقیق شروع ہوئی۔اس تحقیق میں ٹی وی کے محققین ومفتیان عظام شریک نہیں ہوئے۔حضوراقدس تاجدار دوجہاں علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شان اقدس میں لفظ”کملی کے استعمال سے متعلق جواز وعدم جواز کا اختلاف ہوا۔ فریقین کی جانب سے اپنے اپنے موقف پرتحقیقی رسائل شائع ہوئے۔
اسی درمیان اچانک تبرا بازیوں پر مشتمل ایک کتابچہ کسی شرپسند نے شائع کر دیا۔یہی تبرائی رسالہ طبقہ بندی کی بنیادی اینٹ ہے۔اس شرپسند نے خود کو اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز کا معتقد ظاہر کیا تھا،اورکچھوچھہ مقدسہ کے سادات کرام پر تبرا بازی کی تھی۔
رسالہ کامؤلف سنی تھا، یاغیر سنی۔مسلم تھا،یا غیر مسلم۔رسالہ میں مندرج نام اصلی تھا یا فرضی؟کچھ پتہ نہیں۔بہر حال یہ عبد اللہ بن سبا کا جانشیں ضرور تھا۔
یہ رسالہ 1992 یا 1993میں شائع ہوا تھا۔اسی موقع پر ہم نے بھی جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں وہ رسالہ پڑھا تھا۔ اس رسالہ نے جو آگ لگائی تھی،وہ آج تک بجھ نہ سکی۔یہی رسالہ طبقہ بندی کی خشت اول ہے۔
رسالہ اول کے بعد فریق دوم کی جانب سے بھی جوابی رسالہ شائع ہوا۔تبرا بجواب تبرا۔اہل حق کے مابین تبرابازی کا یہ آغاز تھا اورانتہائی بدترین آغاز۔ رفتہ رفتہ ارباب علم وفضل بھی تبرائی شراروں سے متاثر ہونے لگے۔
تبرائی رسائل غیر ذمہ دار عناصر کی جانب سے شائع ہوئے تھے۔اکابر اہل سنت نے اس کی روک تھام کی کوشش کی،لیکن:
ع/ مرض بڑھتا گیا،جوں جوں دوا کی
نتیجہ یہ نکلا کہ تبرائی شعلے اتحاد اہل سنت کو خاکستر کرنے لگے اور 1993-1992 میں طبقہ بندی کی واضح شکل نمودار ہو گئی۔ایک مدت بعد ہر ذیلی طبقہ میں مزید طبقہ بندی ہوئی۔شاخ میں شاخ نکلنے کا سلسلہ تا ہنوز جاری ہے۔اللہ رحم فرمائے:(آمین)
جس طبقہ بندی کی خشت اول ہی تبرا بازی ہو،اس کا مستقبل کتنا اچھا ہو گا؟
اہل سنت وجماعت کے ساتھ بدمذہبوں کی طرح سلوک نہیں کیا جا سکتا۔
اے گنبدخضریٰ کے مکیں وقت دعا ہے
امت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے
(صلوات اللہ تعالیٰ وسلامہ علیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ اجمعین)
سنی صحیح العقیدہ مسلمان ہونا الگ بات ہے، اور عہد حاضر میں وجود پذیر اہل سنت وجماعت کے جدید ذیلی طبقات میں سے کسی طبقہ میں شامل وداخل ہونا الگ بات ہے۔
کسی بھی طبقہ میں شامل فرد خود تبرا بازی نہ کرتا ہو،لیکن اپنے طبقہ والوں کو تبرا بازی سے منع نہ کرتا ہو تو اس پر وبال کا خطرہ ہے:(فلا تقعد بعد الذکری مع القوم الظلمین)
ایک مدت بعدرسالہ اول کی طرح ایک دوسراتبرائی رسالہ: بنام ”رقص ابلیس”2009 میں شائع ہوئی۔اکابر اہل سنت وجماعت نے اس کی پرزور تردید فرمائی،اوراس کے برے اثرات کوزائل کرنے زبردست کوششیں کیں،یہاں تک کہ وہ فتنہ دم توڑ گیا۔
علمی اختلافات اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان اور ان کے تلامذہ وخلفا کے درمیان بھی تھے۔ارباب علم وفضل کو معلوم ہے کہ باب ظنیات کے غیر اجماعی امور میں اجتہادی وتحقیقی اختلاف عہد صحابہ کرام رصی اللہ تعالی عنہم اجمعین سے مروج ہے۔عہد امام اہل سنت میں ظنی واجتہادی امور میں بھی علمی اختلافات تھے،لیکن تبرا بازی نہیں تھی،لہٰذا طبقہ بندی نہیں ہوئی۔جب طعن وتشنیع اور تبرا بازی کی گرم بازاری ہوئی،تب طبقہ بندی ہوگئی۔
شرعی دلائل کی روشنی میں بالکل واضح ہے کہ موجودہ طبقہ بندی صاحب ملت بیضا حبیب کبریا حضور اقدس تاجدار دوجہاں علیہ التحیۃوالثناکی مرضی مبارک کے خلاف ہے۔
عہد حاضر کی طبقہ بندی کی بنیاد تبرا بازی پر ہے۔اہل حق کی تبرا بازی شرعا ممنوع ہے۔ان شاء اللہ تعالیٰ تبرا بازی ختم ہوتے ہی طبقہ بندی نیست ونابود ہو جائے گی۔تبرا بازی پر قابو پانے کی کوشش کی جائے۔یہ روافض کی سرشت ہے۔فطرت اہل سنت ایسے معیوب امر سے منزہ وپاکیزہ ہے۔ایک طویل مدت سے تبرابازی کے سبب ماحول خراب ہوچکا ہے۔