اسرائیل کی پریشانیاں
از قلم:انصار احمد مصباحی
تاریخ گواہ ہے۔ قوم بنی اسرائیل کو خوش حالی کبھی راس نہیں آئی، ذلت و دھتکار ہمیشہ سے اس قوم کی مقدر رہی ہے۔
فلسطین-اسرائیل جنگ میں، ہمیشہ سے انصاف پسند طبقے کی حمایت فلسطین کے ساتھ رہی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اسرائیل، غاصب، غیر آئینی، ہٹ دھرم، ظالم، دغا باز اور دوغلی ریاست ہے ؛ جب کہ فلسطین ہمیشہ سے مظلوم اور مغصوب ملک رہا ہے۔
میں یہاں پر سب سے پہلے ایک غلط فہمی دور کردوں! جب بھی فلسطین پر اسرائیل کے ظلم و ستم کی خبریں سامنے آتی ہیں، سوشل میڈیا پر ان کے بائیکاٹ کی مہم چھڑ جاتی ہے۔ بائیکاٹ کے لئے لگ بھگ دنیا بھر میں موجود ساری مشہور اشیاء اور مشہور و معروف کمپنیوں کے نام آ جاتے ہیں۔ آپ غور کریں! ان سارے پروڈکٹ کا مالک تنہا اسرائیل ہے تو پھر USA، چین، جاپان، فرانس اور باقی ترقی یافتہ / پذیر ممالک کیا صرف گھنٹا بجاتے ہیں؟
یہ سچ ہے کہ اسرائیل ایک پاور فل، ذہین اور معاشی اعتبار سے مظبوط قوم (ملک نہیں) ہے، لیکن یہ سچ نہیں ہے کہ اس وقت پوری دنیا اس کی مٹھی میں ہے۔ اسرائیل کی طاقت کا رعب بھی، در اصل ایک قسم کا وائرس ہے، جو کہ ہمارے مسلم قائدین کے دماغوں میں انڈیل دیا گیا ہے۔ اس کی ادنا سی ایک مثال یہ ہے کہ امریکہ ہر سال کھربوں ڈالر کی تعداد میں، اسرائیل کو فنڈ مہیا کرتا ہے، دوسرے لفظوں میں ”مدد کرتا ہے“۔
یہ سچ ہے کہ یہودیوں کے نزدیک فلسطینیوں کے خون بہت ارزاں ہیں، وہ انھیں انسان تو کیا، ذی روح ماننے تک کو تیار نہیں ہیں۔ لیکن صرف یہی ایک سچ نہیں ہے، اس کے علاوہ بھی کچھ سچائیاں ہیں۔
تازہ معرکے میں فلسطین کے ساتھ ساتھ اسرائیل کو کافی نقصانات ہوئے ہیں:
(١) اسرائیل کو امریکہ کا ناجائز بیٹا کہا جاتا ہے، اور یہ کچھ حد تک درست بھی ہے۔ اس وقت امریکہ میں جو بائیڈن کی حکومت ہے۔ اس کے وہائٹ ہاؤس کے چالیس فیصد اراکین ، اسرائیل کی بے جا حمایت کے خلاف ہیں، امریکہ کو اسرائیل کو فنڈ دینا بھی بند کر دیا ہے۔
(٢) اب تک بنجامن نیتن یاہو، فلسطین پر اپنا رعب دکھاکر، ہلکے پھلکے حملے کرکے ، اپنی جنتا کی ہم دردی حاآل کرنے میں کامیاب ہو رہا تھا، اب ہوائیں بدل گئیں ہیں۔ اسرائیلی خود دو حصوں میں تقسیم ہوگئے ہیں۔ اس جنگ سے ان کے کار و بار میں بہت زیادہ نقصان ہو رہا ہے، وہ آپسی خانہ جنگی کے شکار ہیں۔ اسرائیل بہت جلد اس جنگ سے نکلنے کے خواہاں ہیں۔
(٣) ہمارے پھینکوں کی طرح نیتن یاہو کے بلند بانگ دعوے کی قلعی کھل گئی ہے۔ دفاعی سسٹم ”آئرن ڈوم“ جس کے بارے میں دعوا کیا جا رہا تھا کہ اسے عبور کرنا نا ممکن ہے، پوری طرح تہس نہس ہو چکا ہے۔
(٤) پچھلے ستر سالوں میں پہلی بار اسرائیل روتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ وہ دوسرے ملکوں کے سر براہان کے سامنے اپنی مظلومیت سنانے پر مجبور ہے، وہ خود کو کمزور اور ستاے ہوئے ثابت کرنے پر تلا ہے۔ یہ فقط یوں ہی نہیں ہے۔
(٥) سخت اور ٹھوس اقدامات کے باوجود اسرائیل ، کووڈ 19 کی تباہ کاریوں کو روکنے میں ناکام ثابت ہوچکا ہے، آبادی کے اعتبار سے اسرائیل کا نمبر ، ملکوں کی فہرست میں 100 سے باہر ہے؛ جب کہ کورونا متاثرین کی بات کی جائے تو وہ تیسویں مقام پر موجود ہے۔ فیصدی دیکھی جائے تو اسرائیل کی لگ بھگ 9 فیصد آبادی کورونا سے متاثر ہوئی ہے، جن میں سے سات ہزار کے قریب اسرائیلیوں نے اپنی جانیں گنوائی ہیں۔ یہ تناسب ریاست ہاے متحدہ امریکہ کے بعد سب سے حیران کن ہے۔
(٦) اس وقت یہودی ریاست، برسوں بعد اپنے شدید معاشی بحران سے دوچار نظر آتا ہے۔ کووڈ 19 نے پہلے ہی صنعتی میدان میں قہر برپا کر رکھا ہے، کئی ملکوں سے سفارتی تعلقات خراب ہونے کی وجہ سے،کار و بار متاثر ہوا ہے۔ حماس کے پے در پے راکٹ حملوں نے مزید کمر توڑ دی ہے۔ در اصل حماس کے جو راکٹ ، اسرائیل کی طرف کوچ کرتے ہیں، وہ سادہ اور دو چار ہزار ڈالر کی لاگت پر مشتمل ہوتے ہیں، جب کہ اسے روکنے کے لئے اسرائیل ”آئرن ڈوم“ نام سے ، جس دفاعی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتا ہے، اس میں ایک راکٹ کو روکنے کا خرچا کروروں ڈالر میں آتا ہے۔ اس وقت اسرائیلی عوام بھی جنگ بندی کا خواہاں ہے، امریکی عوام اور لیڈران بھی چاہتے ہیں کہ جنگ فورا بند ہو، ایسے میں اسرائیلی صدر نیتن یاہو کو چوطرفہ تنقیدوں کا سامنا ہے۔ آگے دیکھتے جائیے! اس جنگ کا اونٹ کس کڑوٹ بیٹھتا ہے؟
(٧) اس وقت ترکی، چین، پاکستان، روس سمیت کئی ممالک فلسطین کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، اقوام متحدہ کی میٹنگ میں بھارت نے بھی فلسطین کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ کرسٹیانو رونالڈو (92M followers on Twitter) ، ریحانہ (103M followers on Twitter )سمیت دنیا بھر کی مشہور و معروف شخصیات کھلے لفظوں میں اسرائیل کی مذمت کر چکی ہیں۔
(مضمون میں دی گئیں معلومات، مختلف ذرایع سے اخذ کی گئیں ہیں)
از قلم:انصار احمد مصباحی
9860664476 aarmisbahi@gmail.com