اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے
شہباز نصیری مصباحی
عصر حاضر میں جو صورت حال پائی جاتی ہے اور اس کو جو مسائل درپیش ہیں ان کو دیکھتے ہوئے کسی سلیم العقل شخص کے لئے یہ فیصلہ کرنا بہت ہی مشکل ہے کہ جدید انسان کسی عقلی بنیاد پر اسلام سے رو گردانی کر سکتا ہے اور اس کے پیش کردہ نظام زیست سے بے نیاز ہو سکتا ہے .آج کے چکاچوند آور ترقی یافتہ دور میں بھی انسانیت ان تمام خرابیوں میں مبتلا ہے جن کی وہ اپنے دور وحشت میں شکار تھی۔ ترقی اور روشن خیالی کے اس دور میں بھی انسانیت نسلی منافرت کی انتہائی مکروہ اور گھناؤنی صورت حال سے دوچار ہے۔ اخلاق ,تہذیب اور انسانیت کے باب میں رواں صدی کے انسان کو اسلام سے ابھی بہت کچھ سیکھنا باقی ہے۔
مدت ہوٸی کہ جب اسلام نے آکر انسانیت کو تمام نسلی تعصبات اور عصبیتوں سے نجات دلائی تھی آج بھی صرف اسلام ہی دنیا کو نفرت کی سیاست سے نکال سکتا ہے کیوں کہ اسلام انسانی مساوات کا ایک حسین تصور ہی پیش کر کے نہیں رہ جاتا بلکہ عمل کی دنیا میں بھی وہ ایسی مکمل مساوات قاٸم کرکے دکھا چکا ہے جس کی تاریخِ عالم میں کوئی نظیر نہیں ملتی اسلام کے ایک مثالی دور میں کسی کالے کو گورے پر رنگ یا نسل کی بنیاد پر کوئی فضیلت حاصل نہ تھی اس کے یہاں فضیلت اور برتری کی واحد بنیاد انسان کی نیکی اور خدا ترسی تھی۔
جو لوگ اسلام کو قصہ ماضی سمجھتے ہیں اور موجودہ زمانے میں اس کی افادیت و ضرورت کے منکر ہیں وہ دراصل نہ تو اسلام کے حقیقی معنی و مفہوم سے آشنا ہیں اور نہ ہی زندگی میں اس کی اصلیت سے واقف سچ تو یہ ہے کہ اسلام غلامی کی ہر اس نوع سے آزادی کا نام ہے جو ارتقاۓ انسانیت میں رکاوٹ بنتی ہے اور اس کو نیکی و بھلاٸی کی راہ سے روکتی ہے۔ اسلام تو انسان کو سکھاتا ہے کہ اقتدار کا حقیقی مالک صرف اور صرف اللہ تعالی ہے اس نے جو نظام زندگی وضع کیا ہے وہ موجودہ اور آنے والی تمام نسلہاۓ انسانی کی بہتری کے لیے ہے اور اس میں وہ کسی نسل کو دوسری نسلوں پر ترجیح دینے کے لیے تیار نہیں ہے کیونکہ اس کے نزدیک انسانیت ایک وحدت ہے جو مختلف نسلوں سے مل کر وجود پذیر ہوتی ہے، یہ صحیح ہے کہ اسلام خواہشات اور جذبات کی غلامی کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتا اور نہ یہ پسند کرتا ہے کہ انسان اس معاملہ میں غلو کا شکار ہو کیوں کہ اگر ایسا ہو تو زندگی کا سارا نظام چوپٹ ہو جائے گا۔ انسانیت کا مطمح نظر ہمیشہ ترقی اور بہبود رہا ہے مگر اس کا حصول اس وقت تک ممکن نہیں جب تک انسانیت پر یہ سرکش خواہشات اور جذبات کی حکمرانی ہے کیوں کہ یہ انسانی قوتوں کے سرچشمہ کو برباد کر ڈالتی ہے اور انسانیت کو حیوانیت کی کی پست سطح پر گرا دیتی ہے ۔
اسلام نے غلاموں کو وہ عزت دی ہے کہ پہلے اکثر و بیشتر ممالک میں غلام مظلومیت اور بے بسی کی زندگی گزارتے تھے اس کی جان کی کوئی قیمت نہ تھی ان کو انسان سمجھا ہی نہیں جاتا تھا بلکہ ایک مختلف اور ادنی درجے کی مخلوق خیال کیا جاتا تھا جس کا مقصدِ وجود صرف یہ تھا کہ وہ دوسروں کی خدمت کرے اور ان کے ہاتھوں ہر طرح کی ذلت و تحقیر صبر و شکر سے برداشت کرتا اور سہتا رہے پھر اسلام کی آمد کے بعد غلاموں کی حالت میں جو تغیر آیا وہ محض جنسی تجارت نہ رہا بلکہ پوری انسانیت کے حقوق اور احترام سے بہرہ ور ہوا چنانچہ پیغمبر اسلام نے ارشاد فرمایا تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں لہذا تم میں سے جس کے قبضے میں اس کا بھائی ہو اس کو چاہیے کہ وہ اس کو ویسا ہی کھلائے اور پہناۓ جیسا وہ خود کھاتا اور پہنتا ہے اور اس کو کوئی ایسا کام کرنے کو نہ کہے جس کی وہ استطاعت نہ رکھتا ہو اور اگر کہے بھی تو اس کے ساتھ ہاتھ بٹاۓ یہی نہیں بلکہ اسلام نے غلاموں کے جذبات و احساسات تک کا احترام کیا ہے، محسن کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ” تم میں سے کوئی بھی اپنے غلام کے بارے میں یہ نہ کہے کہ یہ میرا غلام ہے اور یہ میری لونڈی ہے“ بلکہ یوں کہے کہ یہ میرا خادم اور خادمہ ہے۔
جہاں تک عورتوں کا تعلق ہے تو اسلام اتنا پیارا مذہب ہے جو غلامی اور قیدی کی حالت میں بھی ان کی نسوانیت کا احترام ملحوظ رکھا حالاں کہ جو عورت دشمن قوم سے تعلق رکھتی تھی اور جنگ میں گرفتار ہو کر آتی تھی اسلام نے کسی مسلمانوں کو اس بات کی اجازت نہ دی کہ وہ انہیں بے آبرو کرے اور میدان جنگ میں ملنے والے مال غنیمت کا جز سمجھتے ہوئے ان پر قابض ہو جائے اسلام نے ان عورتوں کو مشترکہ ملکیت بھی نہیں قرار دیا کہ جو چاہے انہیں ہوَس ناکی اور درندگی کا شکار بناتا پھرے ۔ اس کے برعکس اسلام نے ان عورتوں کو ان کے مالکوں کے لئے مخصوص کر دیا اور صرف انہیں کو ان سے متمتع ہونے کا حق دیا جس کے بعد کسی غیر کے لیے ان سے جنسی تعلقات جائز نہ رہے ۔ اس سے ظاہر ہے کہ قیدی عورتوں کے ساتھ بھی اسلام کا برتاؤ کتنا خوبصورت اور پاکیزہ تھا پھر بھی انسان آج بھی گوناگوں حماقتوں میں مبتلا ہیں اور حق کی تلاش میں سرگرداں ہیں اور مستبد مطلق العنان حکمرانوں کو آج بھی کھلی چھوٹ حاصل ہے اور انسانیت ان کے ظلم و ستم کی چکی میں بدستور پس رہی ہے ہر جگہ انسانیت پر حیوانیت کا غلبہ ہے کیا ان کی موجودگی اس بات کا ثبوت نہیں کہ دنیا کو آج اسلام کی اشد ضرورت ہے۔
شہباز نصیری مصباحی
اتر دیناج پور (بنگال)