سیرت امام محمد بن محمد غزالی شافعی رحمۃ اللہ علیہ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
از : عمران رضا عطاری مدنی
مرکزی جامعۃ المدینہ ناگپور ، ھند
نام و تاریخ ولادت:
حجۃ الاسلام ابو حامد محمد بن محمد بن محمد بن احمد علوی غزالی شافعی رحمۃ اللہ علیہ
۔ آپ ٤٥٠ھ میں خراسان کے ضلع طوس کے علاقے طاہران میں پیدا ہوۓ ۔ خراسان ایران کے مشرق میں واقع ایک وسیع صوبہ تھا۔ موجودہ خراسان میں قدیم خراسان کا نصف بھی شامل نہیں ، کچھ افغانستان اور کچھ دیگر ممالک میں شامل ہو چکا ہے۔اما
ابتدائی حالات:
آپ کے والد ماجد حضرت سیدنا محمد بن محمد عليه رحمة الله الصمد شہر خراسان ہی میں اون کاٹ کر بیچا کرتے تھے یعنی پیشے کے لحاظ سے دھاگے کے تاجر تھے، اس نسبت سے آپ کا خاندان’ غزالی‘ کہلاتا ہے۔ ابھی امام صاحب اور آپ کے بھائی حضرت سید احمد غزالی علیہ رحمة اللہ الوالی کم عمر ہی تھے کہ ۴۶۵ھ میں والد محترم وصال فرماگئے ۔انتقال سے پہلے انہوں نے اپنے ایک صوفی دوست حضرت سیدنا ابو حامد احمد بن محمد راذکانی قدس سرہ کو وصیت کی تھی کہ ” میرا تمام اثاثہ میرے ان دونوں بیٹوں کی تعلیم و پرورش پر خرچ کر دیجئے گا۔‘ وصیت کے مطابق ان کے والد گرامی کا سرمایہ ان کی تعلیم و پرورش پر صرف کر دیا گیا۔
حصول علم اور تدریس:
ابتدائی تعلیم اپنے شہر میں ہی حاصل کی جہاں کتب فقہ حضرت سیدنا احمد بن محمد رازکافی قدس سره سے پڑھیں ….. ابھی عمر شریف 20 سال سے کم ہی تھی کہ (ایران کے مشرقی شہر) جرجان تشریف لے گئے وہاں حضرت سید تا امام ابونصر اسماعیلی علیہ رحمۃ اللہ الولی کی خدمت میں کچھ عرصہ رہے۔ پھر اپنے شہر طوس لوٹ آئے ……473هـ میں (ایران کے قدیم شہر) نیشاپور میں حضرت سیدنا امام الحرمین امام عبد الملک بن عبدالله جوینی علیہ رحمة الله الغنی (متوفی ۴۷۸ھ) کی بارگاہ میں زانوے تلمذ طے کیا اور ان سے اصول دین، اختلافی مسائل ، مناظرہ ،منطق اور حکمت وغیرہ میں مہارت تامہ حاصل کی ….. 478ھ میں حضرت سید نا إمام الحرمين رحمة اللہ تعالی علیہ کے وصال کے بعد ان کی جگہ آپ کو اس منصب اعلی پر فائز کیا گیا….. 484ھ میں وزیر نظام الملك نے مدرسہ نظامیہ بغداد کے شیخ الجامعہ کا عہدہ آپ رحمہ اللہ تعالی کو پیش کیا جسے آپ نے قبول فرمالیا….. چار سال بغداد میں تدریس تصنیف میں مشغولیت کے بعد حج کے ارادے سے مکہ معظمہ روانہ ہو گئے۔ بقول علامہ ابن جوزی علیہ رحمۃ اللہ القوی (متوفی ۵۹۷ھ) بغداد میں آپ کی مجلس درس میں بڑے بڑے علمائے کرام حاضر ہوتے جیسے امام الحنابلہ حضرت سید ابوالخطاب محفوظ بن احمد (متوفی ۵۱۰ھ ) اور عالم العراق وشیخ الحنابلہ علی بن عقیل بغدادی (متوفی ۵۱۳ ھ ) رحمة الله تعالى عليه وغیرہ ۔ یہ حضرات آپ سے اکتساب فیض کرتے اور آپ کے بیان پر حیرت کا اظہار کرتے اور آپ کے کلام کو اپنے کتابوں میں نقل کر تے …… 489ھ میں دمشق پہنچے اور کچھ دن وہاں قیام فرمایا ۔ ایک عرصہ بیت المقدس میں گزارا ۔ پھر دوبارہ دمشق تشریف لائے اور جامع دمشق کے مغربی منارے پر ذکر وفکر اور مراقبے میں مشغول ہو گئے دمشق میں زیادہ تر وقت حضرت سیدنا شیخ نصر مقدمی علیہ ورحمة اللہ الولی کی خانقاہ میں گزرتا تھا…… ملک شام میں 10 سال قیام فرمایا،اسی دوران احیاء العلوم ،جواهر القرآن تفسير ياقوت التاویل اور مشكاة الأنوار وغیرہ مشہور کتب تصنیف فرمائیں۔ پھر مجاز بغداد اور نیشاپور کے درمیان سفر جاری رہا اور بالآخر اپنے آبائی شہر طوس واپس آ کر عبادت و ریاضت میں مصروف ہو گئے اور تادم آخر وعظ ونصیحت ، عبادت وریاضت اور تصوف کی تدریس مشغول رہے۔
باطنی علوم کی تلاش:
آپ رحمة اللہ تعالی علیہ 478 تا 484ھ سرتاجِ مدارس اسلامیہ مدرسہ نظامیہ نیشاپور میں امام الحرمین پھر 488ھ تک مرکز علوم اسلامیہ مدرسہ نظامیہ بغداد میں مدرس اعلی کے منصب پر فائز رہے۔سلطان وقت اور ملک بھر کے علما و فضلا آپ کے تبحر علمی کے قائل ہوگئے اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ بادشاہ وقت سے زیادہ امام صاحب کا سکہ لوگوں کے دلوں پر بیٹھ گیا۔ سلطنت سلجوقیہ کے وزیر اعظم نظام الملک طوسی تو آپ کے بڑے معتقد تھے اور وہ بنفس نفیس امور مملکت میں آپ سے مشورہ کرتے تھے ۔ تمام علوم کی تکمیل کے بعد اولاً امام الحرمین پھر مدرّسِ اعلی جیسے عہدوں پر متمکن رہنے کے باوجود آپ کو جس باطنی وروحانی سکون کی تلاش تھی وہ حاصل نہ ہوسکا۔ بغداد جو اس وقت مختلف فرقوں اور باطل مذاہب کے بےجا مناظروں اور مجادلوں کا دنگل بنا ہوا تھا اور دارالخلافہ پر انتشار اور فتنہ فساد کی کیفیت طاری تھی ۔ اس وقت چار فرقے زیادہ شہرت کے حامل تھے متکلمین ، باطنیہ، فلاسفہ اور صوفیہ، آپ نے ان فرقوں کے علوم وعقائد کی تحقیق شروع کی ۔ اس تحقیق وجستجو سے اضطراب اور بڑھ گیا مگر جب تصوف پر موجود کتب کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ صرف علم کافی نہیں بلکہ مل کی ضرورت ۔ چنانچہ، آپ اپنی کتاب المنقذ من الضلال والمفصح عن الأحوال میں خودفرماتے ہیں:” ان واقعات سے دل میں خیال پیدا ہوا کہ تمام تعلقات کو ترک کرکے بغداد سے نکل جاؤں نفس کسی طرح بھی ترک تعلقات پر آمادہ نہیں ہوتا تھا کیونکہ اس کو شہرت عامہ اور شان وشوکت حاصل تھی ۔ جب 488ھ میں یہ خیال پیدا ہوا تھا لیکن نفس کے لیت و لعل (ٹال مٹول) کے باعث اس پر عمل نہ کر سکا۔ اس ذہنی اور نفسانی کشش نے مجھے تخت بیمار کر دیا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ زبان کو پارائے گویائی نہ رہا قوت ہضم بالکل ختم ہوگئی طبیبوں نے بھی صاف جواب دے دیا اور کہا کہ ایسی حالت میں علاج سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا آخر کار میں نے سفر کا قطعی ارادہ کرلیا۔ امرائے وقت ، ارکان سلطنت اور علمائے کرام نے نہایت خوشامد واکرام سے روکا لیکن میں نے ان کی ایک نہ مانی اس لئے سب کو چھوڑ چھاڑ کر شام کی راہ لی (اور پھر ایک وقت آیا کہ شام سے اپنے آبائی وطن’ طوس‘ تشریف لے گئے) ۔
الغرض روحانی سکون کی خاطر آپ نے منصب تدریس چھوڑ دیا ۔ دنیا کی گوناگوں مصروفیات اور رنگا رنگی سے بالکل کنارہ کشی اختیار کر لی تھی کہ لباس فاخرہ کے بجائے ایک کمبل اوڑھا کرتے تھے اور لذیذ غذاؤں کی جگہ ساگ پات پر گزر بسر ہونے لگی ۔اپنے شہر طوس پہنچ کر صوفیا کے لئے ایک خانقاہ اور شوق علم رکھنے والوں کے لئے ایک مدرسہ تعمیر کیا اور پھر تادم حیات اوراد و وظائف ، ریاضت و عبادت ، گوش نشینی اور تدریس تصوف میں مشغول رہے ۔
اس میں فی زمانہ طلبہ کے لیے نصیحت کے بہت سارے معنی پھول ہیں سب سے اہم بات یہ کہ ہمیں حصول علم کے ساتھ عمل پر بھی توجہ دینی چاہیے۔
مشہور اساتذہ:
امام ابو نصر اسماعیلی ، حضرت یوسف حجاج، ابو الفتح نصر بن علی طوسی، عبد اللہ بن احمد خواری، محمد بن یحی سجاعی، امام جوینی، ابو علی فارمذی طوسی، ابو سہل مروزی، رحمھم اللہ وغیرہ۔
مشہور تلامذہ:
ابو فتح حنبلی، محمد بن علی بغدادی، ابو الحسن علی جوینی ، علی بن مطہر دینوری، ابو حامد محمد بن عبد الملک اسفرائنی، محمد بن اسماعیل عطاری طوسی، ابو سعید نوقانی، ابو عامر نعیمی، مروان بن علی طنزی، جمال الاسلام علی بن مسلم سلمی، رحمھم اللہ وغیرہ۔
علمی مقام:
حضرت سید ناعلامہ اسماعیل حقی عليہ رحمۃ الله القوى تفسير روح البیان، جلد5،صفحہ 374 سوره طہ آیت سمبر 18 کے تحت نقل فرماتے ہیں: حضرت سید نا امام راغب اصفہانی قدس سرہ النورانی نے محاضرات میں ذکر فرمایا کہ صاحب حزب البحر،عارف باللہ حضرت سیدنا امام شاذلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: میں مسجد اقصی میں محو خواب تھا، میں نے دیکھا کہ مسجد اقصی کے صحن میں ایک تخت بچھا ہوا ہے اور لوگوں کا ایک جم غفیر گروہ در گروہ داخل ہو رہا ہے ۔ میں نے پوچھا: ” جمع غفیر کن لوگوں کا ہے؟ بتایا گیا ” یہ انبیائے کرام ورسل عظام علیہم الصلوۃ والسلام ہیں جو حضرت سیدناحسین حلاج رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے ظاہر ہونے والی ایک بات پر ان کی سفارش کے لئے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے ہیں ۔ پھر میں نے تخت کی طرف دیکھا تو حضور نبی کریم رؤوف رحیم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم اس پرجلوہ فرما ہیں اور دیگر انبیائے کرام علیہم الصلوة والسلام جیسے حضرت سیدنا ابراہیم خلیل اللہ، حضرت سیدنا موسیٰ کلیم اللہ، حضرت سیدنا عیسیٰ روح اللہ اور حضرت سیدنا نوح علی نبینا وعليهم الصلوة والسلام سامنے تشریف فرما ہیں ۔ میں ان کی زیارت کرنے اور ان کا کلام سننے لگا۔ اسی دوران حضرت سیدنا موسی علیہ السّلام نے بارگاہ رسالت میں عرض کی : آپ کا فرمان ہے: ” علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل یعنی میری امت کے علم بنی اسرائیل کے انبیا کی طرح ہیں ۔ لہذا مجھے ان میں سے کوئی دکھائیں ۔ تو حضور نبی پاک ، صاحب لولاک ، سیاح افلاک صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے حضرت سیدنا امام محمد غزالی علیہ رحمۃ اللہ الولی کی طرف اشارہ فرمایا۔ حضرت سیدنا موسی علیہ السلام نے آپ رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے ایک سوال کیا ، آپ نے 10 جواب دیئے ۔ تو حضرت سیدنا موسی علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا کہ جواب سوال کے مطابق ہونا چاہئے ، سوال ایک کیا گیا اور تم نے 10 جواب دیئے ۔‘ تو حضرت سیدنا امام غزالی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے عرض کی: جب اللہ عزوجل نے آپ سے پوچھا تھا : وماتلك بيمينك يموسى (١٦ ،طہ:۱۷) ترجمہ کنز الایمان : اور تیرے داہنے ہاتھ میں کیا ہے اے موسی ۔ تو اتنا عرض کر دینا کافی تھا کہ یہ میرا عصا ہے ۔‘ مگر آپ نے اس کی کئی خوبیاں بیان فرمائیں۔(فتاوی رضویہ جلد٢٨، ص٤١٠، اشارۃً) (تفسیر روح البیان ج٥، ص٣٧٤، دار الفکر، تفصیلاً)
حضرات علماۓ کرام کرو اللہ اسلام فرماتے ہیں کہ گویا امام غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی حضرت سیدنا موسی کلیم اللہ علیہ السلام کی بارگاہ میں عرض کر رہے ہیں کہ ” جب آپ کا ہم کلام باری تعالی تھا تو آپ نے وفور محبت اور غلبہ شوق میں اپنے کلام کو طول دیاتا کہ زیادہ سے زیادہ ہم کلامی کا شرف حاصل ہو سکے اور اس وقت مجھے آپ سے ہم کلام ہونے کا موقع ملا ہے اور کلیم خدا سے گفتگو کا شرف حاصل ہوا ہے اس لئے میں نے اس شوق و محبت سے کلام کوطوالت دی ہے ۔
• امام ذہبی علیہ الرحمہ نے آپ کو ان القابات سے یاد فرمایا: الشَّيْخُ، الإمامُ، البَحْر، حجَّةُ الإسْلاَم، أُعجوبَة الزَّمان، زَيْنُ الدّين، أبُو حامِد مُحَمَّدُ بنُ مُحَمَّدِ بنِ مُحَمَّدِ بنِ أحْمَدَ الطُّوسِيّ، الشّافِعِيّ، الغَزّالِي، صاحِبُ التَّصانِيفِ، والذَّكاءِ المُفرِط.(سير أعلام النبلاء ج١٩،ص٣٢٢، مؤسسة الرسالة)
• امام ابن نجار رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : أبُو حامِدٍ إمامُ الفُقَهاءِ عَلى الإطلاَق، وربّانِيُّ الأُمَّةِ بِالاتِّفاق، ومُجْتَهِدُ زَمانه، وعينُ أوانه، بَرَعَ فِي المَذْهَب والأُصُول والخلاَف والجَدَلِ والمنطق، وقرَأ الحِكْمَة والفَلْسَفَة، وفَهِمَ كلاَمهُم، وتَصَدّى لِلرَّدِّ عَلَيْهِم، وكانَ شَدِيدَ الذّكاء، قوِيَّ الإدراك، ذا فِطْنَة ثاقبَة، وغوص عَلى المَعانِي، حَتّى قِيلَ: إنَّهُ ألَّف (المَنخُول)، فَرَآهُ أبُو المَعالِي، فَقالَ: دفنتَنِي وأنا حَيٌّ، فَهَلاَّ صَبرتَ الآنَ، كِتابُك غطّى عَلى كِتابِي .(سير أعلام النبلاء ج١٩،ص٣٣٥، مؤسسة الرسالة)
امام تاج الدین سبکی شافعی علیہ الرحمہ آپ کو اس طرح یاد کرتے ہیں: الإمام الجَلِيل أبُو حامِد الغَزالِيّ
حجَّة الإسْلام ومحجة الدّين الَّتِي يتَوَصَّل بها إلى دار السَّلام جامع أشتات العُلُوم والمبرز فِي المَنقُول مِنها والمَفْهُوم۔(طبقات الشافعية الكبرى ج٦، ص١٩١)
وقالَ تِلْمِيذه الإمام مُحَمَّد بن يحيى الغَزالِيّ هُوَ الشّافِعِي الثّانِي. ترجمہ: آپ کے شاگرد محمد بن یحی غزالی کہتے ہیں: امام غزالی امام شافعیِّ ثانی تھے۔(المرجع السابق ص٢٠٠)
• تاریخ دمشق میں امام ابن عساکر نے آپ کو اس طرح یاد کیا: محمد بن محمد بن محمد أبو حامد الغزالي الطوسي حجة الإسلام والمسلمين إمام أئمة الدين من لم تر العيون مثله لسانا وبيانا ونطقا وخاطرا وذكاء وطبعا شدا طرفا في صباه۔(تاريخ دمشق لابن عساكر ج٥٥، ص٢٠٠، دار الفکر)
• مجدد اعظم امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ آپ کا قول نقل کرتے ہوئے ان الفاظ سے یاد فرماتے ہیں: الامام حجۃ الاسلام حکیم الامۃ کاشف الغمّۃ ابوحامد محمد بن محمد بن محمد الغزالی رضی الله تعالٰی عنہ۔(فتاوی رضویہ ج٤، ص٥٢٩، لاہور)
امیر اہلسنت کی امام غزالی سے محبت:
مرشد ذی وقار قبلہ امیر اہل سنت دامت برکاتہم العالیہ اپنے ایک مکتوب میں فرماتے ہیں: الحمد للہ عزوجل آج دنیائے اسلام کی ایک نابغہ عصر عظیم اور عبقری شخصیت یعنی محسن امت حجة الإسلام حضرت سیدنا امام محمد بن حمد بن حمد غزالی علیہ الرحمہ کی یاد میں مدنی چینل پر "مدنی مکالمے” کا سلسلہ ہے۔ میں اس وقت اپنے وطن عزیز پاکستان سے باہر ہوں، مجھے تأثرات دینے کا حکم ملا تو حصول ثواب کے لئے چند بے ربط کلمات سلک تحریر میں پرو کر حاضر ہو گیا ہوں، یقین مانئے عقائد کی پختگی کے معاملے میں الحمدللہ جہاں میرے آقا اعلی حضرت امام اہلسنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کا مجھ پر فیضان ہے وہاں باطن کی اصلاح میں حجة الإسلام حضرت سیدنا امام غزالی علیہ کا مجھ پر بڑا احسان ہے۔امام غزالی علیہ الرحمہ کی منہاج العابدین اور احیاء العلوم وغیرہ پڑھتے ہوئے بارہا ایسامحسوس ہوتا ہے، گویا مجھے ہی کان پکڑ کر سمجھا رہے ہیں کہ بڑا نیک بنا پھرتا ہے ذرا اپنے آپ کوتو دیکھ! تجھ میں تو یہ بھی خرابی ہے اور تیرے اندر تو وہ بھی برائی ہے، نیز جب بھی پڑھو ایسا لگتا ہے کہ روح کو نئی نئی غذا مل رہی ہیں ، ان کی کتب ایک آدھ بار پڑھ کر رکھ دینے والی نہیں زندگی کے آخری سانس تک پڑھے جانے کے لی ہیں۔ سرکار اعلی حضرت علیہ اور امام غزالی رحمھما اللہ کی مبارک کتابیں اگر مطالعے میں نہ آتیں تو شاید میں برباد ہوجاتا!(احیاء العلوم کے ساتھ یہ مکتوب شائع ہوا ہے)
وفات:
پچپن سال کی عمر میں بروز پیر ١٤ جمادی الآخر ٥٠٥ھ میں امام غزالی علیہ الرحمہ صبح کے وقت بستر سے اٹھے ۔ وضو کیا نماز پڑھی کفن منگوایا اور آنکھوں سے لگاکر فرمایا: میرے رب پاک کا حکم سر آنکھوں پر ۔ اتنا کہا اور اس دار فانی سے دارِ بقا کہ طرف کوچ کرگئے۔
تصانیف:
امام غزالی علیہ الرحمہ نے سینکڑوں چھوٹی بڑی کتابیں تصنیف فرمائیں یوں آپ کثیر التصانیف بزرگ ہیں چند کتابوں کے نام ملاحظہ کریں:
(1)إحياء علوم الدين(۲)الإملاء على مشكل الإحياء ويسمى ايضا "الأجوبة المسكته عن الأسئلة المبهته (۳)الاربعين(۴)الاسماء الحسنی (۵)الإقتصاد في الاعتقاد (۲)الجام العوام عن علم الکلام (2)أسرار معاملات الدين(۸)اسرار الأنوار الالهيه بالآيات المتلوه(۹) اخلاق الأبرار والنجاة من الأشرار (۱۰) اسرار اتباع الشنه (11)أسرار الحروف والكلمات (۱۲) ايها الولد (۱۳) بداية الهدايه (۱۴) البسيط في فروع المذهب (۱۵) بيان القولين للشافعی (۱۶) بیان فضائح الإباحيه (۱۷)بدائع الصنيع (۱۸)تنبيه الغافلين (۱۹) تلبيس إبليس وفي هدية العارفين:تدليس ابليس (۲۰) تهافت الفلاسفۃ
(۲۱) التعليقه في فروع المذهب(۲۲)تحصين المآخذ(۲۳)تحصين الادله (۲۴)تفسير القرآن العظيم (۲۵) التفرقة بين الإيمان والزندقه (٢٦) جواهر القرآن (۲۷) حجة الحق (۲۸) حقيقة الروح (۲۹) حقيقة القولين (۳۰) خلاصة الرسائل إلى علم المسائل (۳۱) رسالة الأقطاب (٣٢) رسالة الطير (٣٣) الرد على من طعن (۳۴) الرسالة القدسيه بأدلتها الرهان (۳۵)السر المصون (۳۶) شرح دائرة علي ابن ابي طالب المسماه "نخبة الأسماء (۳۷)شفاء العليل في بيان مسئلة التعليل (۳۸) عقيدة المصباح (۳۹)عنقود المختصر (۳۰)غاية الغور في مسائل الدور (٤١)غور الدور(۴۲)الفتاوى مشتملة على مائة وتسعين مسئله غير مرتب (۴۳)فاتحة العلوم (۴۴)فضائح الإباحيه (۴۵) فواتح السور (٣٦) الفرق بين الصالح وغير الصالح (۴۷)القانون الكلی (۴۸) قانون الرسول (٤٩)القربة إلى الله (۵۰)القسطاس المستقيم(۵۱)قواعد العقائد (۵۴) القول الجميل في الرد على من غير الإنجيل (۵۳) كيمياء السعاده (۵۴) کشف علوم الآخره (۵۵) کنز العده (۵۶)اللباب المنتخل في الجدل (۵۷) المستصفی (۵۸) المنخول في الأصول (۵۹)المآخذ في الخلافيات (٦٠) المبادی والغايات في أسرار الحروف المكنونات (٢١)المجالس الغزالية مائة وثلاثة وثمانين مجلسا (٦٢) مقاصد الفلاسفه (٦٣) الـمـنـقـدمن الضلال والمفصح عن الاحوال (٦٤) معيار النظر (٦٥) معيار العلم في المنطق (٦٦)محل النظر [وفي سير أعلام النبلاء: محك النظر] (٦٧) مشكاة الأنوار في لطائف الأخبار (٦٨)المستظهري في الرد على الباطنيه(٦٩) ميزان العمل(۷۰)مواهم الباطنيه(٧١) المنهج الأعلى (۷۲) معراج السالكين (۷۳) المكنون في الأصول (۷۴)مسلم السلاطين(۷۵)مفضل الخلاف في أصول القياس (۷۶) منهاج العابدين إلى جنة رب العلمين (۷۷) نصيحة الملوك (٧٨) الوجيز في الفروع (٩٨) الوسيط في فروع الفقه (۸۰) يـاقـوت التأويل في تفسير التنزيل اربعين مجلدا) (۸۱) اسرار الملكوت(۸۲) الانتصار لما في الأجناس من الأشرار (۸۳)الأنيس في الوحده (۸۴) البدور في أخبار البعث والنشور (۸۵) البيان في مسالك الإيمان (۸۲) تعليق الأصول (۸۷)حجة الشرع (۸۸) حقيقة القوانين(۸۹) حل الشكوك(٩٠) حدائق الدقائق (۹۱) حياة القلوب (۹۲) خزائن الدين (۹۳)الدر المنظوم والسر المكثوم (۹۴) خاتم في علم الحروف (۹۵)الذهب الابريز (۹۲)الرسالة اللدنيه (۹۷) رسالة التصريح (۹۸) رسالة الخدود (٩٩) الرسالة المسترشديه (۱۰۰) روضة الطالبين وعمدة السالكين (۱۰۱) زاد المتعلمين(۱۰۲) زادالاخره (۱۰۳)زخـر النفس (۱۰۴) سبل السلام (۱۰۵) سدرة المنتهى (۱۰۹) سر العالمين وكشف ما في الدارين (۱۰۷)صرة الانام (۱۰۸)عنقود المختصر ونقاوة المفتقر (۱۰۹)غاية الفصول (۱۱۰) غاية الوصول في الأصول (111) غرر الدررفي المواعظ (۱۱۲)فرض الدين(۱۱۳)فرض العين(۱۱۴) اساس القياس (۱۱۵) کتاب التوحيد واثبات الصفات (۱۱۶) کتاب الحدود(۱۱۷) مـرشـدالـطـالبين(۱۱۸) مـرشـد السالكين (119) مدخل السلوك إلى منازل الملوك (١٢٠) المقصد الأقصى (۱۲۱) يواقيت العلوم(۱۲۲)مقامات العلماء بين يدي الخلفاء والأمراء (۱۲۳)معرفة النفس (۱۲۴)المقصد الاسنى في شرح اسماء الحسنى (۱۲۵)معارج القدس في أحوال النفس (۱۲۶)الوقف والابتداء (۱۲۷)المعارف العقليه (۱۲۸) عقيدة أهل السنه(۱۲۹) الادب في الدين (۱۳۰)القواعد العشره (۱۳۱) قانون التاويل (۱۳۲) المواعظ في الاحاديث القدسيه(۱۳۳) المضنون به على غير أهله (۱۳۴) منهاج العارفين(۱۳۵)مكاشفة القلوب(١٣٦) منهاج العابدين.
تعارف منہاج العابدین:
تصوف کے موضوع پر بے مثال کتاب ہے کہ جس کی خود مصنف علیہ الرحمہ نے بھی کافی تعریف فرمائی مختصر انداز میں تصوف کے ابواب کو بیان کیا گیا ہے، جن میں خاص طور پر علم، توبہ، نفس و شیطان، آنکھ کان اور زبان کا بیان،حسد، دل، عجب صبر امید شکر وغیرہ کا بیان ہے اس کا کتاب کا مطالعہ طلبہ کے ساتھ ساتھ عوامی اسلامی بھائوں کے لیے بھی بہت فایدہ مند ہے، امام غزالی علیہ الرحمہ کی کتب کی خصوصیت ہے جب کوئی اپنی کتابیں پڑھتا ہے تو اسے ایسا لگتا ہے کہ یہ کتاب میرے لیے ہی لکھی گئی ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امام غزالی اس سمجھا رہے ہیں تم ایسا بھی کرتے ہو ایسا بھی کرتے ہق، یہ نہ کرو یہ کرو۔
استاذ محترم مفتی وسیم اکرم مصباحی حفظہ اللہ وقتاً فوقتاً اپنے طلبہ کو اس کتاب کو باربار پڑھتے رہنے کی ترغیب دلاتے رہتے ہیں۔
شیخ صالح زاہد علامہ عبدالملک بن عبد اللہ نے فرمایا: کہ میرے شیخ امام اخبل ، نیک بخت، توفیق یافتہ، حجة الإسلام ، دین کی زینت ، امت کے لیے شرف، ابوحامد محمد بن محمد بن محمد غزالی طوسى عليه رحمة الله الوالی نے میرے سامنے یہ کتاب پڑھی اور نقل کی ،اللہ تعالی ان کی روح کوخوش کرے اور جنت میں ان کے درجات ومراتب بلند فرماۓ ، یہ امام موصوف کی آخری تصنیف ہے اور مصنف عليہ الرحمہ سے اس کتاب کے سنے کا موقع صرف ان کے خاص احباب کو ہی میسر آیا ہے۔(منہاج العابدین ص١٥، مکتبۃ المدینہ)
امام غزالی علیہ الرحمہ منھاج العابدین میں فرماتے ہیں : میں اس ذات اقدس کی طرف ملتچی ہوا جس کے قبضہ قدرت میں تمام عالم خلق وامر کی چیزیں ہیں کہ مجھے ایک ایسی کتاب تصنیف کرنے کی توفیق دے جس پر سب متفق ہوں اور جس کو پڑھنے سے تمام کو فائدہ پہنچے تو اس رحیم وکریم ذات نے میری یہ التجا قبول فرمائی اس نے اپنے فضل و کرم سے عبادت کے عجیب وغریب اسرار ورموز پر مطلع فرمایا اور مجھے اس کتاب کی عجیب ترتیب و تدوین کا الہام فرمایا، ایسی ترتیب میں کسی اور کتاب کی تصنیف میں نہیں قائم کرسکا یہ وہ تصنیف ہے جس کی میں خود تعریف کرتا ہوں۔(منہاج العابدین ص٢١، مکتبۃ المدینہ)
ماخذ و مراجع: (اتحاف السادۃ المتقین مقدمۃ الشارح ص٩ تا ٦٠، دار الکتب العلمیہ)، (وفيات الأعيان ج٤ ، ص٢١٦ تا ٢١٩، دار صادر بيروت) (سير أعلام النبلاء ج١٩، ص٣٢٢سے، الرسالۃ)(طبقات الشافعية الكبرى ج٦، ص١٩١ تا ٢٠٣)(احیاء العلوم ج١، ص١٤ تا ٣٥، مكتبۃ المدینہ)(هدية العارفين ج٢، ص٧٩ تا ٨١، استنبول)(الأعلام للزركلي ج٧، ص٢٢،٢٣،دار العلم)