مدارس اور علما: درپیش چیلنجز اور حل

مدارس اور علما: درپیش چیلنجز اور حل

Table of Contents

مدارس اور علما: درپیش چیلنجز اور حل
سرزمین ہند کے‌مسلمانوں کے لیے مدارس کی ضرورت ایسے ہی ہے جیسے درختوں کو دھوپ کی ضرورت ہوتی ہے یہ مذہب اسلام کے وہ قلعے ہیں جہاں سے تعلیم و تعلم اور دعوت و تبلیغ کے لیے ایسے افراد کو تیار کیا جاتا ہے جو علمی،اخلاقی اور روحانی سطح پر خدمت دین مبین اور ملت اسلامیہ کی دینی و شرعی رہنمائی کرتے ہیں،چھوٹے سے گاؤں کی مسجد سے لے کر شہر کے سب سے بڑی مسجد تک مدارس ہی کے فارغین امامت کے فرائض انجام دیتے ہیں اور در پیش مسائل کا شرعی حل پیش کرتے ہیں۔
مدارس اسلامیہ کا تعلیمی نصاب،اساتذہ کا حدیث و قرآن میں درک اور طالبان علوم نبویہ کی اخلاقی اور روحانی تربیت معاشرہ کو پاکیزہ اور بااخلاق بنانے میں اہم‌کردار ادا کرتے ہیں جس کی وجہ سے علما کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے اور ان سے مذہبی و روحانی قیادت و رہنمائی کی امیدیں وابستہ کی جاتی ہیں۔
مسلمانوں کے نزدیک توحید،رسالت،ملائکہ،تقدیر،وحی اور بعث بعد الموت جیسے بنیادی عقائد کو کلیدی حیثیت حاصل ہے ان بنیادی عقائد سے روگردانی مذہب اسلام سے انحراف کے مترادف ہے۔چوں کہ معاشرہ افراد ہی کے مجموعہ کا نام ہے،اسی لیے ایسے فرزندان توحید تیار کرنا جو ان بنیادی عقائد کے رموز و اسرار سے واقف ہوں اور مسلم‌ معاشرہ کی عملی زندگی میں انھیں برپا کریں،اسلامی معاشرہ کے مقاصد میں شامل ہے۔یہ ایک امر مسلم ہے کہ ایک مسلمان بھوکا رہ کر زندگی تو گذار سکتا ہے لیکن اپنے‌مذہب اور اپنی تہذیبی اور تمدنی روایات سے الگ ہونا پسند نہیں کرتا۔
آج شرپسند عناصر قسم قسم‌ کے حربے آزما رہے ہیں اور اپنی فکری و عملی تگ و دو کے ذریعے مسلم قوم کے وجود کو مٹانے کی کوششیں کر رہے ہیں،مگر ان سب کے باوجود اگر اسلام اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے تو اس میں مدارس اسلامیہ کا بنیادی رول ہے۔

 

 

مدارس اور علما: درپیش چیلنجز اور حل

بلا شبہہ یہ اسلامی قلعے نعمت خداوندی سے کم نہیں،حلال و حرام کی تمیز،صحیح اور غلط کی پہچان اور جائز و ناجائز کی شناخت کا اہم ذریعہ یہی مدارس ہیں۔
ہندوستان میں مدارس اسلامیہ کی ایک لمبی فہرست ہے جو کہ خوش آئند ہے،لیکن باستثناے چند اکثر مدارس کے فارغین ان خوبیوں سے آراستہ ہونے میں ناکام‌ نظر آتے ہیں جو ان مقاصد‌‌ کی تکمیل کے لیے ضروری ہیں یہی وجہ ہے کہ غیر تو غیر اپنے بھی مدارس کی کارکردگی پر انگشت سوال دراز کرتے ہیں،اور بحث و مباحثہ کا ایک بازار گرم ہے۔اس میں کچھ افراد تو مخلص ہیں لیکن اکثریت ان کی ہے جو مدارس اسلامیہ کے حوالے سے ایک قسم‌ کی مخصوص ذہنیت رکھتے ہیں۔ان چیلنجز کے پیش نظر اہل مدارس کو اس پہلو پر گہرائی کے ساتھ تدبر و تفکر کرنے کی ضرورت ہے اور افراد سازی کے لیے کچھ عملی اقدامات بھی رو بہ عمل لانا چاہیے۔
علما کے نزدیک علم کے تین ذرائع ہیں اور ان کے ہی اعتبار سے علم کی اقسام بیان کی جاتی ہیں۔(١)حواس (٢)عقل (٣)فیض ربانی۔حواس کی مدد سے حاصل علم کو حسی کہا جاتا ہے اور عقل کی مدد سے حاصل علم‌ کو عقلی کہا جاتا ہے جب کہ فیض ربانی سے حاصل شدہ علم کو وحی کہا جاتا ہے۔بنی آدم کو بہت سے علوم حواس اور خرد کے ذریعے حاصل ہو جاتے ہیں جب کہ جو باتیں ان کے ذریعے معلوم نہ ہوسکیں تو ان کا علم فضل الٰہی اور وحی ربانی کے ذریعے ہوتا ہے۔جو علوم عقل سے حاصل ہوتے ہیں ان‌میں خطا کا امکان ہوتا ہے لیکن جو علم‌ وحی ربانی کے ذریعے حاصل ہوتا ہے اس میں خطا کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔کیوں کہ یہ علم‌ رب قدیر کی جانب سے انبیاء کرام علیہم السلام کے واسطہ سے بنی نوع انساں کو پہنچتا ہے۔جو انسان کی زندگی اور اس کائنات کے بارے میں ان مسائل کا جواب دیتا ہے جو عقل و حواس کے ذریعے معلوم نہیں ہو سکتے۔اسلام نے ان دو علوم کے حصول سے منع نہیں کیا بلکہ قرآن پاک میں متعدد مقامات پر غور و فکر کرنے کا حکم‌ موجود ہے۔لیکن یہ بات طے ہے کہ ان علوم میں خطا کا امکان ہوتا ہے جب کہ وحی الٰہی یعنی قرآن و احادیث کا علم قطعی و یقینی ہے،چوں کہ مدارس‌اسلامیہ کا بنیادی مقصد ہی قرآن و سنت کی تعلیمات کو عام کرنا ہے اس لیے مدارس میں زیادہ توجہ کتاب و سنت پر دی جاتی ہے اور اس معاملے میں مدارس پر تنقید کی کوئی جائز وجہ نہیں بنتی۔
لیکن دور حاضر میں جس قوم میں اسلامی تعلیمات کو فروغ دینا ہے وہ مذہب بیزار،مادیت پسند اور سیکولر افکار و نظریات سے مرعوب ہے،جس کی وجہ سے اسلام اور اہل اسلام کو متعدد چیلنجز کا سامنا ہے۔اسلامی اصول و قوائد اور شریعت اسلامیہ پر شکوک و شبہات قائم کیے جا رہے ہیں مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ شیطانی قوتیں عوام کو مذہب اسلام سے دہشت زدہ اور بد ظن کرنے کی تسلسل کے ساتھ کوششیں کر رہی ہیں۔ایسے پر فتن دور میں ایسے باصلاحیت، باعمل اور صفت حیدری کے مالک علما کی ضرورت ہے جو باطل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسلام‌ کی حقانیت اور صداقت کو واضح کریں۔اس کے لیے ایک دہائی سے یہ ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ مدارس کے طلبہ کی اس طرح فکری و عملی تربیت کی جاے کہ وہ خود لادینیت اور مادہ پسند افکار و خیالات سے متاثر نہ ہوں، اور جو لوگ اس فکر سے متاثر ہیں یا اس فکر کے علم‌بردار ہیں ان کے ساتھ مکالمہ و مباحثہ کرنے کی صلاحیت اپنے اندر رکھتے ہوں،تلخ حقیقت یہ ہے کہ کالج و یونیورسٹی کے اکثر فارغین اس فتنہ کا شکار ہیں،ان میں فکری ارتداد کا جال پھیلتا جا رہا ہے اور لوگ اس فکر کے دام فریب میں پھنستے جا رہے ہیں۔اس فکری انحطاط کا سنجیدگی کے ساتھ تجزیہ کرنے،اس کے اسباب معلوم کرنے اور اس‌سلسلہ میں علمی و فکری رہنمائی کے لیے ایک منظم و مربوط نظام‌کی‌ضرورت ہے۔

 

مدارس اور علما: درپیش چیلنجز اور حل

مدارس اسلامیہ میں جاری درس نظامی کا نصاب طویل عرصہ سے مقبول و متداول ہے۔مدارس کا نظام‌ تعلیم اور اور ان کے کردار پر بحث و مباحثے میں "نصاب تعلیم اور نظام تعلیم”پر زیادہ توجہ دی گئی ہے۔بعض اہل فکر و قلم‌ نے رائج نصاب تعلیم کو ترک کر ایسے نصاب رائج کرنے کی حمایت کی ہے جو فارغین مدارس کی دنیا کو معاشی کفالت اور بہتر معیار زیست فراہم کرے لیکن ایسا مطالبہ نہ تو معقول ہے اور نہ ہی یہ راے مدارس کے قیام‌ کے اہداف و مقاصد سے ہم آہنگ ہے۔
یہ کہنا کہ مدارس کا نظام فرسودہ ہے یہ بیجا ہے کیوں کہ مدارس کا بنیادی مقصد ہی قرآن و احادیث کی تعلیم دینا ہے اگر ان سے روگردانی کی جاتی ہے اسلامی درسگاہوں کا بنیادی مقصد ہی فوت ہو جائے گا،اور ظاہر ہے قرآن و احادیث کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ہاں یہ ضرور کیا جا سکتا ہے کہ تفسیر قرآن،تفصیل حدیث اور فقہ و قانون کی بعض کتابوں کو دور حاضر کے اسلوب میں از سر نو مرتب کر کے شامل کیا جاے۔دور حاضر میں قدیم منطق،فلسفہ اور ریاضی کی افادیت کو جدید علوم نے بے حد متاثر کیا ہے،اسی طرح فارسی زبان کی جگہ انگریزی اور دیگر زبانوں نے لے لی ہے۔قدیم فلسفہ کی جگہ جدید فلسفہ نے لے لی ہے۔آج کل کے زیادہ تر مباحث جدید فلسفہ ہی کی پیداوار ہیں۔ہماری گفتگو اہل علم کو اسی وقت متاثر کر سکتی ہے جب ہمارے جواب کا علمی معیار بلند ہو۔
اس روز افزوں ترقی پذیر دنیا میں علما کو ماضی کے ورثہ کی حفاظت کے ساتھ ساتھ حال و مستقبل کی حفاظت کے بارے میں بھی سنجیدگی کے ساتھ غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو اسلام کی غلط تشریحات کو محدود پیمانے اور وقت تک کے لیے تو روکا جا سکتا ہے لیکن عالمی پیمانہ پر یہ طریقۂ کار بری طرح ناکام ہوگا۔

از:امیر حمزہ مصباحی مبارک پوری


 

مفتی اعظم ہند اور سیاست

اسلامی سال نو کا آغاز اور ہمارا رویہ

احادیث ِمصطفی میں فضائل یومِ جمعہ

شیئر کیجیے

Leave a comment