امام عالی مقام مختصر سیرت و کردار
محمد توصیف رضا قادری علیمی
تمام ارباب سیر حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے کمالاتِ علمی کے معترف ہیں۔ علامہ ابن عبدالبر، امام نووی، علامہ ابن اثیر اور دیگر ارباب سیّر علیہم الرحمہ اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ بڑے فاضل تھے۔۔۔
لیکن افسوس اس اجمالی سند کے علاوہ واقعات کی صورت میں ان کمالات کو کسی سیرت نگار نے قلم بند نہیں کیا۔۔۔۔۔ یہی حال آپ رضی اللہ عنہ کے اخلاقی عظمت اور حسن اخلاق کا بھی ہے ۔
چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ کا یہ پہلو جس تفصیل و تشریح کا متقاضی تھا وہ عام تذکروں میں نہیں پائی جاتی جبکہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ شہادت کے وقت حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی عمر مبارک تقریباً چھپن سال کی ہوچکی تھی ۔
چھپن سال کا یہ عرصہ آپ نے خیرالقرون میں اسلامی بلکہ انسانی تاریخ کے سب سے بہترین معاشرے میں گزارا ۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ کی ابتدائی تعلیم و تربیت بھی صاحبِ خلق عظیم علیہ التحیۃ والتسلیم نے خود فرمائی ۔
نیز آپ رضی اللہ عنہ نے جس عظیم ماں کی گود میں پرورش پائی اس کی پاک دامنی اور طہارت پر قرآن و حدیث گواہ ہیں ، نانا جان علیہ التحیۃ والسلام کے وصال شریف کے بعد حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی تعلیم و تربیت اس باپ نے فرمائی جو علم و عمل کا مجمع البحرین تھے۔۔۔۔
اور جس کے علمی و عملی کمالات اور فضائل و محاسن پر قرآن و حدیث کے علاوہ تاریخ اسلام کی گواہی ثبت ہے ۔
بہر کیف! حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے عمومی اخلاق و عادات اور خصائل کی طرف اجمالی طور پر مشہور تذکرہ نگار ابن الاثیر نے یوں اشارہ کیا ہے : وکان الحسین رضی الله عنه فاضلا کثیر الصوم والصلوة والحج والصدقة و افعال الخیر جمیعا ۔ (ابن الاثیر، اسدالغابہ، 2: 23) ’’ کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ بڑی فضیلت کے مالک، کثرت سے روزہ، نماز، حج ادا کرنے والے، صدقہ دینے والے اور تمام افعال خیر سرانجام دینے والے تھے‘‘۔
*بڑے بھائی کا ادب؛*
اسلامی اخلاق و آداب کی رو سے چھوٹے بھائیوں پر اپنے بڑے بھائی کا ادب و احترام اسی طرح لازم ہے جس طرح والد محترم کا احترام لازم ہوتا ہے۔ چھوٹے بھائیوں کے سامنے بڑے بھائی کا مرتبہ و مقام شرعی نقطہ نظر سے والد کے برابر ہے۔۔۔
۔۔۔چنانچہ حدیث شریف میں ہے : حق کبیر الاخوة علی صغیرهم حق الوالد علی ولده ۔ (مشکوۃ المصابیح، کتاب الآداب باب البر والصلة، ص: 421) ۔ تمام بھائیوں میں بڑے بھائی کا حق چھوٹے بھائیوں پر اُس حق کے برابر ہے جو والد کو اپنی اولاد پر حاصل ہے۔
حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے نانا جان علیہ التحیۃ والسلام کے اس فرمان پر عمل کرتے ہوئے کس طرح اپنے بڑے بھائی حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کا دل کی گہرائیوں سے احترام کیا۔۔ ملاحظہ فرمائیں؛
نامور مورخ ابن قتیبہ نے یہ ایمان افروز اور سبق آموز واقعہ لکھا ہے کہ ایک آدمی نے حضرت حسن بن علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہما کے پاس آکر سوال کیا (بھیک مانگی) تو حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا: دیکھو بھیک مانگنا جائز نہیں سوائے بہت زیادہ مقروض یا محتاج بنادینے والے فقر یا بہت زیادہ تاوان کی شکل میں، تو اس آدمی نے عرض کیا: میں اسی قسم کا ایک مسئلہ درپیش ہونے کی صورت میں آپ کے پاس آیا ہوں ۔
۔۔۔اس پر آپ نے اسے سو دینار دینے کا حکم فرمایا۔ پھر وہ آدمی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور آپ سے بھی سوال کیا۔ آپ نے بھی بھیک کے معاملے میں اس سے وہی بات فرمائی جو حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے فرمائی تھی۔ اس نے وہی جواب دیا جو وہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو دے چکا تھا۔۔۔
۔۔۔تو آپ نے پوچھا: انہوں نے تجھے کتنی رقم دی؟ اس نے بتایا سو دینار۔ اس پر آپ رضی اللہ عنہ نے ایک دینار کم کرتے ہوئے (ننانوے) دینار اسے دے دیے اور اس بات کو پسند نہ فرمایا کہ بڑے بھائی کے ساتھ اس معاملے میں برابری کریں.(ابن منظور، مختصر تاریخ دمشق لابن عساکر، 7/ 126 ملخصاً)’’
اور یہ حقیقت ہے کہ بڑا بھائی چھوٹے بھائی کے سامنے بنفس نفیس موجود ہو تو حیاء کا تقاضا ہوتا ہے کہ چھوٹا بڑے کا احترام کرے جبکہ سامنے موجود نہ ہونے کی صوت میں عموماً اس چیز کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا مگر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے بڑے بھائی جان حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کے ادب و احترام کو غائبانہ طور پر بھی ملحوظ رکھا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے سبق حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
*خدمتِ خلق؛*
فیاضی و سخاوت اور ایثار جیسی خوبیاں آپ رضی اللہ عنہ کو ورثے میں ملی تھیں۔ اس لیے کمال فیاضی اور ایثار کا مظاہرہ کرتے ہوئے خلقِ خدا کی حاجات کو پورا کرنا آپ کا عام معمول تھا۔
اس حوالے سے حافظ ابن عساکر نے ابو ہشام القناد البصری کی زبانی یہ چشم دید گواہی نقل کی ہے کہ میں (ابو ہشام) حضرت حسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما کے پاس بصرہ سے سامان (متاع) فروخت کے لیے لایا کرتا تھا۔ آپ اس میں جھگڑ کر مجھ سے قیمت کم کراتے پھر میرے وہاں سے اٹھنے سے پہلے پہلے اس سامان کا زیادہ تر حصہ لوگوں کو عنایت فرمایا کرتے۔
۔۔۔میں نے عرض کیا اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بیٹے! میں آپ کے پاس بصرہ سے سامان لاتا ہوں آپ باقاعدہ اصرار کرکے اور جھگڑا کرکے اس میں قیمت کم کراتے ہیں اور پھر میرے اٹھنے سے پہلے پہلے اس کا زیادہ تر حصہ لوگوں میں تقسیم بھی کردیتے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ نے فرمایا: میرے والد گرامی نے مجھے یہ مرفوع حدیث سنائی تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:المخبون لا محمود ولا ماجور.(ابن منظور، مختصر تاریخ دمشق لابن عساکر، 7/115)’’جو آدمی سودے یا لین دین میں دھوکا کھا جائے وہ قابلِ ستائش ہے نہ قابل اجر‘‘۔
اور نامور صوفی حضرتِ داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ القوی نے کشف المحجوب میں یوں نقل کیا ہے کہ ایک دن ایک آدمی آپ (یعنی امام حسین) کے پاس آیا اور عرض کیا: اے رسول خدا عزوجل کے فرزند! میں ایک درویش اور بال بچے دار آدمی ہوں، اس لیے آج رات آپ سے کھانے اور مدد کا طلب گار ہوں۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا: تم بیٹھ جاؤ، ہمارا وظیفہ (شام سے) آرہا ہے۔ چنانچہ کچھ دیر کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی جانب سے پانچ تھیلیاں آپ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچ گئیں۔
۔۔ہر تھیلی میں ایک ہزار دینار (سونے کی اشرفی) موجود تھا۔ لانے والے اہلکاروں نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے کہا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ آپ سے معذرت کررہے تھے اور فرماتے تھے کہ ان دیناروں کو خرچ فرمایئے بعد میں مزید بھیج دیئے جائیں گے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے مذکورہ درویش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اہل خانہ سے فرمایا کہ یہ تمام تھیلیاں اسے دے دی جائیں
*صحابہ کرام کا احترام؛*
حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی خاندانی عظمت و شرافت اور ذاتی فضائل و مناقب کے پیش نظر حضرت ابوبکر و عمر اور حضرت عثمان غنی جیسے کبار صحابہ ان کی تعظیم و تکریم فرماتے اور ان کا حد درجہ احترام فرماتے تھے۔(ابن کثیر، البدایه والنهایه)
مگر حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کا اپنا طرز عمل اور سوچ یہ تھی کہ اس تعظیم میں کہیں اسلامی اخلاق و آداب کے خلاف کوئی کام واقع نہ ہوجائے۔ چنانچہ مشہور محدث علامہ نور الدین ہیثمی نے امام محمد باقر بن علی بن حسین رضی اللہ عنہ کی زبانی یوں نقل کیا ہے کہ ’’ایک مرتبہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ سے باہر مقام حرہ کے قریب واقع اپنی زمین کی طرف جانے کے لیے نکلے تو راستے میں مشہور صحابی حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے انہیں پالیا وہ اپنی سواری (خچر) پر سوار تھے۔
۔۔۔حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو پیدل چلتے دیکھ کر سواری سے اتر پڑے اور سواری کو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے قریب کرتے ہوئے عرض کیا: اے عبداللہ! آپ اس پر سوار ہوجایئے۔ مگر آپ نے سواری پر بیٹھنے کو ناپسند فرمایا۔ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کے اصرار کے باوجود جب آپ سوار نہ ہوئے تو انہوں نے قسم اٹھا لی کہ آپ کو ہر قیمت پر سوار ہونا ہوگا۔ اب سوار ہونے کے بغیر کوئی چارہ کار نہ تھا،
۔۔تاہم فرمایا: تم نے قسم اٹھا کر مجھے تکلیف میں ڈال دیا۔ اب یوں کیجئے کہ آپ سواری کے آگے بیٹھیں میں آپ کے پیچھے بیٹھوں گا۔ کیونکہ میں نے اپنی امّی جان (سیدہ فاطمۃ الزہرا بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو یہ حدیث نقل کرتے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:الرجل احق بصدرد ابته وصدر فراشه والصلوة فی منزله الا ما یجمع الناس علیه. ’’آدمی اپنے چوپائے (سواری) کے اگلے حصے پر بیٹھنے کا زیادہ حق دار ہوتا ہے۔
اسی طرح بستر کے اگلے حصے پر بیٹھنے کا زیادہ حق دار صاحب فراش ہے جبکہ گھر میں باجماعت نماز پڑھنے کی صورت میں صاحب خانہ امامت کرانے کا زیادہ حق دار ہے‘‘۔ اس پر حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی نے بالکل سچ فرمایا ہے میں نے اپنے باپ بشیر کو بھی اسی طرح کہتے سنا ہے جیسا کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ہے
۔۔۔مگر اس کے ساتھ ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ الا من اذن مگر وہ آدمی جس کو مالک اجازت دے۔ یہ سن کر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سواری پر سوار ہوگئے۔ (مجمع الزوائد و منبع الفوائد (کتاب الادب، باب صاحب الدابۃ احق بصدرہا)
*تواضع وانکساری؛*
اسلامی اخلاق و آداب اور اوصاف میں تواضع و انکساری کو جو اہمیت حاصل ہے نیز اسلامی تعلیمات میں اس کی جتنی تاکید آئی اور اس سلسلے میں خود پیغمبر اسلام علیہ السلام نے جو مثالی نمونہ چھوڑا ہے، یہ سب چیزیں سیدنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سے مخفی نہیں تھیں، اس لیے خاندانی معاشرتی، سماجی اور مذہبی و روحانی اعتبار سے انتہائی بلند مرتبہ و مقام حاصل ہونے کے باوجود آنجناب کے اندر کمال درجے کی تواضع و انکساری پائی جاتی تھی۔
چنانچہ نامور مورخ و محدث حافظ ابن عساکر نے اس کی ایک سبق آموز مثال یوں درج کی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا گزر چند مساکین کے پاس سے ہوا جو (مسجد نبوی کے ساتھ) صفہ میں کھانا کھا رہے تھے۔ انہوں نے آپ کو دیکھ کر عرض کیا آیئے کھانا تناول فرمایئے۔ آپ بیٹھ گئے اور فرمایا:ان الله لایحب المتکبرین.’’بے شک اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا‘‘۔
۔۔۔ان مساکین کے ساتھ کھانا تناول فرمایا، پھر ان سے فرمایا: میں نے تمہاری دعوت قبول کی، اب تم لوگ میری دعوت قبول کرو۔ سب نے کہا: نعم: ہاں ٹھیک ہے۔چنانچہ آپ انہیں اپنے دولت کدہ پر لے گئے اور اپنی اہلیہ محترمہ حضرت رباب سے فرمایا کہ جو کچھ کھانے کو تمہارے پاس موجود ہے وہ لے آؤ۔(ابن منظور، مختصر تاریخ دمشق لابن عساکر، 7/ 129)
*عاشوراء میں مخلصانہ پیش کش؛*
انسانی فطرت ہے کہ انسان مشکل اور آزمائش کے وقت میں زیادہ سے زیادہ لوگوں سے مدد اور تعاون کا خواہاں ہوتا ہے۔ مگر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے ایسے موقعہ پر بھی کسی کو آزمائش اور مشکل میں ڈالنا پسند نہیں فرمایا۔۔۔
چنانچہ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے عاشوراء کی رات اپنے تمام اصحاب کو جمع کیا پھر (اس مشکل ترین اور آزمائش کی گھڑی میں بھی) اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا: میں یہی محسوس کررہا ہوں کہ یہ لوگ (یزیدی فوج) بہر صورت کل تمہارے ساتھ جنگ کریں گے ۔ اس صورت حال میں تم سب کو (بخوشی) اجازت دیتا ہوں ۔
تم سب میری طرف سے آزاد ہو اور اب رات کے اندھیرے نے تمہیں ڈھانپ لیا ہے۔ پس جس آدمی کے پاس ہمت ہو وہ میرے اہل بیت میں سے کسی آدمی کو ساتھ ملا لے اور تم سب رات کے اندھیرے میں یہاں سے نکل جاؤ، ان لوگوں (یزیدی فوج) کو تو صرف میری تلاش ہے، کل جب یہ مجھے دیکھیں گے تو تمہاری تلاش بھول جائیں گے اس مخلصانہ پیش کش پر آپ کے اہل بیت نے کہا:لا ابقانا الله بعدک والله لانفار قک وقال اصحابه کذالک ۔
ترجمہ : اللہ تعالیٰ آپ کے بعد ہمیں زندہ نہ رکھے۔ قسم بخدا ہم آپ کو اکیلا چھوڑ کر نہیں جائیں گے اور آپ کے دوسرے ساتھیوں نے بھی اسی طرح کے جذبات کا اظہار کیا ۔(الذهبی، سیراعلام النببلاء، 3/ 301)
*حسینی پیغام؛*
حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نے میدانِ کربلا میں اور اپنی مبارک حیات کے دیگر مواقع پر جو خُطبات اور نصیحت آموز اَشعار ارشاد فرمائے ان میں سے چند منتخب نصیحتیں ملاحظہ کیجئے :
(1) اے لوگو! اچھے اَخلاق میں رغبت کرو، نیک اعمال میں جلدی کرو، جس نے کسی پر احسان کیا ہو اور وہ اس کا شکر ادا نہ کرے تو احسان کرنے والے کو اللہ پاک عوض عطا فرماتا ہے۔ یقین کرو نیک کام میں تعریف ہوتی ہے اور ثواب ملتا ہے ،
(2) اے لوگو! جو سخاوت کرتا ہے وہ سردار ہوتا ہے اور جو بُخل کرتا ہے وہ ذلیل و رُسوا ہوتا ہے۔ زیادہ سخی وہ شخص ہے جو اس شخص پر سخاوت کرے جسے اس کی اُمید نہ ہو۔
(3) زیادہ پاک دامن اور بہادُر وہ شخص ہے جو بدلہ لینے پر قادر ہونے کے باوجود مُعاف کردے ، زیادہ صِلۂ رحمی کرنے والاشخص وہ ہے جو قَطْع تعلق کرنے والے رشتے داروں سے تعلق جوڑے۔
(4) جو شخص اپنے بھائی پر احسان کرکے اللہ کی رضا چاہے اللہ پاک مشکل وقت میں اس کا بدلہ دیتا ہے اور اس سے سخت مصیبت ٹال دیتا ہے۔
(5) جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی سے دنیوی مصیبت دور کی اللہ پاک اس سے اُخرَوی مصیبت دور کرتا ہے اور جو کسی پر احسان کرے اللہ کریم اس پر احسان فرماتا ہے اور احسان کرنے والے اللہ کے پیارے ہیں (نورالابصار فی مناقب آل بیت النبی المختار ، ص 152 ، 153)
اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی سیرت اور ارشاداتِ مبارکہ کو اپنے دلوں میں جگہ دینے اور ان پر عمل کرنے کی سعادت عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الکریم ﷺ
از قلم: محمد توصیف رضا قادری علیمی
(بانی الغزالی اکیڈمی و اعلیٰحضرت مشن، آبادپور تھانہ (پرمانک ٹولہ) ضلع کٹیہار بہار، الھند : متعلم دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی،بستی۔ یوپی،۔۔۔۔ شائع کردہ۔۔۔ ٨/اگست/٢٠٢٢)*