سید مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی کی حیات کے زریں نقوش
از قلم: توحید اختر مصباحی
رب ذوالجلال جس سے راضی ہوتا ہے اسے اپنے دین کی سرفرازی و سربلندی کے لیے منتخب فرما لیتا ہے اور ان کے لیے ایسے اسباب پیدا فرما دیتا ہے کہ اُنھیں کٹھن وادیوں کو بھی عبور کرنے میں تکالیف کا احساس نہیں ہوتا ہے، انھیں اپنے خزانۂ علم و حکمت سے وافر حصہ عطا فرماتا ہے کہ علم و فضل کے بغیر دوسرے کی رہبری و رہنمائی ممکن ہی نہیں ہے_ حضور مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللّٰہ علیہ ان نابغۂ روزگار ہستیوں میں ہیں جن کے وجود مسعود نے ملت کی ڈگمگاتی کشتی کو راہ راست کا پتہ دیا- آپ کی ذات بابرکات علم و حکمت اور سلوک و طریقت کی دنیا میں مجمع البحرین کی حیثیت رکھتی ہے- آپ کے اقوال و افعال میں علمی عبقریت، ادبی وجاہت ، دینی منزلت، عملی جامعیت اور فقر و سلطنت کے مختلف گوشے یکجا تھے- آپ کا شمار اپنے زمانے کے اکابر علماء میں ہوتا تھا-
آپ کسی ایک میدان کے شہسوار اور تجربہ کار نہیں تھے بلکہ جس میدان میں بھی قدم رنجہ ہوئے اپنی خداداد صلاحیت سے اس میں فتح و نصرت کا پرچم لہرادیئے- یہی وجہ ہے کہ آپ کے یہاں تحریر، تقریر، تدریس، تصنیف و تالیف ہر طرح کی بہاریں دیکھنے کو ملتی ہیں- آپ جہاں درسیات پر عبور رکھنے والے با صلاحیت مدرس اور ماہر معلم تھے وہیں اپنے پراثر وعظ و نصیحت سے ہزاروں گم گشتگان راہ کو صراط مستقیم پر لا کر کھڑا کر دینے والے لاجواب داعی و مبلغ بھی تھے- اور اپنی نوک قلم سے درجنوں کتب و رسائل کا علمی ذخیرہ چھوڑنے والے ایک مایہ ناز ادیب بھی تھے- غرض کہ ایک باکمال اور علمی شخصیت میں جو اوصاف و کمالات ہونی چاہیے وہ تمام آپ کی ذات والا میں بدرجہ اتم موجود تھیں_
حضرت مخدوم اشرف جہانگیر سمنانی رضی اللہ تعالی عنہ کو دین کا کام اتنا محبوب و مرغوب تھا کہ تخت شاہی کو ٹھکرا کر فقیرانہ لبادہ اوڑھے اور دین نبی کی خاطر اپنے ملک عزیز کو الوداع کہہ کے پیغام اسلام کی ترویج و اشاعت کے لیے ہندوستان کے راہی بن گئے- شریعت و طریقت کا جام پی کر ایسے مست ہوئے کہ پھر ہمیشہ کے لیے راہ سلوک کے مسافر بن گئے- آپ نے دنیا کو ذرہ برابر بھی حیثیت نہیں دی رضائے الہی کی خاطر طاؤس و رطاب، لطف و راحت، آسائش و آرام اور شاہانہ زندگی کو ترک کر کے فقیرانہ زندگی اختیار کی- آپ ہمیشہ محبوب کی یاد میں کھویا رہتے تھے آپ کے ذہن کے دریچے ہمیشہ ذکر الہی سے معطر رہتے تھے اگرچہ ظاہری طور پر امور مملکت آپ کو مشغول رکھتے تھے لیکن فرائض و واجبات اور سنن و نوافل کی پابندی یہاں تک کرتے تھے، کہ آداب ارکان شریعت بھی آپ سے ترک نہیں ہوتے تھے-
آپ کی نوجوانی کا ایک بہت مشہور واقعہ ہے: کہ شہر سمناں سے متصل ایک پہاڑی کے غار میں آپ مصروف عبادت تھے آپ نے دیکھا کہ آپ کی والدہ ماجدہ تشریف لائی ہیں اور کہہ رہی ہے اے اشرف! مستقبل قریب میں عنان حکومت تمہارے ہاتھوں میں آنے والی ہے اور اگر حکومت سے تمہاری بے رغبتی کا یہی عالم رہا تو تم کس طرح شہنشاہی کے فرائض انجام دو گے یہ الفاظ جیسے ہی آپ کی سماعت سے ٹکرائے تو آپ نے اپنی نگاہ اوپر اٹھا کر دیکھا اور غصہ کی حالت میں یہ ارشاد فرمایا یہ تو میری ماں ہرگز نہیں ہو سکتی کیونکہ میری والدہ مجھے یاد الہی سے غافل کرنے کی سعی ہرگز نہیں کر سکتی تو یقینا دیوتا ہے جو اپنے مکر و فریب میں گرفتار کر کے مجھے یاد الہی سے بیگانہ کرنا چاہتی ہے آپ کے ان الفاظ کو سن کر وہ دیوتا بہت زور سے ہنسا اور کہنے لگا اشرف میں واقعی دیوتا ہوں اور اپنے مکر و فریب کا اسیر کرنا چاہتی تھی لیکن تم جیت گئے اور میں ہار کر شرمندہ و پشیما ہوں-
حضرت مخدوم سمنانی نے طریقت و معرفت کو ہی اپنا مطمع نظر نہیں بنایا بلکہ تصنیفات و تالیفات کے میدان میں بھی اپنے وجود کا احساس دلایا- آپ نے کچھ کتابیں عربی زبان میں کچھ فارسی میں تصنیف فرمائیں، کچھ کتابوں کا فارسی سے عربی میں اور کچھ کا عربی سے فارسی میں ترجمہ کیا- اپنے دور کے علما و صوفیا کی بہت ساری کتابوں پر معلومات افزا تقاریظ بھی قلم بند کیے- آپ کے دور میں جو کوئی بھی کتاب لکھتا بغرض اصلاح آپ کی خدمت میں پیش کرتا اور آپ ان پر اصلاح کے ساتھ ساتھ تقاریظ بھی تحریر فرماتے جو کتاب اور صاحب کتاب کے لیے سند کا درجہ رکھتی- اس سے حضرت کی علمی وجاہت بخوبی ظاہر ہوجاتی ہے-
آپ نے صرف فارسی اور عربی میں ہی کتابیں نہیں لکھی بلکہ جس جگہ جس علاقے میں بھی تبلیغ کے لیے گئے اسی کی زبان میں ضرورت اور حالات کے مطابق کتابیں تصنیف فرمائی- اردو زبان میں تصنیف کا آغاز آپ سے ہی ہوا اس بنا پر آپ کو اردو کا اولین نثر نگار مانا جاتا ہے اور آپ کے "رسالہ اخلاق و تصو ف” کو اردو نثر کی پہلی کتاب کہی جاتی ہے-
پروفیسر حامد حسن قادری اپنی کتاب "داستان تاریخ اردو” میں اس رسالے کے بارے میں لکھتے ہیں:
اب تک ارباب تحقیق متفق الرائے تھے کہ شمالی ہند میں 18 ویں صدی عیسوی (12ویں صدی ہجری) سے پہلے اردو تصنیف و تالیف کا کوئی وجود نہ تھا یہ فخر دکن کو حاصل ہے کہ وہاں شمالی ہند سے چار سو برس پہلے اردو کی تصنیف کا آغاز ہوا اب سید اشرف جہانگیر سمنانی کے رسالہ تصوف کے دریافت سے وہ نظریہ باطل ہو گیا اور ثابت ہو گیا کہ دکن میں اردو کی بنیاد پڑنے سے پہلے شمالی ہند میں امیر خسرو اور سید اشرف جہانگیر سمنانی نے نظم و نثر کی بنیاد ڈال دی تھی- صاحب صاحب جہان علوم و معارف رقم طراز ہیں: "امراء حضرت کے مذاق علمی کو دیکھ کر اہم کتابوں کا تحفہ بھیجتے تھے علماء اصلاح و نظر ثانی کے لیے گراں قدر تصانیف کا نذرانہ پیش کرتے تھے، قاضی شہاب الدین دولت آبادی نے ایک موقع پر اپنی تصانیف کے علاوہ بعض کتابیں بھی حضرت مخدوم پاک کی خدمت میں بھیجا- اور ایک عرصہ تک مراسلات کا سلسلہ جاری رکھا جس کی چند جھلکیاں مکتوبات اشرفی میں بھی ملتی ہیں-”
آپ کے تصانیف کی فہرست طویل ہے یہ مختصر سا مضمون تمام کتابوں کی تعارف کا متحمل نہیں بعض کتابوں پر تو باضابطہ کام ہوا اور عوام و خواص نے ان سے استفادہ بھی کیا- لیکن بعض کتابیں ابھی بھی قلمی نسخے میں لائبریریوں کی زینت بنی ہوئی ہیں- آپ کی سب سے پہلی تصنیف قرآن پاک کا ترجمہ ہے جو آپ نے سلیس فارسی زبان میں کیا ہے، چونکہ اس وقت آپ سمنان کے تخت شاہی پر جلوہ فراز تھے اور سمنان میں فارسی زبان رائج تھی اسی لیے آپ نے فارسی زبان ہی میں قرآن پاک کا ترجمہ کیا- اور یہ نایاب ترجمہ امت کو پیش کر کے بہت بڑا احسان کیا- جہاں بھر میں آپ کے ترجمۂ قرآن کی نظیر نہیں ملتی حالانکہ فارسی میں اور بھی ترجمے کیے جا چکے ہیں لیکن ان میں آپ کا ترجمہ سب سے منفرد و ممتاز نظر آتا ہے جس سے آپ کی قرآن فہمی اور دقت نظری کا اندازہ ہوتا ہے- فارسی زبان میں قرآن کا ترجمہ کرنے والوں میں آپ کو تقدم اور اولیت کا درجہ حاصل ہے- آپ سے پہلے کسی نے بھی قران کا فارسی میں ترجمہ نہیں کیا یہ اہم کارنامہ ۷۲۷ ہجری میں انجام پایا- اب اس کا اردو میں بھی ترجمہ کیا جا چکا ہے- آپ کے تصانیف میں ایک نام "لطائف اشرفی” کا آتا ہے جو آپ کی تمام تصانیف میں سب سے زیادہ مشہور و معروف ہے- جو آپ کی حالات زندگی اور ملفوظات پر مشتمل ایک عظیم علمی شاہکار ہے اس کی ترتیب و تدوین آپ کے مرید و خلیفہ حضرت نظام یمنی رحمۃ اللہ علیہ نے کی ہے اس کتاب کو مستند اس لحاظ سے تسلیم کیا جاتا ہے کہ حضرت نظام یمنی نے ترتیب و تدوین کے بعد اس کو آپ کی خدمت میں پیش کیا اور آپ نے بذات خود اس کی تصحیح فرمائی- اس میں شریعت و طریقت کے بے شمار مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے اور معرفت و طریقت کے اہم نکات کو اجاگر کیا گیا ہے- جو طالبان راہ سلوک کے لیے ایک انمول تحفہ ہے-
از قلم: توحید اختر مصباحی
استاد جامعہ مشکات العلماء ، مظفر پور بہار