ہرعالم ومجتہد کے بعض اقوال متروک
از قلم: طارق انور مصباحی
1-اعلی حضرت قدس سرہ العزیز نے رقم فرمایا:
"صحابہ کرام سے ائمہ اربعہ تک رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کوئی مجتہد ایسا نہ ہو گا جس کے بعض اقوال خلاف جمہور نہ ہوں”-(فتاوی رضویہ)
توضیح:مجتہد کا علم وادراک غیر مجتہد کے علم وفضل سے یقینا زیادہ ہوتا ہے۔یہ بدیہی بات ہے۔عہد حاضر میں کوئی مجتہد نہیں۔جب ہر مجتہد کے بعض اقوال خلاف جمہور ہوتے ہیں تو آج کے ہر محقق وفقیہ کے بھی بعض اقوال یقینا خلاف جمہور ہوں گے۔
عہد حاضر میں برصغیر میں اہل سنت وجماعت(اعلی حضرت قدس سرہ العزیزکے متبعین)متعدد طبقات میں منقسم ہیں۔
ہر طبقہ کے افراد اپنے طبقہ کے قائد ورہنما کے بارے میں بتائیں کہ ان کا کون سا قول خلاف جمہور ہے؟
خیال رہے کہ عقیدت کا دائرہ شریعت اسلامیہ متعین کرتی ہے۔شریعت اسلامیہ حاکم ہے۔اگر عقیدت ومحبت شریعت اسلامیہ کی مخالفت پر آمادہ کرے تو ایسی عقیدت ناقابل قبول ہے۔
کسی کو اس سوال کا جواب مجھے بتانا نہیں ہے,بلکہ اپنے قلب وذہن میں جواب کو محفوظ کرنا ہے اور اپنی اصلاح کرنی ہے۔
یہ مضمون محض اس لئے رقم کیا جا رہا ہے کہ احباب اہل سنت اپنے قائد کی عقیدت میں فریق مخالف پر تبرا بازی بند کریں۔ممکن ہے کہ جس مسئلہ کے سبب آپ فریق مخالف پر طعن کر رہے ہوں,اس مسئلہ میں خود آپ ہی خطا پر ہوں اور فریق مخالف نے صحت کو پایا ہو۔
جس طرح فریق مخالف کا کوئی قول ناقابل عمل اور خلاف جمہور ہو گا,اس طرح آپ کا بھی کوئی قول ضرور ناقابل عمل اور خلاف جمہور ہو گا۔منقولہ بالا اقتباس سے یہی ثابت ہوتا ہے۔
جب آپ اپنے گریبان میں جھانکیں گے اور آپ اسلامی اخلاق وکردار کے حامل ہیں تو آپ کی زبان بند ہو جائے گی۔تبرا بازی نہیں کریں گے۔
اگر آپ بھی تبرا باز ہیں تو قوم کو مطلع کیا جاتا ہے کہ ایسے تبرا بازوں کے فریب میں مبتلا نہ ہوں۔
2–اعلی حضرت علیہ الرحمۃ والرضوان نے تحریر فرمایا:
"ہر عاقل مسلمان جانتا ہے کہ نوع بشر میں عصمت خاصہ انبیاء ہے۔نبی کے سوا کوئی کیسے ہی عالی مرتبے والا ایسا نہیں جس سے کوئی نہ کوئی قول ضعیف,خلاف دلیل یا خلاف جمہور نہ صادر ہوا ہو۔
(کل ماخوذ من قولہ ومردود علیہ الا صاحب ہذا القبر صلی اللہ تعالی علیہ وسلم)”-(فتاوی رضویہ)
توضیح:منقولہ بالا اقتباس میں خلاف دلیل سے مراد یہ ہے کہ دلیل سے وہ مسئلہ ثابت نہیں جس مسئلہ کو مجتہد یا مفتی وعالم نے ثابت کیا ہے,بلکہ ان سے اجتہادی خطا یا تحقیقی لغزش ہو گئی اور انہیں اس لغزش کا علم نہ ہو سکا,لہذا انہوں نے رجوع نہ کیا۔
خلاف دلیل کا یہ مفہوم نہیں کہ کوئی مجتہد جان بجھ کر دلیل کے خلاف کوئی مسئلہ بیان کرتے ہیں۔
منقولہ بالا اقتباس سے ثابت ہو گیا کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے علاوہ افراد امت یعنی مومنین میں سے ہر مجتہد وعالم کا کوئی نہ کوئی قول خلاف جمہور وخلاف دلیل ضرور ہوتا ہے۔حضرات انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام معصوم ہیں۔وہ مذکورہ کلیہ سے مستثنی ہیں۔
برصغیر میں اہل سنت وجماعت کے ہر طبقہ کے افراد بتائیں کہ ان کے قائد ورہنما کا کون سا قول خلاف جمہور وخلاف دلیل ہے۔
واضح رہے کہ ایسے سوال کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ بعض لوگ ظنی واجتہادی مسائل میں اپنے قائد ورہنما کے قول کو سو فی صد صحیح سمجھنے لگے ہیں اور فریق مخالف کے قول کو سو فی صد غلط سمجھنے لگے ہیں۔
اگر ایسا وہ نہیں سمجھتے ہیں تو تبرا بازی کیوں کرتے ہیں؟گروپ بندی کی نوبت کیوں آئی؟
یہ کیوں نہیں کہتے کہ ممکن ہے کہ فریق مخالف کا قول عند اللہ صحیح ہو۔جیسے ہی یہ نظریہ لوگ تسلیم کر لیں گے,ویسے ہی طبقہ بندی بھی ٹوٹ جائے گی اور کسی کو تبرا بازی کی ہمت بھی نہیں ہو گی۔
قطعی مسائل یعنی ضروریات دین وضروریات اہل سنت میں حکم ہے کہ ہم اپنے قول کو سو فی صد صحیح اور مخالف قول کو سو فی صد غلط مانیں۔
ظنی واجتہادی مسائل میں حکم ہے کہ ہم اپنے قول کو ظن غالب کے طور پر صحیح مانیں اور ساتھ ہی اجتہادی خطا کا احتمال بھی مانیں۔
فریق مخالف کے قول کو ظن غالب کے طور پر غلط مانیں اور ساتھ ہی صحت کا احتمال بھی مانیں۔
باب فقہیات کے غیر منصوص ظنی مسائل میں اختلاف کے سبب ایک دوسرے پر تبرا بازی کی اجازت نہیں۔بدمذہبوں کے احکام جدا گانہ ہیں۔
3-اعلی حضرت قدس سرہ القوی نے رقم فرمایا:
"کسی بشر غیر معصوم کی کوئی کتاب ایسی نہیں جس میں سے کچھ متروک نہ ہو”-(فتاوی رضویہ)
توضیح: مذکورہ بالا حکم تمام غیر معصومین کے لئے ہے۔ہر طبقہ کے افراد اہنے قائد ورہنما کے بارے میں بتائیں کہ ان کی کسی کتاب میں مرقوم کون سا مسئلہ متروک ہو گا؟
جب حضرات صحابہ کرام وائمہ مجتہدین رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کا بیان کردہ کوئی نہ کوئی مسئلہ متروک وخلاف جمہور ہے تو عہد حاضر کے غیر مجتہد علما وفقہا کا ہر قول قابل عمل کیسے ہو سکتا ہے؟
واضح رہے کہ ضروریات دین وضروریات اہل سنت اور اجماعی عقائد ومسائل میں اجتہاد جاری نہیں ہوتا۔ایسے مسائل میں سنی علما کا اختلاف نہیں,بلکہ بعض غیر منصوص فقہی مسائل میں اختلاف ہے۔ان کی تعداد بھی بہت کم ہے۔
لاؤڈسپیکر پر اقتدا کے جواز وعدم جواز کا مسئلہ حضور مفتی اعظم ہند علیہ الرحمۃ والرضوان کے عہد سے مختلف فیہ ہے,لیکن اس وقت نہ تبرا بازی کا وجود تھا,نہ طبقہ بندی ہوئی تھی۔
موجودہ طبقہ بندی کی بنیاد تبرا بازیوں پر ہے,نہ کہ علمی اختلاف پر۔ٹی وی کی تحقیق غالبا 1987 میں بند ہو چکی تھی,جب فریق اول نے کہہ دیا تھا کہ اب میں کچھ نہ لکھوں گا,جس کو جو لکھنا ہے,وہ لکھتا رہے۔
اس کے بعد 1989 سے لفظ کملی کی تحقیق شروع ہوئی,اس کے بعد تبرا بازیوں کے سبب 1992-1993 میں طبقہ بندی ہوئی۔اس کے بعد ہر ذیلی طبقہ میں بھی طبقہ بندی ہو گئی۔
5-اعلی حضرت قدس سرہ العزیز نے رقم فرمایا:
"وہابیوں بلکہ سب گمرہوں کی ہمیشہ یہی حالت رہی ہے کہ ڈوبتا سوار پکڑتا ہے۔جہاں کسی کا کوئی لفظ شاذ مہجور پکڑ لیا,خوش ہو گئے اور اس کے مقابل تصریحات قاہرہ سلف وخلف,بلکہ ارشادات صریحہ قرآن وحدیث کو بالائے طاق رکھ دیا,مگر اہل حق بحمد اللہ تعالی خوب جانتے ہیں کہ شاہراہ ہدایت اتباع جمہور ہے۔جس سے سہوا خطا ہوئی,اگرچہ معذور ہے,مگر اس کا وہ قول متروک ومہجور ہے”-(فتاوی رضویہ)
توضیح:منقولہ بالا اقتباس میں بتایا گیا کہ گمراہ لوگ متروک ومہجور قول کو اختیار کر لیتے ہیں اور شور مچاتے پھرتے ہیں۔اس کے بالمقابل اقوال صحیحہ کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔
ذیلی طبقات سے چند سوالات ہیں۔
1-جو فقہا ٹی وی کو اپنے دلائل کی روشنی میں جائز سمجھتے ہیں,وہ سنی ہیں یا غیر سنی؟
2-تصویر کی حرمت پر اجماع ہے تو اس اجماع میں کیمرہ,ٹی وی اور ویڈیو کی تصویر داخل ہے یا نہیں؟
3-حضرات ائمہ مجتہدین کے زمانے میں کیمرہ یا ٹی وی کا وجود نہیں تھا تو کیمرہ اور ٹی وی کی تصویر کی حرمت پر کن حضرات کا اجماع ہے؟ اس اجماع کی تفصیل کہاں مرقوم ہے؟
4-حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی اور اعلی حضرت علیہما الرحمۃ والرضوان دونوں نے اسماعیل دہلوی پر کفر فقہی کا فتوی دیا تو دونوں کے درمیان اختلاف کہاں ہے؟
بلا وجہ شور مچا کر اہل حق کو غلط فہمی میں مبتلا کرنا صحیح ہے یا غلط؟
بعض حضرات کا خیال تھا کہ کہ”من شک:الخ”کا اصول صرف کفر کلامی میں استعمال ہوتا ہے۔ہم نے حضرات ائمہ مجتہدین وائمہ محدثین علیہم الرحمۃ والرضوان کے اقوال اپنے مضامین میں نقل کئے۔ان اقوال میں کفر فقہی کے لئے "من شک:الخ”کا استعمال ہوا ہے۔
چوں کہ موجودہ طبقہ بندی کی بنیاد تبرا بازی پر ہے۔تبرا بازی شرعا ناجائز ہے۔نہ میں تبرا بازی کی تائید کرتا ہوں,نہ اس طبقہ بندی کی تائید کرتا ہوں جس کی عمارت تبرا بازی پر قائم ہو۔
از قلم: طارق انور مصباحی
جاری کردہ:18:اگست 2021