ایک حکیمانہ قول کی توضیح
از قلم:طارق انور مصباحی
مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما
کسی بھی قوم کے پیشوا و مقتدا کا فرض منصبی ہے کہ وہ اپنے متبعین کو غلط کاموں سے روکیں۔کبھی کسی غلط کام سے روکنے کے واسطے کچھ حکمت عملی بھی درکار ہوتی ہے۔
امام اہل سنت قدس سرہ العزیز کے فتاوی ورسائل کی روشنی میں حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمۃ والرضوان کی تحقیق میں یہی ثابت ہوا کہ ٹی وی کی تصویر حقیقت میں تصویر ہی ہے۔وہ آئینہ یا پانی کے عکس کی طرح عکس نہیں ہے۔آپ نے اسے تصویر ہی سمجھ کر ناجائز سمجھا۔
تحریک دعوت اسلامی کے ذمہ داروں نے دیگر علمائے اہل سنت کی تحقیق کی روشنی میں فروغ دین وسنیت کے لئے بوجہ حاجت شرعیہ ٹی وی کو جائز سمجھا اور مدنی چینل کی تشکیل کی۔
حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ نے اپنی تحقیق کی روشنی میں ٹی وی کو ناجائز سمجھا اور فرمایا کہ دعوت اسلامی مسلک اعلی حضرت کی مبلغ نہیں۔
آپ نے ہرگز کبھی یہ نہیں فرمایا کہ دعوت اسلامی کے منسلکین سنی نہیں,یا مسلک اہل سنت(مسلک اعلی حضرت) سے خارج ہیں,بلکہ آپ نے ان کو فاسق وفاجر بھی نہیں کہا۔
حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کی حیات مبارکہ ہی میں ہانگل شریف(کرناٹک)میں ہمارے احباب(مولانا احتشام الدین رضوی,مولانا خلیل احمد مقبولی وغیرہ)نے حضور محدث کبیر دام ظلہ الاقدس سے تفصیل طلب کی۔
حضرت استاذ گرامی دام ظلہ نے ارشاد فرمایا کہ ہم لوگوں نے کبھی بھی دعوت اسلامی کو اہل سنت سے خارج یا گمراہ نہیں کہا۔صرف اس سے پرہیز کی تلقین کی۔
درحقیقت جب ان نفوس عالیہ کی تحقیق میں ٹی وی کی تصویر بھی اعلی حضرت قدس سرہ العزیز کی تحریروں کی روشنی میں تصویر ہے اور تصویر ناجائز ہے تو اس اعتبار سے ان حضرات عالیہ نے یہ فرمایا کہ دعوت اسلامی مسلک اعلی حضرت کی مبلغ نہیں۔
یعنی بعض فقہی مسائل میں مسلک اعلی حضرت پر کاربند نہیں۔
اس قسم کے حکیمانہ جملے کسی کو احتیاط کی ترغیب دینے کے واسطے کہے جاتے ہیں۔اگر لوگ اس کا غلط مفہوم مراد لیں تو یہ ان کا قصور فہم ہے۔
ہاویری وہانگل شریف وغیرہ علاقوں میں بعض عوام نے دعوت اسلامی کو اہل سنت سے خارج سمجھ لیا تھا۔حضور محدث کبیر دام ظلہ الاقدس کی وضاحت کے بعد معاملہ واضح ہو گیا اور باہمی اختلافات بھی نرم ہو گئے۔
بھائیو! ابھی سائلین اور حضور محدث کبیر دام ظلہ الاقدس تمام حضرات باحیات ہیں۔ابھی تحقیق کر لو۔بعد میں قیل و قال نہ کرنا۔
یہ بھی یاد رکھیں کہ جو سنی صحیح العقیدہ حنفی ایک مشت داڑھی نہیں رکھتے,یا کسی غلط کام کے مرتکب ہوں,وہ بھی مسلک اعلی حضرت اور تعلیمات اعلی حضرت پر کاربند نہیں۔
اہل علم کو تعجب کی گنجائش نہیں۔حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی احادیث مقدسہ میں اس طرح کے الفاظ تہدید وتخویف کے لئے وارد ہوئے ہیں۔
من غش فلیس منا
اس قسم کی متعدد احادیث طیبہ میں ارشاد ہوا کہ جو فلاں کام(گناہ کے کام)کرے,وہ ہم میں سے نہیں۔ان احادیث طیبہ کا یہ مفہوم ہرگز نہیں کہ وہ شخص مسلمان نہیں,بلکہ مفہوم یہ ہے کہ وہ ہمارے طریق کار پر نہیں۔تعلیمات نبویہ پر کار بند اور ارشادات مصطفویہ کا پابند نہیں۔امید کہ بات واضح ہو گئی۔
از قلم:طارق انور مصباحی
جاری کردہ:24:مئی 2021