صحيح بخاری و مسلم میں موازنہ
شہباز احمد مصباحی
کتب حدیث میں صحیح بخاری اور صحیح مسلم کو جو مقام و مرتبہ حاصل ہے وہ محتاج بیان نہیں۔ ان دونوں کے حق میں علمائے امت کا تلقی بالقبول، ان کی عظمت و شان کی روشن دلیل ہے۔ یہی وہ دونوں کتب ہیں جنھیں صحیح مجرد کی تصنیف کے باب میں اولیت کا شرف حاصل ہے ۔ مگر ان میں صحیح بخاری باعتبار صحت و قوت صحيح مسلم بلکہ جملہ کتب حدیث پر فائق ہے۔ جیسا کہ یہ مقولہ مشہور بھی ہے : ” أصحّ الکتب بعد كتاب اللّٰہ الصحیح البخاری“ یعنی قرآن مجید کے بعد سب سے صحیح ترین کتاب” صحیح بخاری “ہے ۔ البتہ شیخِ امام حاکم، حافظ ابوعلی نیشاپوری اور بعض شیوخ مغاربہ نے حسن بیان اور جودت ترتیب وغیرہ خوبیوں کی بنیاد پر صحیح مسلم کو فوقیت دی ہے جب کہ بعض علمائے محدثین دونوں کو ایک ہی درجہ میں رکھتے ہیں ۔ لیکن علمائے جمہور کے نزدیک قول اول ہی اصح ہے۔ ہم سب سے پہلے صحيح مسلم، اس کے بعد صحیح بخاری کی فوقیت و اصحیت کے اسباب و وجوہات” تدریب الروای فی شرح تقریب النواوی“ [مؤلف: خاتم الحفاظ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ] کی روشنی میں بیان کریں گے۔
صحيح مسلم کی افضلیت کے دلائل:
حافظ ابن صلاح رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ شیخِ حاکم، حافظ ابوعلي نیشاپوری نے فرمایا: ” ماتحت ادیم السماء کتاب اصح من کتاب مسلم “ آسمان کے نیچے امام مسلم کی کتاب سے اصح کوئی کتاب نہیں ہے ۔ یہ اور ان شیوخ مغاربہ کا قول جنھوں نے امام مسلم کی کتاب کو امام بخاری کی کتاب پر ترجیح دی ہے، ممکن ہے کہ ان کے پیش نظر اس کے دو وجوہات ہوں:
اول: مسلم شریف کو ترجیح حاصل ہے اس بنیاد پر کہ اس میں غیر صحیح احادیث کی آمیزش نہیں ہے،کیوں کہ خطبہ کے بعد صرف صحیح احادیث ہی ہیں جو ایک ترتیب سے پیش کی گئی ہیں، جیسا کہ امام بخاری کی کتاب میں ہے، تب تو مان لینے میں حرج نہیں ہے ۔ مگر یاد رکھیں! اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ مسلم شریف نفس صحت میں بخاری شریف سے زیادہ راجح ہے ۔
دوم: اور اگر یہ مراد یہ ہوکہ امام مسلم کی کتاب صحت کے اعتبار سے اصح ہے، یہ لائق تسلیم نہیں، اس لیے کہ جمہور علما و محدثین نے بخاری شریف کو” أصحّ الکتب بعد كتاب اللّٰہ “ کہا ہے ۔
شیخ الاسلام، امام ابن حجر عسقلانی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: حافظ ابوعلي نیشاپوری کی عبارت اس بات کی متقاضی نہیں ہے کہ امام مسلم رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی کتاب امام بخاری رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی کتاب سے اصح ہے، اس سے صحیح بخاری کی تقدیم کی تو نفی ہوتی ہے، مگر صحیح مسلم کا بخاری شریف پر فائق ہونا ثابت نہیں ہوتا ، ہاں، تساوی کا احتمال ضرور ہے۔ جیسا کہ حدیث پاک میں ہے” مَا أَظَلَّتِ الْخَضْرَاءُ ، وَلَا أَقَلَّتِ الْغَبْرَاءُ أَصْدَقَ مِنْ أَبِي ذَرٍّ “ ( ترمذی، ج:۵، ص: ۴۴۰، رقم الحدیث :۳۸۲۷، مطبع: دارالفکر للطباعۃ والنشر والتوزیع) یعنی: آسمان نے سایہ نہ کیا اور نہ ہی زمین نے کسی ایسے شخص کا بوجھ اٹھایا جو حضرت ابوذر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے زیادہ سچا ہو ۔
اس حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالٰی عنہ تمام صحابۂ کرام یہاں تک کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے زیادہ سچے ہیں ، یہ واقع کے خلاف ہے۔ بلکہ اس میں نفی ہے کہ کوئی ان سے اصدق ہو اور اثبات ہے کہ اس وصف میں دوسرے لوگ ان کے برابر ہوسکتے ہیں۔
امام احمد بن حنبل رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا قول ہے : ما بالبصرۃ أثبت من بشر بن المفضل ۔ بصرہ میں بشر بن مفضل سے اثبت کوئی نہیں ہے ۔
اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بصرہ میں حضرت بشر بن مفضل سے زیادہ کوئی اثبت نہیں ہے، البتہ ان کی مثل ہوسکتے ہیں ۔
حافظ ابوعلي نیشاپوری کے کلام میں دونوں معنوں کا احتمال موجود ہے، خواہ وہ پہلا معنیٰ مراد لیں یا دوسرا، بہرحال وہ اپنے قول میں تنہا ہیں اور اس کو قبول کرنے میں نظر ہے ۔
بعض شیوخ مغاربہ سے مسلم کو ترجیح دینے کے سلسلے میں قول تو ہے مگر یہ بات محفوظ نہیں ہے کہ کسی نے بھی افضلیت کا قول اصحیت کے اعتبار سے کیا ہے ۔
مسلم شریف کی چند خصوصیات:
شیخ الاسلام، امام ابن حجر عسقلانی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: امام ابوعلي نیشاپوری کے کلام سے جو مجھ پر ظاہر ہوتا ہے وہ یہ کہ انھوں راجح ہونے کا قول صحت کے سوا دوسری خوبیوں کی بنا پر کیا ہے: جو درج ذیل ہیں:
(۱) امام مسلم رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے صحیح مسلم کو اپنے اصول اور اساتذہ کی زندگی اور ان کی موجودگی، بلکہ انہی کے شہر میں تصنیف کیا ہے ۔
(۲) آپ حدیث لکھتے وقت، الفاظ حدیث پر خوب توجہ رکھتے تھے ۔ جب کہ امام بخاری رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کبھی کبھی حدیث نقل کرتے وقت اپنی یادداشت پر بھروسا کرتے تھے، کبھی حدیث کے الفاظ میں تمییز نہیں ہوپاتی تھی، اس وجہ سے کہ کبھی آپ کو شک بھی عارض ہوتا ۔ آپ کے بارے میں صحیح طور پر منقول ہے: خود فرماتے ہیں کہ کبھی کبھی میں کوئی حدیث بصرہ میں سنتا ہوں تو اسے شام میں لکھتا ہوں ۔
(۳) سیدنا امام نووی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ صحیح مسلم میں ایک ہی جگہ پر مصنف نے حدیث کے تمام طرق جمع کردیے ہیں، جس کی وجہ سے حدیث پڑھنے اور سمجھنے میں آسانی ہے ۔
(۴) علامہ ابن حجر عسقلانی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ اسی حسن ترتیب ہی کی بنا پر بہت سے مغاربہ نقل متون میں مسلم شریف پر اعتماد کرتے ہیں نہ کہ بخاری پر، اس لیے کہ امام بخاری نے حدیث کو مختلف ابواب میں ذکر کیا ہے ۔
اب ہم صحیح بخاری کی اصحیت کے وجوہات ذکر کرتے ہیں، اس سے پہلے حدیث صحیح کی تعریف ذکر کرتے ہیں، تاکہ نظر میں رہے کہ حدیث کے صحیح ہونے کی شرائط کیا ہیں؟ اور آپ پر روشن ہوجائے کہ صحیح بخاری کی احادیث میں اصحیت کے اسباب، صحیح مسلم سے بڑھ کر ہیں ۔
حدیث صحيح کی تعریف:
الحَدیثُ المُسْنَدُ الّذِیْ یَتّصِلُ اسنادُہ بنقلِ العدلِ الضابطِ عنِ العدلِ الضابطِ الٰی منتہاہ ولا یکونُ شاذًا ولاَ مُعلَّلاً .
یعنی: صحیح وہ حدیث مسند ہے جس کی سند متصل ہو، شروع سے آخر تک عادل و ضابط نے عادل و ضابط سے نقل کیا ہو اور شاذ اور منکر نہ ہو۔(مقدمہ ابن الصلاح، ص:۱۵،مؤسسۃ الرسالة الناشرون)
وجہ ترجیح باعتبار اوصاف صحت:
❶ وجہ اول: امام بخاری رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ جن سے تخریج کرنے میں تنہا ہیں اور امام مسلم رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے تخریج نہیں کی ہے ان کی تعداد ۴۳۳ سے کچھ زائد ہے، ان میں ضعف کے سبب متکلم فیہ رجال ۸۰ ہیں، جب کہ تنہا امام مسلم رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے رجال ۶۲۰ ہیں، ان میں ضعف کی وجہ سے جن پر کلام کیا گیا ہے وہ ۱۶۰ ہیں ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جس کے بارے میں بالکل کلام نہ کیا گیا ہو، اس سے تخریج کرنا، اس شخص سے تخریج کرنے سے بہتر ہے جس کے بارے میں کلام کیا گیا ہے ۔
❷ وجہ ثانی : امام بخاری رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے جن رجال پر کلام کیا گیا ہے ان سے آپ نے بکثرت تخریج نہیں کی ہے اور ان متکلم فیہ رجال کا کوئی ایسا نسخہ نہیں ہے جس کی کل یا اکثر حدیثوں کی آپ نے تخریج کی ہو ۔ جب کہ امام مسلم رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ان کے نسخوں کی اکثر حدیثیں تخریج کردی ہیں ۔ جیسے: نسخۃ ابی الزبير عن جابر، وسھیل عن ابیہ، والعلاء بن عبد الرحمن عن ابیہ، وحماد بن سلمہ عن ثابت، وغیرہ ۔
❸ وجہ ثالث : امام بخاری رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ جن متکلم فیہ سے روایت کرنے میں منفرد ہیں، ان میں سے اکثر ان کے شیوخ ہیں جن سے آپ نے ملاقات کی اور ان کی صحبت میں رہے، ان کے احوال و کوائف کو جانا، ان کی روایت کردہ احادیث پر مطلع ہونے کے ساتھ صحیح و غیر صحيح روایتوں میں فرق جانا ۔ جب کہ امام مسلم رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے جن متکلم فیہ کی حدیث کی تخریج میں منفرد ہیں ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جن کا زمانہ ان سے پہلے کا ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ محدث اپنے زمانے کے شیوخ کی حدیث کو صحت و ضعف کے اعتبار سے زیادہ جانتا ہے ۔
❹ وجہ رابع : امام بخاری رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اولاً طبقۂ اولیٰ سے حدیث تخریج کرتے ہیں جو حفظ و اتقان میں اعلیٰ درجے پر فائز ہیں، پھر اس طبقہ سے جو تثبت اور اپنے شیخ کے ساتھ طول مجالست میں ان کے بعد ہیں، جب کہ امام مسلم رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس طبقہ (ثانیہ) سے اصول کے اعتبار سے تخریج کرتے ہیں، جیسا کہ امام حازمی نے اس کی وضاحت کی ہے ۔
❺ وجہ خامس: امام مسلم رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے نزدیک عنعنہ کو حکم اتصال حاصل ہے جب کہ زمانہ ایک ہو، اگرچہ راوی اور مروی عنہ کے درمیان لقا ثابت نہ ہو ۔مگر امام بخاری رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ محض معاصرت کی بنیاد پر اس کو ثابت نہیں مانتے ہیں ۔
❻ وجہ سادس : صحيح بخاری و مسلم کی کل ۲۱۰ حدیثوں پر کلام کیا گیا ہے، ان میں سے صحیح بخاری کی حدیث ۸۰ سے کم ہے، جب کہ بقیہ حدیثیں صحيح مسلم کی ہیں ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جس کتاب کی احادیث پر کم تنقید ہوئی ہے وہ راجح ہوگی اس پر جس پر زیادہ تنقید ہوئی ہے ۔
▪️صحيح بخاری کی اسانید کا اتصال، اسانید مسلم کی اتصال سے زیادہ قوی ہے ۔
▪️صحيح بخاری کے فوائد صحیح مسلم کے فوائد سے بڑھ کر ہیں ۔
▪️صحیح بخاری میں مسائل فقہیہ کا استنباط، حکمت بھرے نکات بکثرت ہیں ۔
وجہ ترجیح باعتبار شخصیت:
ان اوصافِ صحت کے اعتبار سے صحیح بخاری کی مسلم پر ترجیح کے علاوہ اگر دونوں کے مابین شخصی تقابل کیا جائے تو علما کا اس بات پر اتفاق ملے گا کہ امام بخاری رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ بزرگی اور علم میں امام مسلم رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے بڑھ کر ہیں ۔
امام نووی شافعی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے شرح بخاری میں فرمایا: ایک خاص بات جس کی بنیاد پر امام بخاری رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی کتاب کو ترجیح حاصل ہے وہ یہ کہ علما کا اس بات پر اتفاق ہے کہ امام بخاری امام مسلم سے اجل، حدیث شناسی اور اس کے دقائق کی معرفت میں امام مسلم سے بہتر ہیں ۔
شیخ الاسلام امام ابن حجر عسقلانی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ امام بخاری، امام مسلم سے علوم میں اجل اور فن حدیث میں زیادہ ماہر ہیں اور امام مسلم ان کے شاگرد اور فیض یافتہ ہیں۔ آپ ہمیشہ امام بخاری سے استفادہ کرتے رہے اور انہی کے طریقۂ کار کی اتباع کرتے رہے یہاں تک کہ امام دارقطنی نے فرمایا: اگر امام بخاری نہ ہوتے تو امام مسلم کی یہ شان نہ ہوتی ۔
بخاری شریف دافع البلا ہے:
صحيح مسلم کی حسن ترتیب کے مقابلے میں بخاری شریف کی ایک اہم فضیلت جسے امام ابومحمد بن ابی جمرہ نے علما و محدثین سے نقل کیا ہے: امام بخاری رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی کتاب کو حوائج و مہمات، حصول مراد، قضائے حاجات و دفع بلیات اور کشف کربات میں پڑھی جائے تو مرادوں کے بر آنے میں تریاق مجرب ثابت ہوگی اور اگر اسے لے کر کوئی جہاز میں سوار ہو جائے تو ڈوبنے سے محفوظ رہے گا ۔( پورا مضمون” تدریب الروای فی شرح تقریب النواوی ،ص:۶۴ تا ۶۷، دارالکتب العلمیہ بیروت“ سے ماخوذ ہے)
روز روشن کی طرح یہ بات عیاں ہوگئی ہوگی کہ بخاری شریف کو مسلم شریف پر باعتبار صحت فضلیت و فوقیت حاصل ہے اور یہی” اصح الکتب بعد کتاب اللہ“ ہے ۔ اللہ پاک ہمیں دونوں کتابوں کے فیوض و برکات سے وافر حصہ عطا فرمائے۔ آمین، بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم
شہباز احمد مصباحی(اَرْوَل)
جامعۃ المدینہ،پڑاؤ (بنارس)
۸ مارچ، بروز منگل،۲۰۲