زباں سےکہہ بھی دیا’لااِلہ‘تو کیاحاصل
ازقلم : محمد ہاشم اعظمی مصباحی
مکرمی : ہر مسلمان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی محبت کا دعویٰ کرتا ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا دل میں آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اس طرح راسخ ہے جس طرح کی محبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہر امتی سے چاہتے ہیں؟ حدیث شریف میں ہے ’’اس وقت تک تمہارا ایمان مکمل نہیں ہو جاتا جب تک کہ میں تمہیں تمہارے والدین‘ تمہاری اولاد اور تمام دنیا سے زیادہ پیارا نہ ہو جاؤں‘‘
ہر مسلمان یہی جواب دیگا کہ ہاں مجھے اپنے نبی سے ایسی ہی محبت ہے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ امت کا طرزعمل اس محبت کے منافی نظر آتا ہے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کس قدر سادہ اور پاکیزہ تھی ہم اپنی دنیا چمکانے اور اپنے مکانوں‘ دکانوں کو روشن کرنے کے لئے بے تحاشا لائٹنگ کرتے ہیں ہزاروں بلب لگاتے ہیں اور برقی قمقموں سے سجاتے ہیں تا کہ ہماری گھر مکان روشنی میں نہا جائے
لیکن کیا ہم نے کبھی اپنے دل میں بھی جھانکا کہ وہاں کتنا اندھیرا ہے اور وہاں کیسے روشنی کی جا سکتی ہے۔ وہ روشنی جو ہمیں صحیح اور غلط کی پہچان کروا دے وہ روشنی جو ہمیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی صحیح معنوں میں اطاعت سکھا دے دل کے نہاں خانے میں کوئی ایک بلب ایسا بھی تو روشن کرنا چاہئے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے کا حق ادا کر سکے محض زبان سے کلمہ پڑھ لینے اسلامی نام رکھ لینے اور معاشرت کے چند مخصوص اطوار اختیار کرنے اور چند گنی چنی رسومات کو ادا کر لینے سے ہمارا ایمان کبھی مکمل نہیں ہو سکتا
جب تک کہ کلمہ کی حقیقت ہمارے قلب و روح میں جاگزیں نہ ہو جائے اور ساری زندگی اسی کلمہ طیبہ کے معنی میں ڈھل نہ جائیں ایمان کا تقاضا تو یہ ہے کہ رگ رگ میں تقویٰ یوں سرایت کر جائے کہ اللہ کے سوا کسی کا خوف دل میں نہ رہے اور رسولؐاللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی ہمارا آئیڈیل نہ رہے صرف زبانی کلمہ سے اسلام کے تقاضے پورے نہیں ہوتے نہ ہی ایمان کی حلاوت ملتی ہے ایک طوطے کو بھی جب رٹوادیا جائے تو اس کی بھی زبان پر کلمہ جاری ہوجاتا لیکن اس کو کلمہ کی حلاوت نہیں ملتی اس لئے کہ وہ اس کے تقاضوں سے نابلد ہے
آج یہی حال ہمارا بھی ہوگیا ہے ہم بھی رٹو طوطا کی طرح ہوگئے ہیں آئیے ایک سبق آموز واقعہ کے ذریعہ بات کو مزید واضح کردوں کہ ایک استاد اپنے شاگردوں کو عقیدہ توحید کی تعلیم دے رہے تھے۔ انہیں کلمہ "لا الہ الا اللہ” کا مفہوم اور اس کے تقاضے سمجھا رہے تھے۔ ایک دن ایک شاگرد اپنے استاد کے لیے ایک خوبصورت طوطا بطور تحفہ لے کر حاضر ہوا۔ استاذ کو پرندے اور بلی پالنے کا بڑا شوق تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ استاد کو اس طوطے سے بھی بڑی محبت ہوگئی۔
چنانچہ وہ اس طوطے کو اپنے درس میں بھی لے جانے لگے یہاں تک کہ طوطا بھی "لا الہ الا اللہ” بولنا سیکھ گیا۔ پھر کیا تھا طوطا دن رات لا الہ اللہ اللہ بولتا رہتا تھا۔ایک روز شاگردوں نے دیکھا کہ ان کے استاذ پھوٹ پھوٹ کر رو رہے ہیں وجہ دریافت کی گئی تو استاذ فرمانے لگے: افسوس! "میرا طوطا آج مر گیا” شاگردوں نے کہا: آپ اس کے لیے اتنا کیوں رو رہے ہیں؟ اگر آپ چاہیں تو ہم دوسرا اس سے خوبصورت طوطا آپ کو لا دیتے ہیں۔
استاذ نے جواب دیا: میرے رونے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ طوطا مرگیا بلکہ میں اس لئے رو رہا ہوں کہ جب بلی نے طوطے پر حملہ کیا تو اس وقت طوطا زور زور سے چلائے جا رہا تھا یہاں تک کہ وہ مرگیا۔ حالانکہ وہی طوطا اس سے پہلے لاالہ الا اللہ کی رٹ لگائے رہتا تھا۔ مگر جب بلی نے اس پر حملہ کیا تو سوائے چیخنے اور چلانے کے کچھ اور اس کی زبان سے نہیں نکلا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ "لا الہ الا اللہ” دل سے نہیں صرف زبان سے کہتا تھا
آگے استاد فرماتے ہیں: مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں ہمارا حال بھی اس طوطے کے جیسا نہ ہو یعنی ہم زندگی بھر صرف زبان سے لا الہ الا اللہ کہتے رہیں اور موت کے وقت اسے بھول جائیں۔ اس لیے کہ ہمارے دل اس کلمے کی حقیقت اور اس کے تقاضے سے ناآشنا ہیں۔ یہ سننا تھا کہ سارے طلباء بھی پھوٹ پھوٹ رونے لگے۔
سوچئے! کیا ہم نے کبھی لا الہ الا اللہ کی حقیقت کو دل سے جاننے اور سمجھنے کی کوشش کیا؟ کیا کبھی ہمیں لاالہ الا اللہ کا تقاضا پورا کرنے کی توفیق ہوئی؟ یاد رکھئے! آسمان پر جانے والی سب سے بڑی چیز اخلاص اور زمین پر اترنے والی سب سے بڑی چیز توفیق ہے۔ جس بندے کے اندر جتنا اخلاص ہوگا اسی کے بقدر اسے توفیق حاصل ہوگی اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے قول و عمل میں اخلاص کی توفیق عطا فرما۔ علامہ اقبال کہتے ہیں :
خِرد نے کہہ بھی دیا ’لااِلہ‘ تو کیا حاصل
دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
ازقلم : محمد ہاشم اعظمی مصباحی
نوادہ مبارکپور اعظم گڈھ یو پی