والدین کا مقام و مرتبہ
کالم نگار: محمد ندیم عطاری
کوئی شخص ساری زندگی اپنے والدین کی خدمت کرکے ان احسانات کا بدلہ دینا چاہے تب بھی وہ والدین کا حق ادا نہیں کرسکتا۔
بلاشبہ والدین ہی کائنات میں ایسی عظیم ہستی ہیں کہ جن کے اولاد پر بے شمار احسانات ہیں۔ اگر کوئی شخص ساری زندگی اپنے والدین کی خدمت کرکے ان احسانات کا بدلہ دینا چاہے تب بھی وہ والدین کا حق ادا نہیں کرسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں جہاں اﷲ نے اپنی عبادت کا حکم دیا تو والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کی تاکید بھی فرمائی ہے۔
ارشاد ربانی ہے:
’’اور آپ کے رب نے حکم دیا کہ اس کی ہی عبادت کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ‘‘ (سورۃ بنی اسرائیل)
جس طرح اﷲ رب العزت کو تمام جہانوں کا مالک مان کر اس کی عبادت اور حکم کی تابعداری ضروری ہے اسی طرح والدین کے ساتھ حسن سلوک اور عزت و احترام سے پیش آنا بھی ضروری ہے۔
محسن انسانیت ﷺ نے والدین کی عظمت و اہمیت کو احادیث مبارکہ میں بیان کیا ہے۔
چناںچہ والدین کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے سرور دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
’’جو نیک اولاد اپنے والدین کو محبت کی نگاہ سے دیکھے تو اﷲ پاک ہر نظر محبت پر اس کے لیے ایک مقبول حج کا ثواب لکھ دیتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہؓ نے عرض کیا کہ ’’اگر یہ شخص سو مرتبہ بھی نظر محبت سے دیکھے تو کیا تب بھی اتنا ثواب ملے گا؟
اس پر رحمۃ للعالمین ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’اﷲ تعالیٰ تمہاری نظر محبت سے دیکھنے سے زیادہ شان رحمت رکھتا ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح باب البر والصلوٰۃ)
قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے۔
’’جب تمہارے ماں باپ میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو ’’اُ ف‘‘ تک مت کہو (سورۃ بنی اسرائیل)
اس آیت مبارکہ میں والدین کے ساتھ خصوصاً اس وقت حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے
جب وہ بڑھاپے کو پہنچ جائیں کیوں کہ اس عمر میں انسان عموماً چڑچڑا ہوجاتا ہے
اور اس کی طبیعت میں بے قراری و بے چینی پیدا ہوجاتی ہے۔ لہٰذا والدین کو اس کیفیت میں اولاد کی طرف سے اچھے رویے کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے
یہ بات بھی مشاہدے سے ثابت ہے کہ جو شخص والدین پر خرچ کرتا ہے
اﷲ تعالیٰ اس کے رزق میں مزید وسعت و برکت پیدا فرما دیتے ہیں۔ خصوصاً
ایسے حالات میں بقدر استطاعت ضرور خرچ کرنا چاہیے اور ان کے نان و نفقے کا ضرور خیال رکھنا چاہیے کیوں کہ
حدیث مبارکہ میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا
’’تمہیں اپنے ضعفاء کی وجہ سے رزق دیا جاتا ہے اور تمہارے ضعفاء کی وجہ سے تمہاری مدد کی جاتی ہے۔ (ترمذی شریف)
قرآن کریم اور احادیث مبارکہ سے یہ بات واضح ہوگئی کہ
والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا اور ان کا ادب و احترام ہر صورت میں ضروری ہے اور ان کے ساتھ بدسلوکی اور بدتمیزی کی کسی حال میں اجازت نہیں۔ بعض گناہ ایسے ہیں جن کا عذاب حکم الٰہی سے آخرت تک موخر کردیا جاتا ہے لیکن والدین کے ساتھ بدسلوکی کرنا اور بدتمیزی سے پیش آنا ایسا سنگین گناہ ہے جس کا عذاب اﷲ تعالیٰ کے حکم سے دنیا ہی میں دیا جاتا ہے
اور جب تک انسان اپنے اس سنگین جرم کی سزا نہ بھگت لے اس کو موت بھی نہیں آتی۔ احادیث مبارکہ میں اس سنگین گناہ کی مذمت کو بیان کیا گیا ہے ’’گناہوں میں سے اﷲ تعالیٰ جن گناہوں کو چاہے گا بخش دے گا لیکن والدین کی ایذا رسانی اور نافرمانی کو معاف نہیں کرے گا۔ بلکہ مرنے سے پہلے اس شخص پر اس کا عذاب نازل کرے گا۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
والدین کا نافرمان اور ان کے لیے تکالیف اور ایذا کا سبب بننے والا شخص چین سے زندگی نہیں گزار سکتا ہے بلکہ کسی نہ کسی مصیبت و پریشانی میں گرفتار رہتا ہے۔
اس نعمت کا تقاضا یہ ہے کہ ان کی قدر کی جائے اور ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آیا جائے