یوم جمہوریہ (26 جنوری) اور مسلمانان ہند

یوم جمہوریہ (26 جنوری) اور مسلمانان ہند

Table of Contents

یوم جمہوریہ (26 جنوری) اور مسلمانان ہند

تحریر : محمد جسیم اکرم مرکزی
فاضل جامعۃ الرضا بریلی شری
رابطہ نمبر : 9523788434

اللہ و حدہ لا شریک له نے ابو البشر حضرت آدام علیہ السلام کو جنت الفردوس سے سر زمیں ہند کی لالہ زار وادی میں اتار کر ہند کو تجلیات انوار الہی کا گہوارہ بنا دیا یہ وہی ہند ہے جہاں سے سب سے پہلے "اللہ اکبر” کی صدائے دلنواز بلند ہوئی اور اکناف عالم کو وحدت الوجود کی شناسائی ہوئی
اسی لیے ڈاکٹر اقبال نے کہا :
ٹُوٹے تھے جو ستارے فارس کے آسماں سے
پھر تاب دے کے جس نے چمکائے کہکشاں سے
وحدت کی لَے سُنی تھی دنیا نے جس مکاں سے
میرِ عربؐ کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے
بندے کلیم جس کے، پربت جہاں کے سِینا
نوحِؑ نبی کا آ کر ٹھہرا جہاں سفینا
رفعت ہے جس زمیں کی بام فلک کا زینا
جنّت کی زندگی ہے جس کی فضا میں جینا
میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے

ہند میں اسلام

اگر یہ کہا جائے اسلام سب سے پہلے ہند میں آیا تو یہ غلط نہیں ہوگا کیونکہ سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام ہند میں تشریف لائے ہیں
نیز سید البشر حضور پرنور سرکار مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے بعد بھی دیکھا جائے تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سے مسلمانوں کا تجارتی تعلقات رہے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت عظمی پر سلطان الہند عطائے رسولﷺ حضرت خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی حسن سنجری ثم اجمیری رضی اللہ عنہ ہند تشریف لائے اور اسلام کی نشر و اشاعت کی اگر چہ سلطان الہند کے ورود مسعود سے پہلے بھی ہند میں اسلام کی شمع فروزاں ہو چکی تھی لیکن سلطان الہند کی آمد سے ہزاروں لاکھوں غیر مسلموں کے دلوں میں بھی اسلام کی شمعیں روشن ہوئیں

ہند میں مسلمانوں کی گیارہ سو سالہ حکومت

عرصۂ دراز تک ہند میں مسلمانوں کی حکومت رہی ہے جس میں شہاب الدین غوری کی حکومت شاہان خلیجی کی حکومت، غزنوی حکومت، شاہان تغلق کی حکومت، مغلیہ حکومت قابل ذکر ہیں یہ حکومتیں تقریبا گیارہ سو سال کے عرصے پر محیط ہیں جن ادوار میں ہر قوم کے لوگوں کو برابری کا حصہ دیا گیا
آج جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ مسلمانوں نے غیر مسلموں پر ظلم کیا غیروں کی عبادت گاہوں کو توڑ کر مسجدیں بنوائیں تو انھیں سوچنا چاہیے کہ اگر مسلمان ایسا کرتے تو کیا ہند میں اس گیارہ سو سالہ دور حکومت میں ایک بھی بت خانہ، کلیسا ، مندر کا نام و نشان باقی رہتا ہر گز نہیں لیکن یہ مسلمانوں کی کرم فرمائی ہے کہ آج ہر مذہب کے لوگ ہند میں کھلی فضاؤں میں اپنی سانسیں لے رہے ہیں

انگریزوں کی حکومت

مغلیہ حکومت کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے بعد ہند میں انگریزوں نے قبضہ جما لیا پھر 1875ء سے 1947ء تک جنگ جاری رہی بالآخر مسلمانوں نے اور دیگر اقوام نے مل کر ہند کو انگریزوں کے چنگل سے 1947 میں چھڑا لیا لیکن جنگ میں لاکھوں علما شہید ہوئے ایک رپورٹ کے مطابق دہلی سے آگرہ تک کوئی ایسا درخت نہیں تھا جس پر علما کے سر نہ لٹکتے ہوں دہلی لال قلعہ میں ہزاروں علما کو نذر آتش کر دیا گیا لیکن کسی ایک عالم دین نے بھی جہاد کے فتوے سے رجوع نہیں کیا بلکہ دنیا کو بتا دیا

مرد حق باطل کے آگے مات کھا سکتا نہیں
سر کٹا سکتا ہے لیکن سر جھکا سکتا نہیں

26 جنوری کیوں منایا جاتا ہے

1947ء میں ہندوستان کی آزادی کے بعد سب سے اہم مسئلہ آئین ہند کی تشکیل کا تھا تاکہ اس آئین کے تحت تمام اقوام کے افراد اپنی زندگی ہشاش بشاش خوشحال ماحول میں گزار سکیں آئین کی تشکیل کے لیے سات افراد پر مشتمل ایک تنظیم کی تشکیل دی گئی جس میں محمد سعد اللہ صاحب بھی تھے اور صدر ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر تھے 29 اگست 1947 کو سات رکنی کمیٹی کا موجودہ قانون مرتب کرنے میں 2 سال 11 / ماہ اور 18 دن لگے ، دستور ساز اسمبلی کے مختلف اجلاس میں اس دستور کی ہر شق پر کھلی بحث ہوئی پھر 26 نومبر 1949 کو اسے قبول کر لیا گیا اور 24 جنوری 1950 کو ایک مختصر اجلاس میں تمام ارکان نے نئے دستور پر دستخط کر دیا
البتہ مولانا حسرت موہانی نے مخالفت کرتے ہوے دستور کے ڈرافٹ پر ایک نوٹ لکھا کہ یہ دستور برطانوی دستور کا ہی اجراء اور تو سیع ہے جس سے آزاد ہندوستانیوں اور آزاد ھند کا مقصد پورا نہیں ہوتا ”
بہر حال 26 جنوری 1950 کو اس نئے قانون کو لاگو (نافذ) کر کے پہلا یوم جمہوریہ منایا گیا ، اسطرح ہر سال 26 جنوری / یوم جمہوریہ منایا جانے لگا

کیا یہ واقعی یوم جمہوریہ ہے؟

یوم جمہوریہ اسے کہنا اس وقت بجا ہوگا جب آئین پر عمل کیا جائے لیکن روز بروز دیکھا جا رہا ہے کہ آئین کی گردن پر تلوار چلا کر اپنا نیا قانون نافذ کرنے پر حکومت ایڑی چوٹی کا زور لگائی ہوئی ہے مثلا تین طلاق، برقعہ/ حجاب، اذان مساجد مدارس پر غیر شرعی قوانین لاگو کرنا حتی کہ بابری مسجد کو شر پسندوں نے 6 دسمبر 1992ء کو شہید کر دیا اور حکومت نے 9 نومبر 2019ء بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کا حتمی فیصلہ سنا دیا جس سے قلب ہندستان سمیت پوری دنیا ماتم کدہ بن گئی سوائے حضرت انسان کے مگر وہ جن کے دلوں میں ایمان ہے

اس لیے تاریک ہندی بوستان و باغ ہے
رام مندر قلب ہندوستان پر اک داغ ہے

بابری مسجد کی بازیابی اور جمہوری حکومت پر قائد ملت رئیس القلم علامہ ارشد القادری کی تحریر ملاحظہ فرمائیں جو ماہنامہ حجاز جدید دہلی میں چھپی ہے

بابری مسجد کی بازیابی کی جد و جہد

بابری مسجد کا قصہ خوں ناب سننے کے بعد کون کہہ سکتا ہے کہ یہاں جمہوری حکومت ہے اور حکومت کی بنیاد انصاف اور مساوات پر ہے۔ سوچا نہیں جا سکتا کہ کسی ملک کی عدلیہ اور انتظامیہ امن وانصاف کے خلاف ایسا زبردست ڈرامہ اسٹیج کر سکتی ہے۔ لوگ ہم سے پوچھتے ہیں کہ اب کیا ہو گا کیوں کہ سوال اب صرف ایک مسجد کا نہیں ہے بلکہ اس اعتماد کا ہے جو اجتماعی زندگی کی ضمانت ہے۔ جب محافظ ہی قاتلوں کی کمان سنبھال لیں اب جان کی حفاظت کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے۔ مصائب و مشکلات کی تاریکیوں میں اب سوائے اس کے ہمارے پاس کوئی چارہ کار نہیں رہ گیا ہے کہ ہم ضمیر کے تہ خانے میں رہنے والی ایمانی قوت کو جگائیں اور رات کی تاریکیوں میں اس خدائے جبار و قہار کے آگے پھوٹ پھوٹ کر روئیں جس نے ہاتھیوں کے سیاہ لشکر کو ناچیز پرندوں کے ذریعہ آن واحد میں ہلاک کر دیا۔ جس نے خانۂ کعبہ کی چھت پر اُڑنے والے پرندوں سے وہ کام لے لیا جو کام آج عذاب نازل کرنے والے بمبار طیاروں سے لیا جاتا ہے۔ انتظار کیجئے غیرت الہی جس دن حرکت میں آگئی اس دن سارے اصنام منہ کے بل گر جائیں گے۔
اسی کے ساتھ یہ حقیقت بھی ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ دنیا عالم اسباب ہے. یہاں ہر کوشش کے ساتھ نتیجہ کا ربط اور ہر نتیجے کے پیچھے کوشش کا تعلق فطرت کا ایک جانا پہچانا قانون ہے۔ اس لئے ہمیں پوری ہوش مندی کے ساتھ بابری مسجد کی بازیابی کی جد و جہد کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیے۔ مسلم پرسنل لا کی لڑائی جس والہانہ جذبے کے ساتھ ہم نے سر کی ہے اخلاص اور اعتماد علی اللہ کی قوتیں اسی طرح اگر شامل حال رہیں تو اس جنگ میں بھی ہمیں کامیابی نصیب ہوگی۔
لیکن قدم قدم پر یہ نکتہ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ مسلم پرسنل لا کی لڑائی ملک کے کسی فرقہ کے خلاف نہیں تھی بلکہ سرتا سرحکومت کے خلاف تھی۔ سیوان سے لے کر دہلی تک ہماری سرفروشیوں کی ساری کہانی اس حقیقت کے گرد گھومتی ہے ۔ لیکن بابری مسجد کا قضیہ حکومت سے بھی تعلق رکھتا ہے اور ملک کی اکثریت سے بھی۔ اس لیے عقل اور سلامت روی کا تقاضہ یہی ہے کہ ہماری تحریک میں کسی گوشہ سے بھی فرقہ وارانہ اشتعال کو پنپنے کا موقع نہیں ملنا چاہئے۔ زمانہ کی اس بوالعجی کو کیا کہا جائے گا کہ اینٹ اور پتھر کی جو عمارت ساڑھے چار سو سال تک مسجد کی حیثیت سے ہمارے استعمال میں رہی اب اس کو مسجد ثابت کرنے کے لئے ہمیں الہ آباد ہائی کورٹ جانا پڑ رہا ہے۔ کاش اجودھیا کے بتوں کو بولنے والی زبان مل جاتی تو ہمیں دستاویزات پیش کرنے کی زحمت نہیں اٹھانی پڑتی ۔ وہ خود گواہی دیتے کہ ساڑھے چار سو سال تک اللہ اکبر کی صداؤں سے ان کا عالم کس طرح زیر و زبر ہو تا رہا ہے۔
(ارشد القادری صدر کل ہند مسلم پرسنل لاء کا نفرنس ص ٧١ ماہنامہ حجاز جدید دہلی اگست ۱۹۸۸ء یکم فروری ۱۹۸۶ء میں شہادت بابری مسجد ید دیلی – کے فورا بعد مندرجہ بالا بیان متعدد اخبارات میں شائع ہوا)

(یوم جمہوریہ (26 جنوری) اور مسلمانان ہند)

کیا اتنے ستم ہونے با وجود یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے؟
ہمیں اللہ کی رحمت سے امید ہے ایک دن وہ رام مندر میں رکھے ہوئے بت خود گواہی دیں گے کہ یہ بابری مسجد ہے جس پر جبرا قبضہ جما لیا گیا ہے
بلکہ یوں کہوں تو بجا ہوگا

جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
جب ارض خدا کے کعبے سے
سب بت اٹھوائے جائیں گے
ہم اہل صفا مردود حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا
جو غائب بھی ہے حاضر بھی
جو منظر بھی ہے ناظر بھی
اٹھے گا انا الحق کا نعرہ
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
اور راج کرے گی خلق خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو

26 جنوری اور مدارس اسلامیہ

یوں تو مدارس اسلامیہ میں 26 جنوری کو جشن مناتے ہوئے بہت کم دیکھا گیا ہے لیکن کچھ سالوں سے باضابطہ مدارس اسلامیہ میں بھی 26 جنوری منایا جا رہا ہے لیکن یہ بھی فقط رسم و رواج کی چار دیواری میں محصور ہے اراکین مدارس اسلامیہ کو چاہیے کہ با ضابطہ طور پر بچوں کو اس موقع پر آئین ہند سے واقفیت دلائیں علاوہ ازیں جو مسلمانوں کے حساس مسائل ہیں ان پر واضح طور پر گفتگو کی جائے اس کے نکات ذہنوں میں ازبر کرائیں جائیں جشن یوم جمہوریہ میں خاص طور پر طلبا کے اندر تاریخ پڑھنے کا جذبہ بیدار کرایا جائے کہ خود تاریخ کا مطالعہ کرنے کی طرف مائل ہوں اس لیے کہ جو قوم اپنی تاریخ سے واقف ہوتی ہے دلیر اور بہادر دیرپا ہوتی ہے ورنہ تاریخ سے لا تعلقی قوم کو بزدل بے حس، غلام بنی دیتی ہے

26 جنوری اور اسکولس کالجز یونیورسٹیز

یوم جمہوریہ میں تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ اسکولس کالجز یونیورسٹیز کے طلبا قائدین جنگ آزادی، آئین ہند، تاریخ ہند، روشن مستقبل، طلبا کی ذمہ داری، اساتدہ کی ذمہ داری، انسداد ابواب فتن پر تقاریر کرتے قوم کو متحرک فعال کرتے لیکن خدا جانے کس کی نظر لگ گئی کہ جو کام پہلے کوٹھوں میں، عیاش فحاش بادشاہوں کے درباروں ہوتا تھا اب وہی کام اسکولس کالجز یونیورسٹیز کے طلبا کر رہے باضابطہ اسٹیج سجا کر سب ڈانس کرتے ہیں بے ہودہ بے ہودہ گانے بجاتے ہیں راتیں رنگین کرتے ہیں تمام ٹیچرز بیٹھے ہوئے ہیں اور طالبات منچ پر ناچ رہی ہیں اور ان کے حسن ادا ناز نخرے پر ٹیچرز تالیاں بجا رہے ہیں
اگر کسی کو زیادہ حیا ہوئی تو اتنا کیا کہ برقعہ پہن کر ڈانس شروع کر دی الامان و الحفیظ بلکہ ایسے موقع پر طلبا طالبات کے گھروں سے ان کے والدین بھی آتے ہیں صرف یہ دیکھنے کے لیے کہ میری شہزادی کتنا اچھا ڈانس کرتی ہے
اسی لیے ڈاکتر اقبال نے کہا تھا

تہذیبِ فرنگی ہے اگر مرگِ اُمومت
ہے حضرتِ انساں کے لیے اس کا ثمر موت
جس عِلم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اُسی علم کو اربابِ نظر موت
بیگانہ رہے دِیں سے اگر مَدرسۂ زن
ہے عشق و محبّت کے لیے عِلم و ہُنر موت

(یوم جمہوریہ (26 جنوری) اور مسلمانان ہند)

خدارا یہ سب بند کریں اور طلبا طالبات کو رقاص نہیں بلکہ مؤرخ بنائیں جانور نہیں انسان بنائیں

یہ تو عمومی طور پر گفتگو کی گئی اگر خصوصی طور پر مسلمانوں کے پرائوٹ اسکولس کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا یہ حضرات بھی خوب رقص و سرور کی محفلیں سجاتے ہیں اور ڈے جے بجواتے ہیں اور مشتھات لڑکیوں کو نچواتے ہیں اور اسکول کے بگڑے طلبا خوب مزے لیتے ہیں بلکہ بسا اوقات ڈے جے کی آواز بھی ان آوازوں کے سامنے پست پڑ جاتی ہے اور اس غیر شرعی غیر اخلاقی حرکت کو انجام دینے کے لیے پندرہ بیس دن پہلے سے تیاری کرائی جاتی ہے جس میں گانوں کو بدل کر وطن کا نام سیٹ کر کے طلبا طالبات کو یاد کرواتے ہیں کاش اتنی محنت آئین ہند اور مجاہدین جنگ آزادی کی حیات و خدمات میں تقریر یاد کرانے میں لگا دیتے تو کیا کیا ہو نہ ہوتا لیکن یہاں تو ناچنے نچانے عیاشی کرنے کا سب پر بھوت سوار ہو چکا ہے یہی وجہ ہے کہ لڑکیاں ایسے اسکولس کالجز یونیورسٹیز میں پڑھنے کے دوران مرتد ہو جاتیں ہیں
کیا اس طرح یوم جمہوریہ منانے سے قوم ترقی کر سکتی ہے؟
کیا اس سے طلبا طالبات میں عیاشی فحاشی برائیاں جنم نہیں لیں گی؟
کیا اس میں والدین کا قصور نہیں ہے؟
کیا اس میں اساتذہ سزا کے مستحق نہیں ہیں؟
کیا یہ ناچنا گانا کوٹھوں میں پلنے والی عورتوں کا کام نہیں ہے؟
کیا اس سے مجاہدین جنگ آزادی کی ارواح کو تکلیف نہیں پہنچتی ہے؟
کیا اس سے بچوں میں تعلیم کا جذبہ بیدا ہو سکتا ہے؟
اگر اللہ نے آپ کو چشم بینا، سنجیدہ دماغ، ہمدرد قوم بنایا ہے تو ضرور ان سوالات کے جوابات اپنے دل میں سوچیں اور خود فیصلہ کریں کہ ہم کیا کر رہے ہیں؟
شاید انھیں حالات کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر اقبال نے کہا تھا

مجھ کو معلوم ہیں پِیرانِ حرم کے انداز
ہو نہ اخلاص تو دعوٰئے نظر لاف و گزاف
اور یہ اہلِ کلیسا کا نظامِ تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین و مُروّت کے خلاف

خلاصۂ کلام

زبدۂ تحریر یہ ہے کہ اپنی ذمہ داری صحیح طریقے سے ادا کریں بچوں کو تعلیم دیں افسر، ڈاکٹر، انجینیر، مورخ، ادیب، پروفیسر، بنائیں ڈانسر نہ بنائیں اسکولس کالجز یونیورسٹیز میں طلبا طالبات پڑھنے جاتے ہیں ڈانس کرنے نہیں خاص کر یوم جمہوریہ کے موقع پر آئین ہند مجاہدین جنگ آزادی پر گفتگو کی جائے یہی وہ طلبا طالبات ہیں جو اس قوم کو بگاڑ بھی سکتے ہیں اور سدھار بھی سکتے ہیں اس لیے جب آپ انھیں سدھار دیں گے تو یہ قوم کو سدھار دیں گے کیونکہ

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارہ


اے ہند کے والی

کتاب عشق کی تفسیر مفتی اعظم

ہند کے بادشاہ خواجۂ خواجگاں

شیئر کیجیے

Leave a comment