خوراک کا عالمی دن غریبوں سے بھونڈا مذاق؟
بھوکے پیٹ سونے پر مجبور لوگ!
از قلم:حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی
رب العالمین سارے جہان کا پالنہار ہے، اپنی تمام مخلوق کے رزق (خوراک) کا اِنتظام فر مایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اور زمین پر چلنے والا کوئی ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمۂ کرم پر نہ ہو اور جانتا ہے کہ کہاں ٹھہرے گا اور کہاں سپرد ہوگا سب کچھ ایک صاف بیان کرنے والی کتاب میں ہے، (القرآن، سورہ ھود:11آیت6) (کنزا لایمان)
اس آیت میں مُطْلَقاً جان دار مُراد ہیں. لہذا انسان اور تمام حیوانات اس میں داخل ہیں، تفسیر خازن ج:2 ص،340) شیخ سعدی شیرازی علیہ الرحمہ فر ماتے ہیں ’’کوئی شخص روزی اپنی لیاقت اور طاقت سے حاصل نہیں کرتا، اللہ سب کا رزاق ہے“۔ دوسرا قول ”رب تعالیٰ نے رزق اپنے ذمۂ کرم پر رکھا، ورنہ دنیا والے وسط حلق سے بھی نوالہ نکال لیتے“۔ سچ اور حق تو یہی ہے کہ آج لوگ حلق میں پہنچنے سے پہلے ہی نکال لے رہے ہیں۔ آج کے اس لوٹ کھسوٹ کے دور میں بڑے بڑے، corporate کار پوریٹ، متحد، منظم جماعت، اجتماعی شخصیت، تاجروں نے ایسے انتظام کر رکھے ہیں کہ سارے وسائل پر اُن کا قبضہ ہوجائے اور من مانی قیمت پر جنس کو بیچیں اور یہی وہ کررہے ہیں، چاہے دنیا بھوکوں مرے ان کی بلا سے۔ اڈانی، امبانی کے ہریانہ و ملک کے دوسرے علاقوں میں بنائے ہوئے بڑے بڑے گودام اس کی نشان دہی کررہے ہیں۔ غریب کسان جو لوگوں کی بھوک مٹانے کے لیے جی توڑ محنت کر کے غلہ پیدا کرتا ہے، اُسی”اَن داتا” پر اپنا قبضہ جمانے کے لیے پوری قوت لگارہا ہے. اس کام میں ان کی مدد و معاونت میں حکومتیں بھی لگی ہوئی ہیں۔ سال پورا ہونے والا ہے، پورے ملک کا کسان اور عام آدمی اپنی جائز مانگیں مانگ رہا ہے، اس جائز مانگ کے احتجاج میں اب تک 800 سو کے قریب کسانوں کی قیمتی جانیں قر بان ہو چکی ہیں۔ بات، بات پر ٹویٹ کرنے والے ہمارے وزیر اعظم صاحب کو ان مرنے والوں کی یاد نہیں آئی، پوری حکومت اپنی ضد پر اڑی ہوئی ہے۔ ؎
محبتیں بھلا ملی ہیں بھیک میں کہیں
میں شہر بھر کے در و بام دیکھ آیا ہوں
میں اس سے دوستی بھلا نبھاتا بھی کیا
میں دشمنوں میں خود کا نام دیکھ آیا ہوں
(فیصل عزیز)
خوراک پیدا کرنے والے ہی بھوک سے دوچار:
دنیا میں ہرسال 80 کروڑ سے زیادہ افراد بھوکے پیٹ رہنے پر مجبور ہیں اور ان میں سے ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو خوراک پیدا کرنے اور زرعی صنعت سے وابستہ ہیں۔ بڑے کارپوریٹ گھرانے اور حکومت کی پالیسی سے کسان اور دوسرے لوگ بھی پریشان ہیں، تین کالے قانون سے مہنگائی چرم پر پہنچ جائے گی ابھی ہی کیا کم ہے؟ جہاں لوگ بھوک سے پریشان ہیں، وہیں یہ بھی ایک سچائی ہے کہ بھوکوں سے زیادہ تعداد میں افراد موٹاپے اور زیادہ وزن کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ کے "فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن” کے مطابق دنیا میں اِتنی تعداد خوراک کی موجود ہے جس کی مدد سے 10 ارب افراد کو کھانا کھلایا جا سکتا ہے۔ لیکن لوٹ کھسوٹ کی دوڑ میں کار پوریٹ گھرانوں نے بہت سی چیزوں میں اپنا پنجہ گاڑ رکھا ہے۔ ریلائنس سٹور، جیو مارٹ A new world of grocery shopping جو تین لاکھ سے زیادہ چیزوں کی مارکیٹینگ کرتی ہے سے لے کر بِگ بازار وغیرہ تک نے اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے، غریبوں تک خوراک پہنچنے میں بڑی رکاوٹ ہے۔
غذا کا عالمی دن 16/ اکتوبر: 16 اکتوبر کو "غذا کا عالمی دن” ہے
کیاکسی بھی تاریخ کو کسی بھی نام سے دن منانے سے اُس میں بہتری آتی ہے کہ نہیں؟ لیکن سچ یہ ہے کہ یہ چونچلا روش، انداز، رکھ رکھاؤ صرف دکھاوا فوٹو کھینچوانے کے سوا کچھ نہیں، اس سے کوئی بدلاؤ نہیں ہوتا ہے. کروڑوں لوگ غریبی کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، بھوک سے بلبلا رہے ہیں، حکومتوں کی اسکیموں میں لوٹ کھسوٹ سے بچ کر کچھ حصہ برائے نام ہی غریبوں تک پہنچتا ہے۔ باقی جھوٹا دکھا وا و جھوٹا اشتہار اخباروں کی زینت بنتا ہے، آپ خوب جانتے ہیں اور دیکھ رہے ہیں۔
*دنیا میں غربت اور بھوک کی صورت حال انڈیا کا نمبر 102:*
صحت مند غذا کا اِنتخاب کرنا سیکھیے، ہر کھانے پر متوازن غذا کی اہمیت، صحت اور غذائیت کا صحت میں کردار، وٹامن سی، وٹامن ڈی، وٹامن ای، وٹامن کے وغیرہ وغیرہ کے اشتہارات دیکھنے میں تو بہت اچھے لگتے ہیں، لیکن جس بھوکے کو دو روٹی ہی نصیب نہیں وہ اِن وٹامن کی اور اشتہار کی اہمیت و حقیقت کیا جانے؟
بی بی سی17 اکتوبر2019 کی رپورٹ کے مطابق: ”گلوبل ہنگر انڈیکس“ کے مطابق جنوبی ایشیا کے ممالک میں انڈیا ایشیا کی تیسری بڑی معیشت ہے لیکن جنوبی ایشیا میں وہ سب سے پیچھے ہے۔ انڈیا 2010 میں 95 ویں نمبر پر تھا اور اب2019 میں 102 ویں نمبر پر ہے۔ تازہ ترین رپورٹ جاری کی گئی ہے جس کے مطابق 17 ممالک کی فہرست میں پاکستان گذستہ سال کے مقابلے میں 12ویں درجہ بہتری حاصل کرکے 94ویں نمبر پر آگیا ہے جب کہ انڈیا ایک درجہ بہتری حاصل کر کے 102 ویں نمبر پر ہے۔ جنوبی ایشیا کے دوسرے ممالک میں سری لنکا 66ویں نمبر، نیپال 73 ویں نمبر، بنگلہ دیش88 ویں اور افغا نستان 108 ویں نمبر پر ہے۔ "گلوبل اِنڈیکس” میں انڈیا کے نیچے ہونے کا مطلب ہے کہ اس ملک کی آبادی کو ضروری خوراک نہیں مل رہی ہے، اسی لیے بچوں کی شرح اموات زیادہ ہے، بچوں میں وزن کم ہے اور وہ خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ خوراک کی جو اسکیمیں لائیں اس کو آخری آدمی مطلب نچلے سطح کے غریب تک پہنچانے کو ضروری بنائیں، نہ کہ سب بیچ میں ہی بندر بانٹ ہو جائے۔
بھوکے کو کھانا کھلانے کی فضیلت: یوں تو سبھی مذاہب میں بھوکوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب دی گئی ہے، لیکن مذہب اسلام کی تعلیم میں بھوکوں کو کھانا کھلانے پر بڑے اجر و ثواب کی بشارت دی گئی ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فر مایا: ”مغفرت لازم کر دینے والی چیزوں میں سے بھوکے مسلمان کو کھانا کھلانا ہے“۔ (مستدرک، کتاب التفسیر اطعام السغبان… ج: 3/ص372 الحدیث: 3990) سیدصھیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فر مایا: تم میں اچھا شخص وہ ہے جو کھانا کھلائے۔ (صحیح التر غیب،وا لتر ھیب:948) قرآن و حدیث میں بہت جگہ فضیلت آئی ہے۔ اللہ ہم سب کو بھوکوں کو کھانا کھلانے کی توفیق عطا فر ما ئے آمین ثم آمین۔
الحاج حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی
خطیب و امام مسجد ہاجرہ رضویہ اسلام نگر، کپالی،پوسٹ:پارڈیہہ،مانگو، جمشیدپور(جھارکھنڈ)
پن 831020
09386379632,hhmhashim786@ gmail.com
رابطہ: 09431332338 Mob.: 09386379632 (W