علمائے کرام کا اضطراب تعجب خیز
از قلم: طارق انور مصباحی
مبسملا وحامدا::ومصلیا ومسلما
بر صغیر کے علمائے کرام کا اضطراب تعجب خیز
برصغیر میں علمائے اہل سنت وجماعت(متبعین امام احمد رضا قادری)کا بڑا طبقہ فقہی اختلافات اور اس سے رونما ہونے والے حالات پر کرب واضطراب محسوس کرتا ہے۔خاص کر بیرون ممالک میں مقیم برصغیر کے سنی حنفی علما اپنی بے چینی اور ذہنی کوفت کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔وہ بر صغیر میں پر سکون ماحول کے متمنی ہیں۔اللہ رحم فرمائے:(آمین)
مجھے یہ اضطراب ہے کہ باب فقہیات میں اختلاف کو دیکھ کر بعض لوگ باب اعتقادیات میں آزاد خیالی کے شکار ہونے لگے ہیں۔یہ سب سے مشکل مرحلہ ہے۔اس کا ایک اہم سبب یہ ہے کہ باب فقہیات میں اختلاف کی نوعیت اور قرون ماضیہ میں درپیش حالات وحوادثات کی جانب توجہ نہیں دی گئی۔میں چند امور کی جانب توجہ دلاتا ہوں,جن سے درس نظامی کے طلبہ بھی بخوبی واقف وآشنا ہیں,پھر علمائے کرام کیوں واقف نہیں ہوں گے۔
باب قطعیات(باب اعتقادیات) کا حکم یہ ہے کہ ہم اپنے عقائد کو سو فی صد حق سمجھیں اور مخالف کے عقائد کو سو فی صد غلط سمجھیں۔
باب ظنیات واجتہادیات(باب فقہیات)کا حکم یہ ہے کہ ہم اپنے مسائل کو صحیح سمجھیں گے,لیکن خطا کے احتمال کے ساتھ,یعنی سو فی صد حق ہونے کا اعتقاد نہیں رکھیں گے,بلکہ اپنے مسائل کو راجح وقوی قرار دیں گے۔
ہم اپنے مخالف کے مسائل کومبنی بر خطا سمجھیں گے,لیکن صحت کے احتمال کے ساتھ,یعنی اس کے مسائل کو مرجوح وضعیف قرار دیں گے,لیکن سو فی صد غلط نہیں سمجھیں گے۔
باب فقہیات میں چاروں مذاہب حقہ کو اپنے اہنے اصول وضوابط کے اعتبار سے حق ماننا ہے۔چند فقہی اقوال میں سے ایک ہی قول عند اللہ حق ہے,لیکن بندوں کو معلوم نہیں کہ کون سا قول عند اللہ حق ہے۔چاروں مذاہب حقہ کے مقلدین اپنے اپنے فقہی مذہب پر عمل کریں گے۔
مذکورہ بالا امور باب فقہیات کی بنیادی باتیں ہیں اور فقہی مذاہب اربعہ کے مسلمات میں سے ہیں۔چوں کہ ہر ایک کو اپنے فقہی مسائل کو راجح وقوی سمجھنا تھا اور فریق مخالف کے فقہی مسائل کو مرجوح وضعیف ماننا تھا,اس لئے باب فقہ کی مطولات وشروحات میں اپنے مسائل کی تقویت کے ساتھ دیگر مذاہب فقہیہ کے مسائل ظنیہ کی تضعیف مرقوم ومسطور ہے۔
دیگر مذاہب فقہیہ کے مسائل ظنیہ کو احادیت طیبہ کے خلاف قرار دینے کا رواج قرون ماضیہ سے چلا آ رہا ہے,بلکہ قرآن مجید کی آیات مقدسہ کے خلاف بھی بتایا جاتا ہے۔یہ سب الزام خصم اور اپنے فقہی مذہب کی تقویت کے لئے کیا جاتا ہے,لیکن مجموعی طور پر چاروں فقہی مذاہب کو حق تسلیم کیا جاتا ہے۔
حافظ ابن ابی شیبہ(159-235) فن حدیث کی مشہور کتاب”مصنف ابن ابی شیبہ”کے مصنف ہیں۔اس کی ساتویں جلد میں انہوں نے یہ بیان فرمایا کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ نے بہت سے مسائل میں احادیث نبویہ کی مخالفت کی ہے,یعنی حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے مروی احادیث طیبہ کے برخلاف آپ نے اجتہاد فرمایا ہے۔
مصنف ابن ابی شیبہ کی ساتویں جلد میں ایک باب ہے,جس کا عنوان ہے۔(ہذا ما خالف بہ ابو حنیفۃ الاثر الذی جاء عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)(یہ وہ مسائل ہیں جن میں امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ, حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے مروی حدیث کے خلاف گئے)۔اس باب میں حافظ ابو بکر ابن ابی شیبہ علیہ الرحمہ نے 125:مسائل فقہیہ کا ذکر کیا اور فرمایا کہ ان مسائل میں حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ نے حدیث کی مخالفت کی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ حافظ ابن ابی شیبہ قدس سرہ القوی مذہب اہل سنت کے افراد میں سے ہیں۔جب مذہب اہل سنت وجماعت کا متفق علیہ فیصلہ ہے کہ تمام مجتہدین برحق ہیں اور ان کے بیان کردہ مسائل اجتہادیہ کو ان کے اصول وضوابط کے اعتبار سے حق ماننا ہے تو لامحالہ حافظ ابن ابی شیبہ علیہ الرحمہ بھی مذہب اہل سنت کے قانون واصول کے مطابق حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بیان کردہ مسائل اجتہادیہ کو حق مانیں گے۔ہر مجتہد کے اجتہادی مسائل کو حق ماننے کا اصول حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے عہد سے متوارث ومشہور ہے۔
مصنف ابن ابی شیبہ میں انہوں نے جو کچھ بیان کیا۔اس کو اس پر محمول کیا جائے گا کہ وہ اپنے فقہی مذہب کی تقویت اور دوسرے فقہی مذہب کی تضعیف کر رہے ہیں۔کسی امر کو ضعیف ومرجوح قرار دینا الگ ہے اور کسی امر کو باطل قرار دینا الگ ہے۔باطل ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ وہ امر سو فی صد غلط ہے۔ہم مذاہب اربعہ میں سے کسی کو بھی باطل قرار نہیں دے سکتے۔چاروں مذاہب فقہیہ برحق ہیں۔
مذاہب اربعہ کی فقہی کتابوں میں اپنے فقہی مذہب کے علاوہ دیگر مذاہب فقہیہ کے مسائل پر نقد وجرح مرقوم ہے۔وہ تضعیف کے قبیل سے ہے۔تردید وتغلیط کے زمرہ سے نہیں۔
باب فقہیات اور جدل ومناظرہ
قرون ماضیہ سے آج تک باطل فرقوں سے بھی مناظرے ہوتے رہے ہیں,اور فقہا ومجتہدین کے درمیان بھی مناظرے جاری رہے ہیں۔
شاید بعض لوگوں کو اس پر تعجب ہو کہ جدل ومناظرہ زیادہ تر فقہی مذاہب کے درمیان ہوتا رہا ہے۔اسی لئے فن جدل ومناظرہ کا تعلق باب فقہ سے ہے۔گرچہ بعد کے زمانوں میں علم مناظرہ ایک مستقل فن بن گیا۔جدل ومناظرہ کا ایک باب اصول فقہ کی کتابوں میں آج بھی موجود ہے۔فقہا کا ایک طبقہ جدلیہ کہلاتا تھا۔حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد جب داؤد ظاہری نے مجتہد ہونے کا دعوی کیا۔تب اس طبقے کا ظہور ہوا۔اس طبقے نے تمام جھوٹے مجتہدین کا ناطقہ بند کر دیا۔ملت اسلامیہ چار فقہی مذاہب پر متفق ہو گئی۔
متکلمین اسلام کے مناظرے ومباحثے بھی باطل فرقوں سے ہوتے رہے ہیں,لیکن انھیں متکلم کہا جاتا تھا۔متکلمین کو مناظرین کا لقب عہد ماضی میں نہیں دیا گیا تھا۔جدل ومناظرہ کو فقہیات سے ہی منسلک تسلیم کیا جاتا تھا۔
قرون وسطی میں فقہا کے اسٹیجی مناظرے ہوتے رہے ہیں۔خلافت عباسیہ کے عہد اخیر میں جب باطل فرقوں کا زور کم ہو گیا اور بعض فرقے نیست ونابود ہو گئے,تب فقہی مذاہب کے باہمی مناظرے شروع ہوئے,حالاں کہ اس کی ضرورت نہیں تھی۔مذاہب اربعہ حق ہیں۔چاروں اہل سنت وجماعت کے طبقات ہیں۔کتابوں اور تحریروں تک تقویت وتضعیف کافی تھی۔
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے مناظرے
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ امام الفقہا بھی ہیں اور امام المتکلمین بھی۔آپ نے دہریوں اور بدمذہبوں سے بھی مناظرے ومباحثے فرمائے اور مذہب اہل سنت وجماعت کے مجتہدین سے بھی مناظرے ہوئے۔امام اوزاعی,امام عبد الرحمن ابن ابی لیلی اور امام جعفر صادق رضی اللہ تعالی عنہم سے آپ کے مناظرے مشہور ہیں۔یہ تینوں حضرات مذہب اہل سنت کے مجتہدین ہیں۔
حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالی عنہ ائمۂ اہل بیت میں سے ہیں۔مجتہد مطلق ہیں۔اپنے عہد کے قطب اکبر یعنی غوث اعظم ہیں۔آپ اپنے والد ماجد حضرت امام باقر رضی اللہ تعالی عنہ کے شاگرد ہیں اور حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ بھی حضرت امام باقر رضی اللہ تعالی عنہ کے صحبت یافتہ اور شاگرد ہیں۔اس طرح دونوں حضرات ہم استاذ ہیں۔
امام عبد الوہاب شعرانی شافعی(897-973)نے اپنی مشہور زمانہ تصنیف”میزان الشریعۃ الکبری”میں حضرت امام اعظم ابو حنیفہ اور حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالی عنہما کے مناظرہ کی تفصیل رقم فرمائی ہے۔اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالی عنہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آئے۔انھوں نے فرمایا کہ آپ کے اجتہادات قرآن مقدس کے خلاف ہیں۔حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا کہ ہمارے اجتہادات قرآن مجید کے موافق ہیں۔دونوں مجتہدین کے درمیان کئی گھنٹے تک مباحثہ جاری رہا۔حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کے دلائل سماعت فرما کر اپنے عہد کے غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی بات کو صحیح تسلیم فرما لیا اور اتحاد واتفاق پر مجلس تمام ہوئی۔
حضرت امام شعرانی,مجدد الف ثانی اور اسلاف کرام علیہم الرحمۃ والرضوان نے رقم فرمایا ہے کہ دقت مدارک کے سبب بادی الرائے میں کبھی اہل علم کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بعض مسائل قرآن وحدیث کے خلاف ہیں,حالاں کہ اصل حقیقت اس کے بر عکس ہے۔
عہد حاضر اور فقہی تحقیقات
بر صغیر میں فقہائے احناف میں بعض ظنی مسائل کی تحقیق میں علمی اختلافات ہوئے۔متعدد فقہا نے تحقیق کی۔ہر فقیہ نے اپنی تحقیق کی ترجیح وتقویت کے لئے دلائل رقم فرمائے۔
چوں کہ اسلامی قانون کے اعتبار سے ہر ایک مجتہد کو اپنے اجتہاد پر عمل کرنا ہے اور اپنے قول کو راجح وقوی سمجھنا ہے۔دوسرے مجتہد کو بھی اہل حق سمجھنا ہے۔مجتہد دیگر کے اصول وضوابط کی روشنی میں ان کے بیان کردہ مسائل کو حق ماننا ہے۔حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے عہد مسعود سے اہل سنت وجماعت کا یہی متوراث عقیدہ ونظریہ ہے,پس چاروں طبقات فقہیہ (حنفی,مالکی,شافعی وحنبلی)اسی طریق کار پر عمل پیرا ہیں۔
ہر ایک طبقہ اپنے بیان کردہ مسائل کی تقویت وترجیح کرتا ہے۔دوسرے طبقہ کے اجتہادی مسائل کی تضعیف کرتا ہے۔اسے مرجوح قرار دیتا ہے۔الزام خصم کے طور پر دیگر مجتہد کے بیان کردہ مسائل کو قرآن وحدیث کے خلاف بھی کہتا ہے۔یہ تمام تفصیلات مذاہب اربعہ کی فقہی کتابوں مرقوم ہیں,لیکن عہد صحابہ سے آج تک کسی فقیہ ومجتہد نے ظنی مسائل میں یہ نہیں کہا کہ ہم نے جو کچھ کہا ہے,وہ سو فی صد حق ہے اور مجتہد دیگر یا دوسرے فقیہ کا بیان کردہ مسئلہ سو فی صد غلط ہے۔
برصغیر میں حنفی فقہائے اہل سنت میں عہد امام احمد رضا قادری سے آج تک متعدد مسائل میں تحقیقاتی اختلافات ہوئے۔آج تک کسی فقیہ نے ایسا نہیں کہا کہ ہم نے جو کچھ کہا,وہ سو فی صد صحیح ہے۔نہ ہی کسی کی تحریر میں ایسا کوئی جملہ مرقوم ہے,نہ ہی کسی کی تقریر وبیان میں ایسی صراحت موجود ہے۔
جو کچھ کہا جاتا ہے,وہ محض الزام خصم کے لئے ہے اور اپنی فقہی تحقیق کی تقویت وترجیح کے لئے ہے۔یہ اسلاف کرام سے متوارث ہے,اور اپنے اجتہاد وتحقیق پر عمل کرنا اور اسے راجح وقوی سمجھنا مذہب اسلام کا حکم ہے۔
قطعی مسائل میں یہ عقیدہ رکھنا ہے کہ ہمارا عقیدہ ونظریہ سو فی صد حق ہے۔ہمارے مخالف کا عقیدہ ونظریہ سو فی صد غلط ہے۔یہ بھی واضح رہے کہ قطعی مسائل میں اجتہاد کی اجازت نہیں۔صرف ظنیات میں اجتہاد وتحقیق کی اجازت ہے۔
ظنی مسائل میں اللہ ورسول(عز وجل وصلی اللہ تعالی علیہ وسلم)کی جانب سے قطعی دلیل موجود نہیں,پھر کوئی اپنے اجتہادی یا تحقیقی مسئلہ کو سو فی صد صحیح کیسے کہہ سکتا ہے,اور جب تک کسی کی جانب سے ایسی صراحت نہ ہو تو ان کے طریق کار کو اسلاف کرام کے طریق کار پر ہی محمول کیا جائے گا کہ وہ اپنی تحقیق کو ترجیح دے رہے ہیں اور تقویت فراہم کر رہے ہیں۔
عہد حاضر کے فقہی اختلافات کو اسی تناظر میں دیکھنا ہو گا,جیسے مذاہب اربعہ کے فقہی اختلافات ہیں۔ہاں,احباب اہل سنت وجماعت کی خدمت مقدسہ میں بصد ادب یہ ضرور عرض ہے کہ فقہیات کی بہ نسبت اعتقادیات کی جانب زیادہ توجہ دی جائے۔غیروں کو اپنے عقیدہ کی طرف لایا جائے۔اپنوں کو برگشتہ نہ ہونے دیں۔
از قلم: طارق انور مصباحی
جاری کردہ:25:جون 2021