علما، سیاست اور مغربی بنگال

علما، سیاست اور مغربی بنگال

Table of Contents

علما، سیاست اور مغربی بنگال

ازقلم: انصار احمد مصباحی

علما، سیاست اور مغربی بنگال

سیاست کی موجودہ نیرنگی دیکھ کر اسے گندی، نشیلی اور بری سے تعبیر کرکے اسے نظر انداز نہیں کی جا سکتا، سیاست کے گلیارے اگر خار دار ہوگئے ہیں، تو راہ سے چند کانٹے کم کر دینا، ہماری بھی ذمہ داری بنتی ہے۔ مدارس میں رائج نصاب میں لچک کی کمی کی وجہ سے، نسل نو کے علما کئی میدانوں میں پیچھے رہ گئے، ان میں سے ایک سیاسیات بھی ہے۔

صالح سیاست ، سیرت رسول ﷺ کا ایک اہم حصہ ہے۔ صلح حدیبیہ، ترکیب خندق، جنگ خیبر کے انتخابات اور دیگر غزوات میں رسول ہاشمی ﷺ کی لا جواب ترکیب و تدبیر، سیاست کے بنیادی اور اولین نقوش ہیں۔ رسول اقدس ﷺ سے پہلے انصاف کا وہ نظام نہیں تھا، مراتب کے اعتبار سے عہدوں کے انتخاب کا رواج نہیں تھا۔ فاروقی دور آیا تو سیاسیات کے نئے اصول و ضوابط سامنے آئے، جمہوریت کے بنیادی نقوش منتج ہوئے، اعلا قسم کی حکمرانی کا نمونہ دنیا کے سامنے پیش ہوا۔

قوم و ملت کا خسارہ کہیے کہ آج اکثر علماے اہل سنت کی ترجیح، تقریر و امامت سے زیادہ کچھ نہیں رہی ، انھوں نے سیاست کو شجر ممنوعہ سمجھ کر اس سے دوری بنا رکھی ہے۔
در اصل عہد حاضر کے علما کو قوم کی قیادت کا علم ہی نہیں، وہ مسجد کے ممبر رسول سے بلند ہونے والی آواز کی قدر و قیمت سے کبھی واقف ہی نہیں ہو پائے۔ یہی وجہ ہے کہ رکعتوں کے امام اور قوم کے امام الگ الگ افراد ہوگئے۔

قوم کیا ہے قوموں کی امامت کیا ہے؟
اس کو کیا سمجھیں گے دو رکعت کے امام!

آئیے! غور کریں!

موجودہ وقت میں مغربی بنگال میں علما کی سیاست میں دلچسپی سے کیا فائدے ہوں گے اور وہ کس کس طریقے سے عوام کی سہی رہنمائی کر سکتے ہیں:

○ چند علما سوء اور عوام الناس کی گھٹیا سوچ نے موجودہ سیاست کو اتنا مکروہ کر دیا ہے کہ کوئی مخلص عالم دین جب میدان سیاست میں قدم رکھتا ہے، عوام سب سے پہلے، پھر چند علما فورا اعتراض کر دیتے ہیں، کہ علما کو نیتا گیری سے کیا لینا، عالم دین ہو کہ لیکشن لڑتا ہے! وغیرہ وغیرہ
آپ (علما) سیاست میں قدم رکھ کر اپنے کردار و عمل، مثبت انداز فکر اور زبان کی شیرینی سے سماج میں ایسا اثر پیدا کر دیں، کہ عوام اپنے غلط طرز فکر پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہوجائے اور یہ واضح ہوجائے کہ سیاسی میدان میں قیادت کے اصل حق دار بالغ نظر علما ہی ہیں۔
○ علما قوم کے دینی و دنیاوی رہبر ہیں۔ وہ کسی خاص پارٹی کا پرچارک بن کر نہ گھومیں؛ بلکہ جہاں مسلمانوں کے ووٹ، مسلمانوں کے مفاد کے کام آسکتے ہیں، اسی کی ترغیب دلائیں!
○ آج بھی اکثر عوام ووٹوں کی اہمیت سے نا واقف ہے، اپنی تقریروں، تحریروں اور نجی محافل میں ایک ایک فرد ملت کے ووٹ کی اہمیت بتائی جائے، انھیں انتخاب کا سہی مفہوم سمجھایا جائے۔
○ ووٹ فروخت کرنے اور اپنے اور قوم و ملت کی سودا بازی کرنے والوں کو ”رشوت کے عوض ووٹ“ کے نقصان سے باور کرائیے! پیسے لے کر ووٹ دینے سے خود اپنا کتنا بڑا خسارہ ہوتا ہے، دلائل سے عوام کو آگاہ کیجیے!
○ آپ کے اہل خانہ اور ماتحت افراد آپ کی رعیت ہے، آپ سے آپ کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ ایک عالم دین کے ماتحت جتنے قصبے، گاوں دیہات جتنے خاندان ، جتنے حلقے آتے ہیں، سب کی درست رہنمائی ان کا عالمانہ فرض منصبی بھی ہے اور عوام کا حق بھی؛ لھٰذا ، اس منصب سے انصاف کیا جائے اور بھولی بھالی عوام کی بر وقت رہنمائی کی جائے۔
○ مخلص عوام کو یہ بھی سمجھایا جائے کہ سیاست دیں سے جدا ہو تو فقط چنگیزی بچ جاتی ہے، ہم عمرفاروق، عثمان غنی، عمر بن عبد العزیز اور اورنگ زیب عالم گیر علیھم الرحمہ کے ماننے والے ہندی مسلمان ہیں، سیاست سے ہر دور میں تقویت و استقامت دین کا کام لیا گیا ہے، جب بھی مفاد کی بات آئے، ترقی، تعلیم، نوکری وغیرہ میں سے ”دینی مفاد“ کو زیادہ اہمیت دیں!

خبردار!

○ کوئی بھی سنی عالم، کسی پارٹی یا لیڈر کی حمایت میں ایسی کوئی حرکت نہ کرے، جس سے قوم و ملت پر انگلی اٹھے۔
○ اپنے گھروں میں ایسے ہورڈنگ، اشتہار اور جھنڈے لگانے سے گریز کریں، جس سے آپ کی شبیہ خراب ہونے کا اندیشہ ہو؛ آپ کے پڑوسی کی دل شگنی کا باعث ہو یا آپسی رنجش کو ہوا ملنے کے آثار بڑھے۔
○ ہمیں آپسی رنجشوں، کینہ و حسد اور خانہ جنگیوں کو بھلانا بہت ضروری ہے
○ یہ بات علما خاص طور ذہن میں رکھیں کہ آپ کو الیکشن کے بعد بھی اسی سماج میں رہنا ہے؛ اسی لئے احترام انسانیت، معاشرتی زندگی اور آداب معاشرت ملحوظ رہے۔
○ بہت ضروری بات: کسی بھی صورت میں اپنے کار و بار کو الیکشن کی وجہ سے متاثر نہ ہونے دیں!
○ طلبہ و طالبات کا ذہن سیکھنے سکھانے کا حامل ہوتا ہے،گرد و پیش میں رونما ہونے والے واقعات، حادثات اور عمل کا، ان کے سیکھنے کی جبلت پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ گھر کے بچوں کو الیکشن کی گہما گہمی، پیچ و خم اور شور شرابے سے دور رکھیں!
وقتی لیڈرشپ اور میڈیا کی چاپلوسی کا ، طلبہ کے ذہن و فکر پر برا اثر پڑ سکتا ہے، ان کے مستقبل کو متاثر کر سکتا ہے۔

از قلم: انصار احمد مصباحی،
جماعت رضاے مصطفٰی، اتر دیناج پور، بنگال

ہندی فلموں کے وہ پانچ جھوٹ جس نے معاشرہ تباہ کر دیا

شیئر کیجیے

Leave a comment