ھندوستان میں قوم مسلم کو سنبھلنے کی ضرورت
از قلم:- غلام مصطفیٰ رضا نظامی
آج سے کئی سالوں پہلے کا جائزہ لینگے تو آپ ہندوستان کو امن و آمان کا باغیچہ پائینگے یہی وجہ تھی کہ ہندوستان کو سونے کا چڑیا کہا جاتا تھا یہ وہی ہندوستان ہے جس میں سناتن ہندو، مسلم، سیکھ، عیسائی، آریہ سماج، دیو سماس، برہما سماجی، جین، بدھ اور پارسی مزہبوں کے لوگ گھل مل کر رہتے تھے لیکن آج مسلمانوں کی پوزیشن "حَتّٰى اِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ” (سورة التوبة آيت ١١٨) ہے- بدلتے حالات اور زمانے کی نیرنگیوں نے انہیں اپنے وطن میں بے وطن کر رکھا ہے۔پروپیگنڈوں کی دنیا نے حقیقت کو ایسا مسخ کیا کہ کزب کی جگہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے-
در اصل یہ بھی دستور زمانہ رہا ہے کہ کوثر کے اجارہ داروں پر آب فرات بند کیا گیا،قرآن کو غیر حادث کہنے والوں پر کوڑے برسائے گئے اور حد درجہ متنفر کو بہی خواہ کہا گیا_
"جھوٹ اس نے اس قدر بولا کہ سچھا ہو گیا”
حق تو یہی ہے کہ آج کی سیاست اس لائق نہیں کہ اسے اس نام سے بھی موسوم کیا جائے_ بلکہ اب کے دور میں سیاست کی صحیح تعبیر مطلب پرستی، فریب، بے وفائی، حرص اور بے حیائی ہے_اگر یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ "بادشاہت” کا جنازہ نکل چکا ہے تو خرد کے پتلوں کو یہ تسلیم کرتے بھی تأمل سے اجتناب چاہیے کہ اس کی جگہ "بالادستی” لے چکی ہے_ "جس کی لاٹھی اس کی بھیس” کا دور دورہ ہے_ لیڈروں کا عوام سے الفت و محبت ووٹ حاصل کرنے سے پہلے تک ہے_ الغرض! مسلمانوں کے تئیں بین الاقوامی اور ملکی سبھی سیاستوں کا رویہ سراسر جابرانہ اور منافقانہ ہے اور یہ بھی ایک مبنی بر حقیقت ہے کہ اپنے اور غیروں کا یہاں امتیاز بےسود ہے اگر غیروں نے ہمیں تختہ مشق بنایا ہے تو اپنوں نے بھی ہمارا ناجائز فائدہ اٹھایا ہے_
ان کی سیاست نے ہماری غفلت پر ہماری پیٹھ تھپتھپا کر ہم سے احساس زیاں تک چھین لیا_
لہذا مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنے ووٹوں کی قدر شناسی کریں_ جب انتخاب کے نام پر بھی ہم دھوکہ کھا سکتے ہیں تو دنیا کا وہ کون سا معرکہ ہوگا جسے ہم کامیابی کے ساتھ حاصل کر سکینگے تاریخ شاہد ہے ہم ملائم سنگھ کو اپنا خیر خواہ مانتے رہے مگر کیا ہوا وہ کلیان جس نے بابری مسجد کی شہادت میں اہم رول ادا کیا تھا اور اسے اپنا کارنامہ گردانہ تھا اس سے دوستی کا ہاتھ بڑھا کر ہمارے ارمانوں کا خون کر دیا_
یہ سیاست ہے جہاں سیاسی بازیگر ہزاروں کی تڑپتی لاشوں کا بدلہ محض دل موہ لینے والی دو بولوں سے کر لینا کافی سمجھتے ہیں_ لہذا وقت کے شدید تقاضوں کو ہمیں در گزر نہیں کرنا چاہیے ورنہ ہمارے خلاف سیاسی سطح پر جو چالیں چلی جا رہی ہے ہم غیر شعوری طور پر انکو تقویت فراہم کر رہے ہونگے_
(قوم مسلم پر بغض الوطنی کا الزام)
وطن سے محبت فطری بات ہے ہر انسان کو اپنے وطن سے محبت ہوتی ہے خطّہ ارض کے کای بھی گوشہ میں بسنے والا انسان وہاں کے موسمی پریشان کن حالات سے بھلے ہی کتنے ہی پریشان کیوں نہ ہو مگر پھر بھی کسی دوسری جگہ بسنے کو تیار نہیں بلکہ اس کے لئے جینے مرنے کو تیار ہوتا ہے_
اگر اس پورے روئے زمین پر کوئی ایسا انسان ہے جس کے دل میں وطن کی محبت نہیں تو وہ انسان نہیں پتھر کی مورت ہے_ مسلمانان ھند کے حب الوطنی کی تاریخ ہزاروں ایسے شہیدوں کے خون سے تحریر کی گئی ہے جنہوں نے ملک کو انگریزوں کے ہاتھوں سے آزاد کرانے کے لئے اپنی جان تک قربان کر دیا_
ہماری حب الوطنی اتنا ہی روشن و تابناک ہے جتنا کہ چمکتے چاند و سورج ہم نے صدیوں تک اس ملک پر حکومت کی ہے جنگ آزادی میں ہماری بیشمار قربانیاں ہیں جو کبھی فراموش نہیں کی جا سکتی ہے اور آج بھی باطل قوت و طاقت سے ٹکڑانے کا جذبہ ہماری قوم کے دل میں پوشیدہ ہے جو لائق تعریف ہے لیکن ہماری ان تمام قربانیوں سے وہ لوگ جس طرح نظریں چراتے ہیں وہ تاریخ جدید کا ظلمت بدوش باب ہے_ لیکن افسوس ہمارے وہ مجاہدین جنہوں نے اپنی جان کی بازی لگا کر اس ملک کو انگریزوں سے آزاد کروایا ہے آج ہمارے لئے قصہ پارینہ بن چکے ہیں_ *سچ کہا ہے کسی نے:-
مرے لہو کے دھار سے وطن کی بیڑیاں کٹیں
مگر کتاب حریت میں میری داستاں نہیں
آج ہمارے لئے ضروری ہےکہ اس سمت میں تعمیری پہل کریں، شہیدان جنگ آزادی کی اصل تناظر میں تاریخ مرتب کریں اور اس سے متعلق چھوٹے چھوٹے رسائل ماہرینِ قلم کار سے لکھوا کر مختلف زبانوں میں شائع کروائیں_
(قوم مسلم کے لئے مساجد کی تحفظ ضروری)
مسجد رب العالمین کا گھر ہے مسلمانوں کے لئے پورے روئے زمین پر سب سے مقدس مقام ہے جہاں بندگان خدا اپنی پیشانی جھکا کر خدا کی کبریائی کا اعلان کرتے ہیں ذکر و اذکار اور حمد وثنا سے مسجدیں شب و روز آباد رہتی ہیں_ اس روئے زمین پر سب سے پہلے سجدہ ریزی کے لئے جو گھر تعمیر ہوا وہ کعبہ مقدس ہے جس پر قرآن خود ناطق ہے:
"اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَّهُدًی لِّلْعٰلَمِيْنَ”
ترجمہ:- بیشک سب میں پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کو مقرر ہوا وہ ہے جو مکہ میں ہے برکت والا اور سارے جہاں کا رہنما (سورة أل عمران آية ٩٦)
جو مساجد کرہ ارض کے نقشے پر آ گئیں ان کے متعلق پوری امت مسلمہ کا متفقہ عقیدہ ہے کہ وہ تحت الثری سے عرش معلی تک تا قیامت مسجد ہے_ انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ نہ منتقل کر سکتے ہیں اور نہ منهدم کر سکتے ہیں ان کے عظمت کا یہ عالم ہے کہ ان کے کوڑے بھی گندی جگہ پر ڈالنا گوارہ نہیں_
یہی وجہ ہے کہ مسلمان اس جگہ کا ہمیشہ خیال رکھتے ہیں ان سے عداوت و بغاوت کوئی ظالم اور کافر بھی کر سکتا ہے_ جیسا کہ الله رب العزت قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
"وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰهِ اَنْ يُّذْكَرَ فِيْهَا اسْمُهُ وَسَعٰى فِىْ خَرَابِهَا اُوْلٰئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ اَنْ يَّدْخُلُوْهَا اِلَّا خَائِفِيْنَ لَهُمْ فِىْ الدُّنْيَا خِزْىُُ وَّلَهُمْ فِىْ الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْمُ”
ترجمہ:- اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو الله کی مسجدوں میں روکے نام خدا لیئے جانے سے اور ان کے ویرانی میں کوشش کرے ان کو نہ پہونچتا تھا کہ مسجدوں میں جائے مگر ڈرتے ہوئے ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لئے آخرت میں بڑا عذاب
(سورة البقرة آية ١١٤)
لیکن ہندوستان میں مساجد و عبادت گاہوں کے لئے جو سازشیں رچی جا رہی ہے وہ نہایت ہی دردناک ہے ہزاروں مساجد ہیں جو ان کے نظر میں کھٹکتی رہتی ہے ان کا کہنا ہے کہ یہاں پر پہلے مندر تھا اس مغلی حکمراں نے توڑ کر مسجد بنوایا تھا لہذا اس کو اپنی حالت پر آ جانی چاہئے اور اس پر آئے دن کچھ نہ کچھ ہنگامہ برپا کرتے رہتے ہیں آپ بابری مسجد کو ہی دیکھ لیجیے جو جلد ہی آپ کے نظر کے سامنے سے گزرا_
کیا ہوا! یہاں پر مندر ہونے کا دعویٰ کیا اور اس کو گھسیٹ کر سپریم کورٹ کے سلاخوں کے پیچھے پہونچا دیا پھر کیا تھا سیاست دانوں نے ہمارے کمزوری کا فائدہ اٹھا لیا اور ہم کف افسوس ملتے رہ گئے_
آج ہمارے لئے ضروری ہے کہ ان تاریخوں کو قلم بند کریں تاکہ اسے فراموش نہ کیا جا سکے اور ایک ایسا انسائیکلوپیڈیا تیار کریں جس میں تمام تفصیلات موجود ہو اور اسے حکومت کے ویب سائٹ پر ڈالا جائے تاکہ پوری دنیا اسے دیکھ سکے_
(قوم مسلم کے لئے مدارس کی تحفظ ضروری)
مدارس ہمارے دین کے قلعے ہیں جو انسانیت کا سبق دیتے ہیں جن کے جگر پاروں نے پورے ہندوستان کو تعلیم سے جگمگایا اور آج بھی علم و فن کا فیضان تقسیم کر رہے ہیں_ لیکن اب یہ مدارس بھی حکومت کی نظر بد میں آ گئے ہیں حکومت ان پر الزام عائد کر رہی ہے کہ ان میں دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے_
اگر آپ تاریخ کو اٹھا کر دیکھینگے اور "دستور ہند ۱۹۵۰” کا مطالعہ کرینگے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اگر یہ مدارس و مکاتیب نہ ہوتے تو شاید اس ملک عزیز کو آزادی کا پروانہ نصیب نہ ہوتا_ یہ انہیں مدارس و مکاتیب کا دین ہے کہ آج آپ اس آزاد فضا میں سکون کی سانسیں لے رہے ہیں اور یہ قابل فخر بات ہے کہ چاہے دشمنان قوم مسلم کو دیش دروہی ثابت کرنے کی جتنا بھی کوشش کر لے مگر کوئی مثال پیش نہیں کر سکتا ہے کہ دیش سے کوئی غداری کی ہو
مولانا فضل حق خیرآبادی، مولانا صدرالدین آزردہ دہلی، مولانا محمد عنایت احمد کاکوروی، مولانا محمد علی جوہر، مولانا لیاقت علی الٰہ آبادی، علامہ نقی علی خاں بریلوی، امام احمد رضا خاں محدث بریلوی اور ان جیسے مجاہدین جنہوں نے اپنے جان کی بازی لگا کر ملک کو آزاد کیا اور اس کے ترقی کے لئے اپنے جان و مال عزت و آبرو کو قربان کر دیا_ ہندوستان کی تاریخ کبھی بھی وطن عزیز کے ان سپوتوں کو فراموش نہیں کر سکتی ہے_
یہ مجاہدین کسی کالج یا یونیورسٹی کے پیداوار نہیں بلکہ مدارس کے قابل فخر چراغ تھے- یہ مدارس صرف درسگاہیں نہیں بلکہ قیام گاہ بھی ہے اگر یہ مدارس نہ ہوتے تو غریبوں، یتیموں اور بے سہاروں کی پرورش کی ذمہ داری بھی حکومت کے ذمے ہوتی_ چاہیے تو یہ تھا کہ حکومت مدارس کے بہترین کارکردگیوں کی وجہ سے مدارس کے اراکین و ممبران کو عزت دیتی مگر اس کے بر خلاف مدارس کو دہشتگردی کا اڈہ قرار دیا جا رہا ہے_
آج شدت سے اس بات کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کہ آج علماء و صوفیاء ہاتھ پہ ہاتھ دھرے نہ بیٹھے بلکہ علماء اپنی درسگاہوں اور صوفیاء اپنی خانقاہوں سے نکل کر باہر کی دنیا کا نظارہ کریں اور اپنا مقاصد و اہداف کا تعین کریں علماء و فضلاء کی جماعت کی تیاری بہت اچھی بات ہے لیکن ڈاکٹر، انجینئر، آفیسر، وکیل جیسے علم سے بھی آشنائی بخشے اور بلند صفت افراد کے لئے راہیں بھی ہموار کریں
کیونکہ اگر حالات کے تقاضے کے ساتھ صحیح وقت پر انصاف نہ کیا گیا تو قوم کی پشت پر طرح طرح کے ظلم و ستم برستے رہینگے افسوس کہ جن فرزندان مدارس نے جنگ آزادی میں اپنے جان کی بازی لگا کر اپنے ملک کی حفاظت کی وہ آج اپنی خانقاہوں، درسگاہوں، اور اپنے گھر کی حفاظت نہیں کر پا رہے ہیں اور وہ جو آزادی کے تصادم میں انگریز کے چمچے بنے ہوئے تھے وہ حب الوطنی کا ثبوت مانگ رہے ہیں_
آج ہمارے لئے ضروری ہے کہ ان باتوں پر توجہ دیا جائے اور اس نظریہ کو بدلہ جائے اگر آج ان باتوں پر توجہ نہ دی گئی تو وہ دن دور نہیں کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے تہذیب و تمدن کا کوئی نام و نشان تک باقی نہ ہوگا_
صحیح کہا تھا علامہ اقبال نے
نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤ گے اے ہندی مسلمانوں
تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں
(قوم مسلم کے لئے اردو زبان کا تحفظ ضروری)
آج ہندوستانی مسلمانوں کے تحفظ و بقاء کے لئے جہاں تک ان چیزوں پر غور و فکر کرنے اور اس کے تحفظ کی ضرورت ہے وہیں اردو زبان کا تحفظ بھی ضروری ہے اردو ایک ایسی زبان ہے جس میں حلاوت و مٹھاس، شگفتگی و شستگی، آبشاروں کا ترنم، بلبل کی چہک اور گلوں کی مہک سب کچھ موجود ہے اگر آپ ہندوستان کی تاریخ کا مطالعہ کرینگے تو آپ پہ یہ بات واضح ہوگی کہ یہ اردو زبان صرف مسلمانوں میں ہی محدود نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے دوش بدوش ہندوؤں نے بھی اردو ادب کو پڑھا اور اپنایا ہے جن میں پنڈت دیا شنکر، ٹیکا رام، راجہ الفت، رام پرستاد بشر وغیرہ کے نام آتے ہیں_
اردو زبان نے ملک کو غلامی سے آزاد کرانے میں بڑا رول ادا کیا اور پورے ملک میں نعرہ آزادی بلند کیا ہے_ لیکن اب بیچاری اردو بھی تنگ نظری کا شکار ہو گئی ہے آج اس کو بھی ہندوستان کے صفحہ ہستی سے نکالنے کی ناجائز سازشیں کی جا رہی ہے اگر اردو زبان کی ترویج و اشاعت میں کوشش کی جائے تو اس کو فرقہ پرستی کا نام دے دیا جاتا ہے دفتروں میں اگر اردو زبان میں درخواست پیش کی جائے تو اسے نظر انداز کیا جا رہا ہے_ اور ان سب کی وجہ ہے ہماری سستی، کاہلی اور لاپرواہی وہ ہمارے خلاف سازشیں رچتے رہے اور ہم آپس میں لڑتے رہے_
اس ہندوستان میں ہماری آبادی تقریباً 17.22 کڑور کی ہے جو 14.02 فی صد ہوتا ہے پورے ہندوستان میں دو نمبر کی پوزیشن ہمیں حاصل ہے اگر ہم اپنی مٹھی کو بند کر لیں تو پورے ہندوستان کا نظام درہم برہم ہو سکتا ہے_
آج ہمارے لئے ضروری ہے کہ اپنے سوئے ہوئے ضمیر کو جگائے اور اپنے اسلاف کے بتائے ہوئے راستے پر چلیں اور دشمنان اسلام کو اپنی طاقت کا احساس دلائے اور ایک جا ہو کر حکومت سے اپنا حق مانگے چاہے اپنی جان کی بازی کیوں نہ لگانی پڑے_
از قلم:- غلام مصطفیٰ رضا نظامی
جامعہ حضرت نظام الدین اولیاء