اسلامی سال نو کا آغاز اور ہمارا رویہ
حافظ افتخار احمدقادری برکاتی
اسلامی ہجری کا آغاز خلیفہ دوم امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی الله تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت سے ہوا- حضرتِ سیدنا عمر فاروق اعظم رضی الله تعالیٰ عنہ کو یہ فکر لاحق رہتی کہ ہم اپنے معاملات لکھنے میں سن عیسوی کا استعمال کرتے ہیں جبکہ ہمارا اپنا سن اور اپنی تاریخی شناخت ہونی چاہیے-
لہٰذا آپ نے ایک مجلسِ شوریٰ سے اسلامی سن کے آغاز کے بارے میں مشورہ طلب کیا- صحابہ کرام رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین نے مشورہ پیش کیا کہ حضور اکرم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت سے ابتداء کی جائے- کسی نے کہا اعلان نبوت سے اسلامی سن ہجری کا آغاز کیا جائے یہ عظیم اور انقلابی واقعہ ہے اور اسی عظیم واقعہ کے بعد سے مذہب اسلام کی اشاعت و فروغ کا سلسلہ شروع ہوا اور اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آیا- چنانچہ اس رائے کو سب نے پسند فرمایا مگر سال کے بارہ مہینے اور پہلا مہینہ محرم الحرام پہلے سے ہی رائج تھے- اب سوال یہ پیدا ہوا کہ حضور اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے ہجرت ماہ ربیع الاول میں فرمائی تھی
لہذا امیر المومنین حضرت سیدنا عثمان غنی رضی الله تعالیٰ عنہ نے تطبیق پیش فرماتے ہوئے مشورہ دیا: ماہ محرم الحرام کو سال کا پہلا مہینہ مقرر کیا جائے اور سن ہجری کا آغاز دو ماہ آٹھ دن پیچھے سے شمار کیا جائے- لہٰذا ہجرت حضور اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کو یکم ہجری قرار دیا گیا اور اس کے بعد کے تمام واقعات کو خلیفہ دوم کی عہد خلافت تک مرتب کیا گیا اور اس طرح 20/ جمادی الثانی 17/ ہجری مطابق 09/ جولائی 638/ عیسوی سے باقاعدہ طور سے اسلامی سن ہجری کا آغاز ہوا- الله رب العزت نے جس دن زمین وآسمان کی تخلیق فرمائی تب سے ہی سال کے بارہ مہینے مقرر فرمائے اور ان ماہ میں چار مہینوں کو حرمت وعظمت والا قرار دیا- قرآن مجید میں الله رب العزت ارشاد فرماتا ہے- ترجمہ: بیشک مہینوں کی گنتی الله کے نزدیک بارہ ہے الله کی کتاب میں، جب سے اس نے آسمان اور زمین بنائے، ان میں چار حرمت والے- ( پارہ 10 سورہ توبہ، آیت 36) اس آیتِ مبارکہ سے ثابت ہوا کہ سال کے بارہ مہینوں کا تقرر الله رب العزت نے فرمایا ہے اور چار مہینوں کو عظمت و بزرگی عطا فرمائی
وہ مقدس عظمت و حرمت والے مہینے یہ ہیں-
پہلا محرم الحرام، دوسرا رجب المرجب، تیسرا ذی القعدہ، اور چوتھا ذی الحجہ ہے- امم سابقہ میں بھی یہ مہینے حرمت والے تھے لہٰذا وہ امتیں بھی ان مہینوں کا احترام کیا کرتی تھیں اور ان حرمت والے مقدس مہینوں میں جنگ وجدال، قتل و غارتگری سے مکمل اجتناب کیا کرتی تھیں- مذہب اسلام میں ان مہینوں کی حرمت اور زیادہ ہو گئی- حدیثِ پاک کا مفہوم ہے: ماہ محرم الحرام الله رب العزت کے لیے ہے اس مبارک مہینے کی تعظیم کرو- جس نے ماہ محرم الحرام کی تعظیم کی تو الله رب العزت اسے جنت میں عزت عطا فرمائے گا اور دوزخ سے نجات دے گا- الله رب العزت ہمیں اس ماہ مبارک کی قدر کرنے کی اور اس میں خوب خوب عبادت کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائے-
ماہ محرم الحرام کا چاند نظر آتے ہی اسلامی نئے سال کا آغاز ہو جاتا ہے اور ہم آپس میں ایک دوسرے کو مبارکباد پیش کرنے میں لگ جاتے ہیں- لیکن صرف اتنا ہی نہیں کہ ہم آپس میں مبارک باد دیں بلکہ اس ماہ مبارک کا استقبال تو اس طرح ہونا چاہیے کہ ہم اپنے آپ کا محاسبہ کریں- جو سال گذر گیا اس میں ہم سے کیا کیا کوتاہیاں سرزد ہوئیں- خاص طور سے اپنے اعمال کا محاسبہ کریں اس نئے سال کے لیے کچھ عزائم کریں- منصوبہ بندی کریں- شریعتِ اسلامیہ کے سانچے میں اپنے آپ کو ڈھالنے کی سعی کریں اور مذہب اسلام کی تبلیغ واشاعت کے لیے کمر بستہ ہو جائیں ان عزائم کے ساتھ اگر ہم ماہ محرم الحرام کا استقبال کریں گے تو انشاء الله تعالیٰ دونوں جہان میں کامیابی و کامرانی میسر آئے گی-
محرم الحرام کی پہلی شب:
ام المومنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی الله تعالیٰ عنہما فرماتی ہیں: جو شخص ماہ محرم الحرام کی پہلی شب میں شب بیداری کرے اور آٹھ رکعت نفل نماز اس طرح پڑھے کہ ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد سورہ اخلاص دس مرتبہ پڑھے تو میں قیامت کے روز اس کی اور اس کے گھر والوں کی شفاعت کروں گی اگرچہ اس پر دوزخ کی آگ واجب ہو چکی ہو- کتاب الاوراد میں ہے جو ماہ محرم الحرام کی پہلی رات میں دو رکعت نماز نفل پڑھے اور سلام پھیرنے کے بعد یہ دعا ہاتھ اٹھا کر پڑھے: ،، اللهم ارحمنى وتجاوز عن واحفظنى من كل افة ،، وہ تمام سال جملہ آفات و بلیات سے امان میں رہے گا- حضرت ابن عباس رضی الله تعالیٰ عنہ سے روایت ہے: حضور اقدس صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے ذی الحجہ کے آخری دن اور ماہ محرم الحرام کے پہلے دن کا روزہ رکھا گویا اس نے گزشتہ سال کو روزوں میں ختم کیا یعنی سال بھر روزہ رکھا- اور آئندہ سال کو بھی روزہ سے شروع کیا- الله رب العزت اس کے پچاس برس کے گناہوں کا اس روزہ کو کفارہ بنا دے گا-
ماہ محرم الحرام کا چاند نظر آتے ہی ذکر شہادت کی مجلسیں منعقد ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور صحابہ کرام رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین و اہلبیت اطہار اور دیگر جگر گوشئہ بتول اور امام عالی مقام حضرت سیدنا امام حسین رضی الله تعالیٰ عنہ کی قربانیوں ان کی عظمت و رفعت کا تذکرہ کرکے شمع ایمانی کو تیز کیا جاتا ہے جو یقیناً کار ثواب اور اپنی نسلوں تک پیغامِ اسلام پہچانے کا عظیم ذریعہ ہے- ان مجالس کا انعقاد شریعتِ مطہرہ کے دائرے میں رہتے ہوئے کس طرح کرنا چاہیے اس تعلق سے امام اہلسنت مجدد دین و ملت سیدی سرکار اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی علیہ الرحمتہ والرضوان اپنے فتویٰ میں ارشاد فرماتے ہیں: جو مجلس ذکر شریف حضرت امام عالی مقام حضرت سیدنا امام حسین رضی الله تعالیٰ عنہ و اہل بیت اکرام رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین کی ہو جس میں روایات صحیحہ معتبرہ سے ان کے فضائل و مقامات و مدارج بیان کیے جائیں اور امور مخالف شرع سے یکسر پاک ہوں فی نفسہ حسن و محمود ہیں خواہ اس میں نثر پڑھیں یا نظم، اگرچہ وہ نظم بوجہ ایک مسدس ہونے کے ذکر میں ذکر حضرت سید الشہداء ہے- (فتویٰ رضویہ، جلد 24 صفحہ 523)
حضور صدر الشریعہ حضرت علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمتہ والرضوان مجلس محرم سے متعلق تحریر فرماتے ہیں: عشرہ محرم میں مجلس منعقد کرنا اور واقعات کربلا بیان کرنا جائز ہے جبکہ روایات صحیحہ بیان کی جائیں اور ان واقعات میں صبر وتحمل، رضا وتسلیم کا مکمل درس ہے اور پابندی احکامِ شریعت و اتباع سنت کا زبردست عملی ثبوت ہے کہ دین حق کی حفاظت میں تمام اعزاز و اقربا و رفقاء اور اپنے کو راہ خدا میں قربان کیا اور جزع و فرع کا نام بھی نہ آنے دیا- مگر اس مجلس میں صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہم کا بھی ذکر خیر ہونا چاہیے تاکہ اہلبیت اور اس کے علاوہ کی مجلسوں میں فرق و امتیاز رہے-
(بہار شریعت حصہ 06 صفحہ 247)
قوم مسلم میں تعزیہ داری کی انتہائی غلط و قبیح رسم پروان چڑھ گئی ہے- امام اہل سنت سرکارِ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری فاضل بریلوی علیہ الرحمتہ والرضوان فتویٰ رضویہ میں تفصیل کے ساتھ ذکر فرماتے ہیں: آج کی مروجہ تعزیہ داری قطعاً بدعت و ناجائز و حرام ہے- تعزیہ داری کے سلسلے میں آج کل جو ڈھانچے بنائے جاتے ہیں، ان کے اندر مصنوعی قبر بناتے ہیں، پھر اس پر پھول چڑھاتے ہیں، ان سے منتیں مانگتے ہیں، پھر اسے لے جاکر دفن کر دیتے ہیں، کہیں امام عالی مقام کی سواری بٹھاتے ہیں اور اس کو نعل صاحب کی سواری کہتے ہیں، چڑھاوے چڑھائے جاتے ہیں، منتیں مانگتے ہیں، اس قسم کی بہت سی باتیں کی جاتیں ہیں یہ سب بدعات و خرافات ہیں- حضرت امام عالی مقام کے واقعات تو ہمارے لیے نصیحت تھے لیکن افسوس! کہ ہم نے آج کھیل تماشہ بنا لیا ہے-
امام اہلسنت مجدد دین و ملت اعلیٰ حضرت عظیم البرکت الشاہ امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی علیہ الرحمتہ والرضوان نے ماہ محرم الحرام میں کیے جانے والے برے کاموں کی سخت مذمت فرمائی ہے- آپ تحریر فرماتے ہیں: تعزیہ ممنوع ہے شرع میں اس کی کچھ اصل نہیں اور جو کچھ بدعات ان کے ساتھ کی جاتی ہیں سخت ناجائز ہیں- تعزیہ پر مٹھائی چڑھائی جاتی ہے اگرچہ حرام نہیں ہو جاتی مگر اس کے کھانے میں جاہلوں کی نظر میں ایک امر ناجائز کی وقعت بڑھانے اور اس کے ترک میں اس سے نفرت دلانی ہے لہٰذا نہ کھائی جائے- ڈھول بجانا حرام ہے-
(فتویٰ رضویہ جلد 8/ صفحہ 180)
صدر الشریعہ حضرت علامہ مولانا امجد علی اعظمی علیہ الرحمتہ والرضوان بہار شریعت میں بڑے مفصل اور واضح انداز میں ان بدعات و خرافات کی تردید فرماتے ہیں: تعزیہ داری کے واقعات کربلا کے سلسلے میں طرح طرح کے ڈھانچے بناتے ہیں اور ان کو حضرت امام عالی مقام رضی الله تعالیٰ عنہ کے روضہ مبارک کی شبیہ کہتے ہیں، کہیں تخت بنائے جاتے ہیں، کہیں ضریح قبریں بنائی جاتی ہیں اور علم و شدے نکالے جاتے ہیں، ڈھول تاشے اور قسم قسم کے باجے بجائے جاتے ہیں، تعزیوں کا بہت دھوم دھام سے گشت ہوتا ہے آگے پیچھے ہونے میں جاہلیت کے سے جھگڑے ہوتے ہیں، کبھی درخت کی شاخیں کاٹی جاتی ہیں، کہیں چبوترے کھدوائی جاتے ہیں، تعزیوں سے منتیں مانی جاتی ہیں، سونے چاندی کے علم چڑھائے جاتے ہیں، ہار پھول ناریل چڑھائے جاتے ہیں، وہاں جوتے پہن کر جانے کو گناہ جانتے ہیں، بلکہ اس شدت سے منع کرتے ہیں کہ گناہ پر بھی ایسی ممانعت نہیں کرتے، چھتری لگانے کو بہت برا جانتے ہیں، تعزیوں کے اندر مصنوعی قبریں بناتیں ہیں، ایک پر سبز غلاف اور دوسرے پر سرخ غلاف ڈالتے ہیں، سبز غلاف والے کو حضرتِ سیدنا امام حسن رضی الله تعالیٰ عنہ اور سرخ غلاف والے کو حضرتِ سیدنا امام حسین رضی الله تعالیٰ عنہ کی قبریں یا شبیہ بتاتے ہیں اور وہاں شربت مالیدہ وغیرہ پر فاتحہ دلاتے ہیں، یہ تصور کر کے کہ حضرت سیدنا امام حسین رضی الله تعالیٰ عنہ کے روضے اور مواجہ اقدس میں فاتحہ دلا رہے ہیں،
پھر یہ تعزیے دسویں تاریخ کو مصنوعی کربلا میں لے جاکر دفن کرتے ہیں گویا یہ جنازہ تھا جسے دفن کر آئے، پھر تیجہ دسواں چالیسواں سب کچھ کیا جاتاہے اور ہر ایک خرافات پر مشتمل ہوتا ہے، اسی سلسلے میں نوحہ و ماتم بھی ہوتا ہے اور سینہ کوبی بھی ہوتی ہے، اتنے زور زور سے سینہ کو کوٹتے ہیں کہ سینے میں خون بہنے لگتا ہے یہ سب ناجائز و خرافات ہیں، تعزیوں کے پاس مرثیہ پڑھا جاتا ہے اور تعزیہ جب گشت کو نکلتا ہے اس وقت بھی اس کے آگے مرثیہ پڑھا جاتا ہے، مرثیہ میں غلط واقعات نظم کیے جاتے ہیں، اہلبیت اکرام کی بے حرمتی اور بے صبری اور جزع و فزع کا ذکر کیا جاتا ہے، کیوں کہ اکثر مرثیے رافضیوں کے ہی ہیں، بعض میں تبراء بھی ہوتا ہے، مگر اس رو میں سنی بھی بے تکلف پڑ جاتے ہیں اور انہیں اس کا خیال بھی نہیں ہوتا کہ کیا پڑھ رہے ہیں، یہ سب ناجائز و گناہ کے کام ہیں- اظہارِ غم کے لیے سر کے بال بکھیرتے ہیں، کپڑے پھاڑے ہیں اور سر پر خاک ڈالتے ہیں، یہ سب ناجائز اور جاہلیت کے کام ہیں، ان امور سے بچنا نہایت ہی ضروری ہے- احادیثِ مبارکہ میں ان سب کاموں کی ممناعت آئی ہے- مسلمانوں پر لازم ہے کہ ایسے امور سے پرہیز کریں جن سے الله رب العزت اور رسول کریم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم ناراض ہوتے ہیں، کہ یہی نجات کا راستہ ہے- ( بہار شریعت/ حصہ 16/ صفحہ 248/249)
لہٰذا مسلمانوں پر لازم ہے وہ ان تمام بدعات و خرافات سے بچیں اور عوام اہلسنت کو بچائیں- دوسرے لوگ اہلبیت پر الزام لگاتے ہیں کہ یہ تمام خرافات سنیوں کے ہیں حالانکہ کوئی بھی عالم اور کسی بھی کتاب میں ان خرافات کو جائز نہیں کہا گیا بلکہ علماء اہلسنت نے اس کی جم کر مخالفت فرمائی ہے- یہ سب جاہل عوام کے کام ہیں لہٰذا ہمیں ان کی اصلاح کے لیے کمر بستہ ہونا چاہیے اور جو جائز امور ہیں ان کو دل و جان سے کرنا چاہیے- الله رب العزت ہمیں حق قبول کرنے اور حق پر ثابت رہنے اور حق کو عام کرنے کی توفیق و طاقت عطا فرمائے-
حافظ افتخار احمدقادری برکاتی
کریم گنج،پورن پور،پیلی بھیت،مغربی اتر پردیش
رابطہ:8954728623
iftikharahmadquadri@gmail.com