بدلاؤ میں بقا ہے
برکت خان امجدی
دنیا کا دستور ہے جو چیز وقت کے ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہے وہ ایک زمانے تک باقی رہتی ہے لیکن جو مبنی ہو جاتی ہے وہ جلد فنا ہو جاتی ہے یہ دستور فقط اشیاء میں ہی منحصر نہیں ہے بلکہ حیوانات کا بھی یہی حال ہے آج سے ایک زمانے قبل بڑے بڑے جانور دنیا میں موجود تھے لیکن آج ان کا دنیا سے نام و نشان ختم ہو گیا ہے جیسے ڈائناسور وغیرہ جبکہ کچھ چھوٹے جانور جو ایک زمانے قبل سے آج تک موجود ہے جیسے کوکروچ اس جانور نے اپنے آپ میں بدلاؤ کیا تو یہ آج تک موجود ہے بھلے ہی چھوٹا ہی صحیح اب آپ ایک چیز کی مثال لیں جیسا کہ ہم موبائل میں پلے اسٹور سے کوئی ایپ ڈاؤن لوڈ کرتے ہیں اولاً اس میں کچھ کمی ہوتی ہے بعد میں اس کا اونر اس کو اپڈیٹ کرتا ہے جس سے اس کا بدلاؤ ہو جاتا ہے وہ ایپ اور اچھا ہو جاتا ہے استعمال کرنے والا قدیم ورژن کو استعمال کرنا پسند بھی نہیں کرتا ہے وہ ایپ باقی رہتا ہے جن ایپ میں اپڈیٹ نہیں ہوتا ہے وہ ختم ہو جاتے ہیں خاص اسی طرح ہم اگر انسانوں میں دیکھیں تو لگتا ہے کہ انسان کو بھی وقت کے ساتھ بدلنا ضروری ہوتا ہے ورنہ ان کی بھی بقا ناممکن ہے اگر وہ قدیم روش پر چلنے کی کوشش کریں گے تو فنا ہو جائیں گے فقط اپنی طاقت و قوت پر اپنی بقا کو محمول کرنا یہ فنا کی طرف قدم اٹھانا ہے طاقت شاید ڈائناسور میں کوکروچ سے کئی گناہ زیادہ ہے لیکن اول کا خاتمہ ہو گیا اور ثانی تاحال باقی ہے
اسی طرح ہمارے قائدین چاہے وہ کسی طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں وہ اپنے آپ میں بدلاؤ لانے کی ضرورت محسوس ہی نہیں کرتے وہی پرانی روش پر تمام لوگوں کو چلانا چاہتے ہیں جس سے نسل نو اکتا کر ان سے دور ہو جاتی ہے پھر وہ اسی کو بغاوت کا نام دیتے ہیں جبکہ یہ بغاوت نہیں بلکہ طریقے میں بدلاؤ کی خواہش ہے آج ہماری کئی تنظیمیں اور ادارے فقط اسی وجہ سے بربادی و تنزلی کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں کہ انہوں نے وقت کے ساتھ اپنے آپ کو بدلا نہیں اس دور کا ہر انسان جدید روش کا متلاشی ہے قدیم نہج کسی کو قبول نہیں اگر باقی رہنا ہے تو بدلنا ضروری ہے ورنہ فنا ہو جانا لازمی ہے
انسان کا ذہن اس وقت اپڈیٹ ہوتا ہے جب وہ اعلی افکار کے لوگوں سے ملے یا بلند سوچ کے لوگوں کو پڑھے یا الگ الگ جگہوں کی سیر کرے ( صورت اول و آخر میری نظر میں اوسط سے بہتر ہیں) دوران سیر لوگوں میں جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے اس کو محسوس کرکے اس کے مطابق کام کرتا ہے تو وہ کامیاب ہو جاتا ہے غیر ضروری کام کرنے سے ناکامی طے ہوتی ہے اس لئے انسان خاص کر قائدین کو اپنے سے بڑے لوگوں یا اعلی سوچ کے کم عمر افراد سے ضرور ملاقات کرنی چاہیے اور مشورے طلب کرنے چاہئے آج کل بڑے لوگ نئے افراد کو کل کی پیداوار بول کر نظر انداز کر جاتے ہیں اس بات سے شاید باخبر نہیں ہوتے یا اپنا تجاہلِ عارفانہ ہے وہ چھوٹی عمر کے لوگوں کی بات سننے کو تیار ہی نہیں ہوتے ہیں جبکہ دور جدید میں ترقی یافتہ ممالک میں تعلیمی و عملی میدان میں بچوں کی خواہشات کو ترجیح دی جاتی ہے اس وجہ سے کہ مستقبل کی تعمیر انہی کو کرنی ہے یہ بات ہمارے یہاں قبول نہیں کیونکہ ہمارے یہاں بدلاؤ نہیں
اس لحاظ سے میرا ماننا ہے کہ انسان کو اپنے ذہن اور اداروں و تنظیموں کو اپنے نظام کو وقت کے ساتھ بدلتے رہنا چاہیے تاکہ وہ ایک زمانے تک باقی رہیں کئی لوگ اپڈیٹ ہونے کو قبیح فعل تصور کرتے ہیں کہ یہ سب فیشن پرست ہے معزز افراد کا کام نہیں ہے یہ سوچ کسی اعتبار سے درست نہیں ہے شریعت موسوی میں سور کا گوشت کھانا حرام تھا جبکہ شریعت عیسوی میں وہی چیز حلال ہوگئی کسی شریعت میں سجدہ تعظیمی جائز تھا جبکہ شریعت محمدی علی صاحبھا الصلاۃ التسلیم میں حرام ہوا ہے تو یہ بھی بدلاؤ ہی ہے آج دن تک مسائل میں حالات کے اعتبار سے بدلاؤ ہوتا ہے کیا یہ بھی قبیح فعل ہے جبکہ اس کو احسن قرار دیا ہے بس بات وہی ہے لیکن جگہ الگ ہے تو بدلاؤ کوئی بری چیز نہیں ہے بلکہ احسن اور بقا کا ضامن ہوتا ہے اگر باقی رہنا ہے تو بدلنا ضروری ہے ورنہ فنا کا انتظار کریں
برکت خان امجدی
خادم ۔۔ دارالعلوم معین الاسلام شیخ نگر پیپاڑ جودھپور