حضور تاج الشریعہ اختر رضا خان ازہری بحیثیت نثر نگار
حضور تاج الشریعہ اختر رضا خان ازہری قادری فاضلِ بریلوی ؒ جہاں ایک قادر الکلام شاعر ہیں، وہیں ایک اچھے انشا پرداز بھی ہیں ان کی نثری خدمات متعدد کتابوں پر مشتمل ہیں، ان میں مذہبی مسائل اور فتاویٰ کو بنیادی حیثیت حاصل ہے، فنی موضوعات میں علمی زبان کا استعمال ہوتا ہے مگر اس کے باوجود ان کی کتب کا مطالعہ کرنے سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ہر موضوع پر ادیبانہ اسلوب اختیار کرنے پر قدرت رکھتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں سلاست و روانی پائی جاتی ہے۔ دینی اور مذہبی تصنیفات اور فتاوی میں حسن تحریر اور لطف انشا پیدا کرنا مشکل کام ہے مگر حضرت کی تحریروں میں دین و شریعت کے حوالے ہی سے سیاسی، معاشرتی اور ادبی نوعیات کے بھی کچھ مسائل کے جوابات ہیں، نیز باطل عقائد ونظریات اور بد مذہب کے رد و تعاقب پر بھی تحریرات ہیں لہذا حضرت نے مسائل و موضوع کی مناسبت سے اسلوب اختیار کر لیا ہے اور انہیں کے حوالے سے ان کی تحریروں میں نثری جمال و جلال کی جلوہ گری موجود ہے۔ حضرت کے کچھ نثری نمونے ملاحظہ کیجئے۔ جب قرآن کی تلاوت کی جائے تو شرع کا حکم ہے کہ خاموشی سے سنو سامع کب چپ ہوگا اس مفہوم کو حضرت بڑی سادگی کے ساتھ بیان کرتے ہیں:
”قرآن سننے میں سعی کرو اور طلب وسعی سماع، نام ہے قصد سماع کا اور قصد وارادہ فعل پر مقدم ہوتا ہے تو لا محالہ قرآن نے قریب تلاوت سامعین کو پہلے ہی سے مستعد سماعت رہنے کا حکم دیا اور اس لئے کہ انصات (چپ رہنا) بلکہ ہر مخل استماع سے باز رہنا لازم، لہذا ثابت ہوا جب قاری تلاوت کے لئے مستعد ہو جب ہی سے سامع پر انصات فرض ہے“۔ اس میں عربی الفاظ اور تراکیب فارسی کی آمیزش ہے، پھر بھی استدلال حکم میں رواں ہے اورنتیجہ پر پہنچنے میں کوئی دشواری بھی نہیں ہے“۔
حضرت بڑے سادے انداز میں منظر نگاری کا منظر نامہ پیش کرتے ہیں جو ایک صاحب طرز ادیب کا کمال ہے۔ وہ اپنی کتاب ”ہجرت رسول“ میں اس کی منظر کشی کرتے ہیں۔رسول اکرم ﷺ ہجرت کے لئے روانہ ہو گئے اور کفار قریش دارالندوہ کے مشورے کے مطابق آپ کو قتل کرنے کے لئے آپ کے گھر کو گھیرے رہے،مولانا لکھتے ہیں: ”مشرکین نے رات یوں کائی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر اقدس پر سوئے ہوئے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی چوکسی کرتے رہے اور انہیں گمان یہ تھا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اسی حال میں ان کے پاس کوئی جوان ان کے ساتھ نہ تھا آ کر بولا یہاں کیا انتظار کر رہے ہو؟ وہ بولے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی راہ دیکھتے ہیں، اس نے کہا اللہ تعالیٰ نے تمہیں ناامید کیا۔ خدا کی قسم وہ تو تمہارے سامنے سے گئے اور تم میں کسی کو نہ چھوڑا جس کے سر پر خاک نہ ڈالی ہو“۔
اسی طرح حضور تاج الشریعہ اچھی نیت اور بری نیت کے تعلق سے ایک حکایت نقل کر کے استدلال میں اچھی نیت اور بری نیت کے ثمرات کو بڑے اچھوتے اور دل نشیں انداز میں لکھتے ہیں، جو حکایت نگاری کی حسن ادا کے پیچ وخم کو اجا گر کرتی ہے اور ساتھ ہی اس سے قوت استدلال پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ حضور تاج الشریعہ ؒکے اس ادیبانہ اسلوب کو ملاحظہ کیجئے: ”نوشیرواں ایک مرتبہ شکار پر اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گیا اور ایک باغ میں جا پہنچا وہاں ایک بچے سے کہا مجھے انار دے تو اس بچے نے اسے انار دیا، نوشیرواں نے اس کے دانوں سے بہت سا رس نکالا جس سے اس کی پیاس تھم گئی، اب باغ اس کو پسند آیا اور دل میں باغ کو اس کے مالک سے لینے کی ٹھان لی اور پھر اس بچے سے دوسرا انار مانگا، اب یہ انارکٹر وا، خشک اور کم رسیلا نکلا تو نوشیرواں نے بچے سے اس کا ماجرا پوچھا تو اس بچے نے کہا شاید بادشاہ نے ظلم کا ارادہ کر لیا ہے۔ یہ سننے کے بعد نوشیرواں کا دل ظلم کے ارادے سے باز آیا اور اس نے اس بچے سے تیسرا انار مانگا تو اسے پہلے سے بھی زیادہ خوشتر پایا تو بچے نے کہا شاید بادشاہ نے ظلم سے تو بہ کر لی۔
اب حضرت اس کے بعد رقم طراز ہیں:”معلوم ہوا کہ نیت کے اثرات بہر حال مرتب ہوتے ہیں۔ نیت اچھی ہو تو اس کے اچھے اثرات ظاہر ہوتے ہیں اور نیت بُری ہو تو بڑے اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔ دیکھو! نوشیرواں کا فر کو اس کی حسن نیت کا فائدہ ہوا اور جب مجر دنیت کا یہ عالم ہے تو نیت کے ساتھ عمل بھی پایا جائے تو اس کے نتائج بھی ضرور ظاہر ہوں گے، اچھی نیت کے ساتھ اچھا عمل نتیجہ دکھائے گا اور بری نیت سے جو عمل ہوگا وہ بُرا اثر دکھائے گا۔ اس حکایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ طاعت صلاح عالم کا سبب ہے اور کا فراگر چہ طاعت کا اہل نہیں اور نہ اس کا کوئی عمل صحیح ہے لیکن جب اس کی حسن نیت کا دنیا میں یہ اثر ظاہر ہوا جو اس حکایت سے صاف معلوم ہوا تو اولیائے کرام جو مجسم اللہ ورسول کے حکم کی عملی تصویر ہیں، ان کے افعال حسنہ صلاح عالم میں کیسا دخل رکھتے ہوں گے وہ اس حکایت سے ظاہر ہے۔
صاحب طرز ادیب اور انشا پرداز حضرات کے تحریری کمالات و حسن میں ایک اسلوب چلا آ رہا ہے کہ وہ نثر میں جن باتوں کو بیان کرتے ہیں اسی کا خلاصہ ایک شعر میں تحریر کے آخر میں کر دیتے ہیں یا ایک مصرعے سے اشارہ کرتے ہیں اور کبھی کبھی ایسا کرتے ہیں جو انہیں نثر میں لکھنا ہوتا ہے اسی مفہوم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک شعر سے اس کا آغاز کرتے ہیں۔ یہ انداز اسلوب قدیم وجدید دونوں ادبا کی تحریروں میں جابجا ملتی ہیں۔
حضرت کے یہاں بھی یہ اسلوب ان کی تحریروں میں دکھائی دیتا ہے۔ بڑے دل نشیں انداز بیان میں رقمطراز ہیں: ”حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی روح، تمام روحوں کی آنکھ کی پتلی اور ان کی اصل اور ان کے وجود کی بنیاد اور اللہ کی پہلی مخلوق ہے، نیز حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی روح ہیں جو وجود میں وضع کی گئی ہے جس سے اس کی بقا ہے اگر حضور نہ ہوں عالم فنا ہو جائے“:
وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو
جان ہیں وہ جہان کی جان ہے تو جہان ہے
اسی میں ایک مقام پر مدمقابل کو مخاطب کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”کیوں معترض بہادر صاحب! اپنے پیر کے لئے اللہ سے حقیقی مکالمہ ثابت کرنا تو عین ایمان ہے۔ پیر کا عالم قدس کی اشیائے غیبیہ کا اپنی آنکھوں سے دیکھنا تو تمہارے امام کے نزدیک شرک نہیں۔ ہاں! محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غیب کی خبر جاننا بھی شرک ہے ہے“:
اللہ رے خود ساختہ قانون کا نیرنگ
جو بات کہیں فخر وہی بات کہیں نگ
معترض صاحب کے دعوے کو دلائل سے رد کرتے ہوئے مصرعے سے کس طرح نثری مفہوم کو اختتام میں اس کے مال کو بتاتے ہوئے استعمال کرتے ہیں، ملاحظہ کیجئے:
”معترض بہادر صاحب! اب تو کھل گیا کہ آپ نے یہ کہہ کر رد کر دیا تھا کہ الفاظ کا ترجمہ بھی نہیں ہوسکتا وہ وجوہ قرآن میں سے ایک وجہ ہے جسے ایسے جلیل القدر علما نے افادہ فرمایا ہے، معترض بہادر صاحب اب کہئے یہ اعتراض تو امام احمد رضا پر نہیں، علما پر نہیں بلکہ خود قرآن پر ہو گیا اور آپ کی قرآن فہمی اور پیروی سلف کا بھرم کھل گیا۔ مگر یہ کہ۔:بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا۔
اسی طرح ایک مقام پر لکھتے ہیں: ہاں ان سب علما کو ان حضرات کے ترجمے دکھائیے اور ان سب سے کہئے کہ آپ سب پر ہمارے حضرات کی پیروی لازم ہے، یہ منہ اور پیروی سلف کا دعوی۔: شرم تم کو مگر نہیں آتی۔
حضرت نے آغاز مضمون میں شعر کا استعمال کیا ہے: وہ لکھتے ہیں:
ہند کے بادشاہ دین کے وہ معین
خواجہ دین وملت پہ لاکھوں سلام
سرکار خواجہ ہند غریب نواز رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی عقیدت و محبت اور آپ کی ذات والا صفات سے وابستگی خوش عقیدہ اور وفا کیش عام مسلمانوں کا شیوہ رہا ہے اور ہمیشہ ہر دور میں صرف ملکی نہیں بلکہ پورے عالم اسلام میں یکساں طور پر اس کا اثر محسوس کیا گیا ہے۔ آپ کی موثوق اور متوازن شخصیت کا ہر دور میں اہل علم و فضل اور اہل تصوف نے لو ہا مانا اور آپ کی دینی خدمات کا سب نے دل سے اعتراف کیا اور سراہا، یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ملک ہندوستان میں جو آج ہر چہار جانب نورا ایمان کی شمع فروزاں اور اسلام کا بول بالا ہے وہ سب خواجہ غریب نواز کی دین ہے۔
علمی سطح پر آپ کی تحریریں اور قلمی آثار علمی و تحقیقی ایجاد کا خوبصورت رنگ لئے رہتی ہیں باتیں نپی تلی اور پتے کی ہوتی ہیں مضامین کی فراوانی بھی خوب ہوتی ہے لیکن مفہوم کی اور مضامین کی تفہیم کہیں بھی متاخر نہیں ہوتی جن کا امتیازی وصف تحقیق و تدقیق ہوتا ہے، سرعت تحریر میں اپنا جواب آپ رکھتے ہیں۔ یقینا آپ کا علمی شاہکا را اپنی ایک ادبی حیثیت رکھتا ہے۔ اور اردو ادب کے سرمایہ میں گرانقدر اضافہ ہے۔
اسی تناظر میں ٹائی کا مسئلہ سے ایک اقتباس ملاحظہ کیجئے: ”اور کراس اور شبیہ کر اس عیسائیوں کا مذہبی نشان ہے تو ٹائی کو کر اس مانو شبیہ کر اس ما نو بہر صورت وہ عیسائیوں کا مذہبی شعار ہے اور جو چیز کافروں کا مذہبی شعار ہو وہ ہرگز روانہ ہوگی اگر چہ معاذ اللہ کیسی ہی عام ہو جائے“۔
اہل بصیرت کو تو خود ٹائی کی شکل سے اس کا حال معلوم ہو گیا، مگر اس کی عیسائیوں کے یہاں اتنی اہمیت ہے کہ مردہ کو بھی ٹائی پہناتے ہیں، تو ضرور ی ان کا مذہبی شعار ہے جو مسلم کے لئے حرام اور باعث عارونا ر ہے۔ مسلمانوں کو اس کی ہرگز اجازت نہیں ہوسکتی، ان کے اوپر لازم ہے کہ اس سے شدید احتراز کریں اور شرٹ پتلون وغیرہ بھی نہ پہنیں کہ صلحا اور دینداروں کا لباس نہیں، مسلمانوں پر لازم ہے کہ اپنی تہذیب کہ سنتِ سرکارعلیہ الصلاۃ والسلام اور بزرگان دین کی نیک
محمد فداء المصطفیٰ گیاوی ؔ
روش اور ان کی وضع ہے زندہ سلامت رکھے اور اسے ملا زمت وغیرہ کے لئے ہرگز نہ چھوڑے اور اللہ عزو جل پر بھروسہ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتماد ر کھے اور اغیار کی طرف ان ناروا قیود کی سختی سے مخالفت کرے بالآخر کامیابی مسلمان کو ملے گی کہ اللہ رب العزۃ کا وعدہ ہے:(یا أیھا الذین آمنوا إن تنصرو اللہ ینصرکم)ترجمہ: ’’اے ایمان والو! اگر تم اللہ کے دین کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا“۔ (پارہ 26،سورہ محمد، آیت: 8)۔ لہذا ہرگز ایسی ملازمت یا عہدہ قبول نہ کرے جس میں ٹائی وغیرہ ناجائز شرطوں پر مجبور کیا جائے کہ دین کے معاملہ میں مداہنت و نرمی سخت زہر ہے۔ اور اللہ عزوجل کی ناراضگی کا باعث ہے اور معاذ اللہ اگر خدا ناراض ہو جائے تو خدائی میں کوئی مددگار نہ ہوگا۔
اور اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے: قال اللہ تعالی:(وإن یخذلکم فمن ذا الذی ینصرکم من بعدہ)۔ ترجمہ: ”اور اگر وہ تمہیں چھوڑ دے تو ایسا کون ہے جو پھر تمہاری مدد کرے (پارہ 4، سورہ آل عمران، آیت: 160)۔ٹائی شعار نصاری ہونے پر بذات خود شاہد عدل ہے، تو اب اس کے ہوتے مزید کسی شہادت کی ضرورت نہیں اور کسی شاذ و نادر کا انکار اصلا مضر نہیں تا ہم اس پر مومن و کافر سب متفق ہیں کہ یہ نصرانیت کا شعار ہے، جیسا کہ بارہا متعد دلوگوں سے استفسار پر ظاہر ہوا“۔
میں نے یہ سارا کا سارا اقتباس علامہ مصباح الفقہاء مفتی یونس رضا مونسی اویسی کی کتاب ”سوانح حضور تاج الشریعہ“ سے لی ہے تاکہ اہل علم اور اردو داں حضرات کو حضو راختر رضا ازہری قادری ؒ کی نثر نگاری اچھی طرح سمجھ میں آجائے اور منکرین بھی اس سے معترف ہوجائیں کہ یقینا تاج الشریعہ کسی عام ہستی کا نام نہیں بلکہ وہ تو زمانے کے معتبر شخصیات میں سے ایک عظیم المرتبت ہستی ہیں جن کی تاریخ کبھی بھی ختم نہیں ہو سکتی ہے۔ اور میں یہ یہاں اس وجہ سے ذکر کر رہا ہوں تاکہ جو حضرات حضور تاج الشریعہ ؒ کے خلاف ہیں اور طرح طرح کے الزامات لگا کر مذہب اسلام کو نست و نابود کرنے کی کوشش کررہے ہیں وہ جان لیں ہم مسلک اہل سنت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی ؒ کے ماننے والے ہیں اور ہر جانب بس ایک ہی نعرہ لگے گا:۔
بستی بستی قریہ قریہ تاج الشریعہ تاج الشریعہ
علم کا ساغر فیض کا در یا تاج الشریعہ تاج الشریعہ
محمد فداء المصطفیٰ گیاوی ؔ
رابطہ نمبر:9037099731
ڈگری اسکالر: دارالہدی اسلامک یونیورسٹی، ملاپورم،کیرالا
رابطہ نمبر:9037099731
ڈگری اسکالر: دارالہدی اسلامک یونیورسٹی، ملاپورم،کیرالا