سوشل میڈیا: فساد، اسباب اور علاج
از قلم: محمد توصیف رضا قادری علیمی
سوشل میڈیا ایک ایسا غیر منظم بازار ہے، جس میں جاہلوں کی کثرت ہے، اگر کوئی اچھی اور سنجیدہ گفتگو ادب کے دائرے میں بھی کرتا ہے توبہت سے عالم نما جاہل، بازاری حرکتوں پر اتر آتے ہیں، جن کی باتیں بے سروپا ،دلیل سے خالی اور مغلظات سے بھر پور ہوتی ہے۔
بسا اوقات تو یہ لوگ اس حد کو پہنچ جاتے ہیں کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کفر و فسق اور گمراہی کی مشین گن لیے بیٹھے ہوں۔ قسم خدا کی ایسے لوگ اپنے موافق و مخالف دونوں گروپس میں صرف نفرت پھیلاتے ہیں۔۔۔
سچ کہا ہے کسی نے کہ کسی کے سامنے اپنے محبوب کی اتنی تعریف نہ کرو کہ مخاطب کے دل میں نفرت پیدا ہو جائے ۔ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ عقل کا لبادہ اوڑھیں، پہلے سوچیں پھر بولیں، نہ کہ بول کر سوچیں اور اللہ کا خوف کریں۔ اللہ پاک ہم سب کو عقل سلیم عطافرمائے ۔
۔۔۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سوشل میڈیا پر یہ چیزیں دن بدن بڑھتی جا رہی ہیں، اس کی بہت سی وجوہات ہیں، اس میں سے ایک یہ کہ سوشل میڈیا کو استعمال کرنے والا شخص جب اپنے موقف کے بر خلاف کوئی بات دیکھتا ہے تو وہ اپنے موقف کے دفاع کے چکر میں جلد بازی کا شکار ہوجاتا ہے اور وہ کچھ لکھ بیٹھتا ہے جو مناسب نہیں ہوتا ۔
لیکِن مجھے حیرت اس وقت ہوتی ہے جب معتبر و ذمہ دار علما و دانشوران محض تعصب وانانیت کے سبب مسلمہ حقائق سے منہ موڑ لیتے ہیں اور متعلقہ معلومات کے مثبت پہلو پر نظر کرنے کے بجائے منفی پہلو کو لے کر لڑ پڑتے ہیں اور حد تو یہ ہے بد تمیزی پر اتر آتے ہیں بالآخر نتیجہ کچھ نہیں نکلتا۔ یہی اسباب ہیں کہ سوشل میڈیا پر بد زبانی اور عدم قبول و برداشت کا گراف اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔
*شازش؛*
کچھ لوگ صرف نفرت پھیلانے کی نیت سے نقلی آئی ڈی بنائے ہوئے ہیں اور نفرت کو ہوا دیتے ہیں جو رفتہ رفتہ بھیانک آگ کی شکل اختیار کر جاتی ہے اور چند سیاسی پارٹیاں بھی اس طرح کا کام کررہی ہیں۔۔
حد تو یہ ہے کہ باقاعدہ لوگوں کو تنخواہوں پر رکھا گیا ہے کہ وہ اس طرح کے پیغامات کو عام کریں جس سے لوگ بھڑک اٹھیں، مثلاً : نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی شان میں گستاخی، کسی مندر یامسجد پر نازیبہ بیان، کسی مذہب و مشرب پر انگشت نمائی وغیرہ ۔
اور کچھ لوگ شہرت پانے کی خواہش میں بھی کسی مشہور شخصیت پر کیچڑ اچھالتے ہیں تاکہ وہ مشہور ہو سکیں۔۔۔۔ اس طرح سوشل میڈیا کے ذریعے بد زبانی اور عدم قبول و برداشت کا گراف نہ صرف بڑھا ہے بلکہ بد تمیزی کی شکل اختیار کرکے اپنے عروج پر پہنچ گیا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ سوشل میڈیا حصول معلومات کا ایک اہم ذریعہ ہے اور اس کے توسط سے بہت سارے مثبت اور اچھے کام بھی ہورہے ہیں لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ اسی سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر انسانیت اور اخلاق و اخلاص کا جنازہ اٹھتا ہوا نظر آتا ہے۔
اسباب
(1) مہار آزادی: اس کی بنیادی وجہ سوشل میڈیا کی بے مہار آزادی ہے، جنھیں اپنے گھر میں دووقت کی روٹی میسر نہیں تھی انھیں سوشل میڈیا پرکنٹرول مل گیا ہے اس لیے یہ تو ہوناہی تھا ۔
(2) علم کی کمی: زیادہ تر کم علم علما اور طلبہ ہی سوشل میڈیا پر ہیں، ذی علم اولاً تو اس میں بہت ہی کم ہیں ،جو ہیں بهی تو بہت کم دوسرے کے منہ لگتے ہیں ۔
(3) ناقص مطالعہ: عام طور پرسوشل میڈیا میں جو معلومات شئیر کی جاتی ہیں ان کا اگر مکمل توجہ سے مطالعہ و معائنہ نہ کیا جائے توان کے کئی پہلو نظر آتے ہیں اور مطلب کچھ کا کچھ نکلنے لگتا ہے،
(4) جذباتی: سوشل میڈیا کے پوسٹ میں کاپی پیسٹ اور ایڈیٹنگ کا اچھا خاصا دخل ہوتا ہے، مگر عدم شعور وفہم کے حاملین شئیر شدہ معلومات کی اصل حقیقت کو جانے بغیر پوسٹ کے مطابق مذہبی، مسلکی، سیاسی، سماجی یا شخصی طور پر جذباتی ہو جاتے ہیں، اور پھر جو سمجھ میں آتا ہے پوسٹ کر ڈالتے ہیں
(5) ہوائے نفس، انانیت، دینی تعلیم و تربیت کا فقدان، چھوٹوں پر شفقت اور بڑوں کی تعظیم کا نہ ہونا ، اکابر کا گروہ در گروہ میں بٹ جانا، دینی قائد کا فقدان، تنقید کا برائے تخریب ہونا، اور دینی کام کو تجارتی نقطۂ نظر سے دیکھنا ۔ یہ وہ تمام اسباب ہیں جن کی وجہ سے سوشل میڈیا پر بدزبانی عام ہو رہی ہے ۔
علاج
(1) اختلافی مسائل: شوشل میڈیا میں اختلافات پر گفتگو کبهی نہ نتیجے تک پہنچی ہے اور نہ پہنچنا ممکن ہے (جیسا کہ ٹی وی چینلوں کے مباحث سے اندازہ لگایا جاسکتا) لہذا اس سے پرہیز کیا جائے۔
(2) دوسروں کے جذبات سے کهیلواڑ: کسی مقبول شخصیت کی بشری کمزوریوں کو سوشل میڈیا کے ذریعے عام کرنے کی مذموم کوشش بهی ایک بڑا سبب ہے،کمی کس میں نہیں،ہمیں اس بات پر نظر رکھنی چاہیے کہ خوبیاں کس میں زیادہ ہیں ۔
(3) فطری کمزوری: کچھ لوگوں کی عادت ہی بد زبانی ہے،وہ کہیں بھی ہوں اپنا رنگ دکھانا نہیں بھولتے،ایسے لوگوں کو بلاک کرنے میں ہی بهلائی ہے ۔
(4) احساس کمتری: شوشل میڈیا پر یہ چیز عام ہے کہ اگلے کے اثر و رسوخ اور مقبولیت کو ختم کرنے کے لیے بندہ بد زبانی کا سہارا لینے لگتا ہے (گالی گلوج اور طعن و تشنیع تک پہنچ جاتا ہے) اس میں کچھ ایسے مسائل بھی ہوتے ہیں جس میں غیروں کو اور زیادہ موقع مل جاتا ہے لہذا اس سے بچنا لازمی ہے۔
(5) محقق کا نشا: کچھ لوگ سوشل میڈیا پر محقق بننے کے لیے کوشاں رہتے ہیں، شہرت کی پگڑی پہننے کے لیے سعی و کوشش میں لگے رہتے ہیں، کبھی کبھار تو ایسی بات لکھ دیتے ہیں کہ دوسرے کی عقیدت کو کافی ٹھیس پہنچتی ہے اور اس سے نفرت کا بازار گرم ہو جاتا ہے لہذا ایسے غیر ذمے دار محققین کی نشان دہی کی جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حق کہنے، لکھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
از قلم: محمد توصیف رضا قادری علیمی
(بانی الغزالی اکیڈمی و اعلیٰحضرت مشن، آبادپور تھانہ (پرمانک ٹولہ) ضلع کٹیہار بہار، الھند: متعلم دارالعلوم علیمیہ جمدا شاہی،بستی۔ یوپی،۔۔۔۔شائع کردہ: ۱۲/اگست/۲۰۲۲)*