شاہِ سمناں کے حضور
از: توفیق احسن برکاتی
روح والو، درِ اشرف پہ چلو عزم کریں
عشق و عرفان کی بستی میں کوئی بزم کریں
یہ کچھوچھہ کی زمیں رکھتی ہے تشبیہِ فلک
بارشِ نور میں لگتی ہے طریقت کی جھلک
حضرتِ سیدِ مخدوم کا روضہ ہے یہاں
سر خمیدہ ہے یہاں روح کا تابندہ جہاں
ملکِ سمناں کی شہنشاہی کو چھوڑا جس نے
نفس میں جاگزیں اصنام کو توڑا جس نے
علم و عرفان کا اک بحرِ رواں ذات ان کی
دل کی دنیا کو بدل دیتی ہے ہر بات ان کی
ان کی روحانی عدالت میں مقید ہے وبا
ان کے دربار سے ملتی ہے مریضوں کو شفا
زور آور کوئی جن ہو کہ ہو آسیب و بلا
بے سہارا کوئی ہو یا کہ ستم کا مارا
ان کے دربار میں ہوتا ہے علاجِ امراض
پورے ہوتے ہیں یہاں لوگوں کے جائز اغراض
اشرف و افضل و اعلیٰ ہے نسب بھی ان کا
رب کے فیضان سے رتبہ بھی ہے پایا اونچا
علمِ قرآن و شریعت کے وہ عالم بھی تھے
راہِ عرفان و طریقت میں وہ سالم بھی تھے
ان کے الفاظ میں تھا بحرِ معانی پنہاں
فکر و احساس میں ملتا ہے نگارِ ایماں
کشتِ ویران کو اسلام کی نکہت بخشی
راہِ احساس کو منزل کی قرابت بخشی
اک نگہ ڈال کے دنیا ہی بدل دیتے ہیں
دور والے کو بھی وہ پاس بلا لیتے ہیں
کاش ہم نقشِ قدم دیکھ کے چلتے جائیں
عشق و عرفان کی اک تیز نگاہی پائیں
روحِ احسن پہ ہو روحانی کرم کی بارش
پائے خامہ بھی یہ تزئینِ ادب کی تابش
از: توفیق احسن برکاتی
استاذ الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور
27/ محرم الحرام 1443ھ