شب برات یعنی نجات کی رات
از قلم:
غلام مصطفی رضا نظامی
بست پور سرلاہی نیپال
،شعبان المعظم ہجری سال کا آٹھواں مہینہ ہے حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ روزہ دار کی نیکیوں میں درخت کی شاخوں کی طرح اضافہ ہوتا ہے یہ عربی زبان کا لفظ "شعب” سے بنا ہے جس کا معنی تفرق، پھیلانا اور شاخ در شاخ ہونا ہیں اس مہینے میں بکثرت خیر و برکت کا نزول ہوتا ہے حضرت انس بن مالک سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شعبان کو شعبان اس لیے کہا جاتا ہے کیوں کہ اس ماہ میں احترام رمضان کی وجہ سے بہت سی نیکیاں پھیلتی ہیں اور اس ماہ میں روزہ داروں کی نیکیوں میں درختوں کی شاخوں کی طرح اس قدر اضافہ ہوتا ہے کہ وہ جنت میں داخل ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے اس ماہ کو شعبان کہا جاتا ہے اور اس کے پندرہویں تاریخ کو شب برات کہتے ہیں
شب برات دو زبانوں کے دو لفظ سے مل کر بنا ایک جملہ ہے جس کا معنی ہے نجات کی رات_ شب یہ زبان فارسی کا لفظ ہے جس کا معنی ہوتا ہے لیل یعنی رات اور برات یہ زبان عربی کا لفظ ہے جس کا معنی ہوتا ہے نجات، آزادی، چھٹکارہ_ اب سوال یہ ہوتا ہے کہ اس رات کو شب برات ہی کیوں کہتے ہیں؟ تو اس کو شب برات اس لیے کہتے ہیں کیونکہ اس رات میں اللہ تعالی قبلہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کو جنہم سے نجات دیتا ہے_ جیسا کہ حضرت عائشہ سے مروی ہے آپ فرماتی ہیں: ایک رات میں نے حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو نہ پایا تو میں حضور کی تلاش میں نکلی تو آپ مجھے جنت البقیع میں مل گئے_ نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں رات آسمان دنیا پر تجلی فرماتا ہے پس قبیلۂ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کو بخش دیتا ہے۔ (ترمذی شریف جلد ۲، صفحہ۱۸۳)
بنو کلب ایک عرب قبیلہ تھا جو بنیادی طور پر شمال مغربی عرب اور وسطی شام کے صحرا اور میدان میں رہتا تھا یہ بازنطینی سلطنت کے مشرقی سرحدوں کی قبائلی سیاست میں شامل تھا ممکنہ طور پر چوتھی صدی کے اوائل میں چھٹی صدی تک کلب نے بڑی حد تک عیسائیت کو اپنا لیا تھا اور وہ بازنطینیوں کے عرب اتحادیوں کے رہنما غسانیوں کے اختیار میں آگئے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے دوران ان کے چند قریبی ساتھی کلبی تھے جن میں سب سے نمایاں طور پر زید بن حارثہ اور دحیہ تھے لیکن ٦٣٢ء میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت قبیلے کا بڑا حصہ عیسائی ہی رہا مسلمانوں نے بازنطینی شام کی فتح میں نمایاں پیش رفت کی تھی تمام قبائل عرب میں قبیلہ بنو کلب سب سے زیادہ بکریاں پالتا تھا
درود پاک پڑھنا افضل ترین اعمال میں سے ایک عمل ہے اور ماہ شعبان المعظم کو درود پاک پڑھنے کا مہینہ بھی کہا گیا ہے چنانچہ امام قسطلانی قدس سرہ نقل فرماتے ہیں: بے شک شعبان کا مہینہ نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پر درود شریف پڑھنے کا مہینہ ہے_ اس ماہ کو درود شریف پڑھنے کا مہینہ کہے جانے کی کئی وجہ ہیں اس میں سے ایک یہ ہے کہ آیت کریمہ: "اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ” بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں_ اے ایمان والو! ان پر درود اور خوب سلام بھیجو_
(سورة الاحزاب آيت ٥٦)
اس آیت کریمہ میں اللہ تبارک وتعالی نے ایمان والو سے نبی پر خوب درود و سلام بھیجنے کا حکم دیا اور یہ آیت اسی ماہ شعبان میں نازل ہوئی ہے
شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی اس ماہ میں اپنے بندوں کو چار چیزیں عطا فرماتا ہے (۱) بندوں کے لیے نیکیوں کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور برکتوں کا نزول ہوتا ہے_ (۲) گناہ گار کو چھوڑ دیا جاتا ہے_ (۳) برائیاں مٹا دی جاتی ہے_ (٤) مخلوق میں سب سے افضل اور بہترین ہستی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ بے کس پناہ میں کثرت سے ہدیہ درود و سلام پیش کیے جاتے ہیں_ (غنیة الطالبين)
اعلی حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے انتہائی عقیدت و محبت کے ساتھ بذریعہ اشعار بارگاہ رسالت میں درود و سلام کا ہدیہ پیش کیا ہے آپ فرماتے ہیں:
مصطفٰی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمعِ بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام
شبِ اسریٰ کے دولھا پہ دائم درود
نوشۂ بزمِ جنت پہ لاکھوں سلام
اور فرماتے ہیں:
کعبہ کے بدرُالدُّجیٰ تم پہ کروڑوں درود
طیبہ کے شمس الضُّحیٰ تم پہ کروڑوں درود
شافعِ روزِ جزا تم پہ کروڑوں درود
دافعِ جملہ بلا تم پہ کروڑوں درو
تاریخ شاہد ہے کہ ہر دور میں اسلام کے مخالفین کی تعداد بکثرت رہی ہے اور اس نے اسلام کو منہدم کرنے کے لیے ہر طرح کی صورت کو استعمال میں لایا ہے_ کبھی ختم نبوت کو کرنے کی کوشش کی تو کبھی اہل بیت اطہار کے عزت و عصمت کو پامال کرنا چاہا انہیں میں سے ایک گروہ نے شب برات کو بدعت، گمراہی اور کفریہ عقائد سے تابیر کیا ہے_ جب کہ اس رات کی عظمت و رفعت کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اللہ تبارک وتعالی فرماتا ہے: "حٰمٓ وَ الْكِتٰبِ الْمُبِیْنِ اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ اِنَّا كُنَّا مُنْذِرِیْنَ فِیْهَا یُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِیْمٍ اَمْرًا مِّنْ عِنْدِنَاؕ-اِنَّا كُنَّا مُرْسِلِیْنَ” حم۔ اس روشن کتاب کی قسم۔ بیشک ہم نے اسے برکت والی رات میں اتارا،بیشک ہم ڈر سنانے والے ہیں ۔ اس رات میں ہر حکمت والا کام بانٹ دیا جاتا ہے۔ ہمارے پاس کے حکم سے ،بیشک ہم ہی بھیجنے والے ہیں_ (سورة الدخان آيت ١ تا ٥) مذکورہ آیات مبارکہ میں کونسی مبارک رات مراد ہے اس کے متعلق علماء امت کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ اس سے مراد شب برات ہے جیسا کہ شیخ احمد بن محمد صاوی نے مبارک رات سے شعبان کی پندرہویں رات مراد ہانے کے متعلق لکھا ہے: "ھو قول عكرمة و طائفة ووجه بامور منها ان ليلة النصف من شعبان لها اربعة اسماء: الليلة المباركة و الليلة البرأة و الليلة الرحمة و الليلة الصك” حضرت عکرمہ اور مفسرین کی ایک جماعت کا بیان ہے کہ برکت والی رات سے مراد شعبان کی پندرہویں شب ہے اور یہ توجیہ چند امور کی وجہ سے قابل قبول ہے ان میں سے ایک یہ کہ پندرہویں شعبان کے چار نام ہے (۱) مبارک رات (۲) نجات کی رات (۳) رحمت والی رات (٤) انعام والی رات (حاشیہ الصاوی علی الجلالین جلد ٤ صفحہ ۵۷)
اس مبارک رات کے متعلق قرآن مجید میں آیا ہے: "فیہا یفرق کل امر حکیم” اس میں ہر حکمت والا کام بانٹ دیا جاتا ہے (سورة الدخان آيت ٤)
ایک شبہ کا ازالہ: اللہ تبارک وتعالی نے سورہ دخان کے اندر فرمایا: "انا انزلنہ فی لیلۃ مبرکۃ” کہ بےشک ہم نے اسے مبارک رات یعنی شب برات میں نازل فرمایا جب کہ سورہ قدر کے اندر فرمایا: "انا انزلنہ فی لیلۃ القدر” کہ بےشک ہم نے اسے شب قدر میں نازل فرمایا اس طرح ذہن میں ایک شبہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک قرآن دو راتوں میں کیسے نازل ہوا؟ تو اس کی حقیقت یہ ہے کہ شب برات میں قرآن مجید اتارنے کی تجویز ہوئی اور شب قدر میں آسمان اول پر اتارا اور پھر تیئیس سال تک تھوڑا تھوڑا کرکے دنیا میں اترتا رہا (فضائل رمضان صفحہ ۲۳)
شب برأت كى فضيلت: شب برات وہ عظیم رات ہے جس میں ایک سال تک کے تمام پیدا ہونے والے اور تمام مرنے والے کو لکھ دیا جاتا ہے اور تمام اعمال اٹھا لیے جاتے ہیں اور تمام کے رزق اتار دیے جاتے ہیں جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ نبی اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: کیا تم جانتی ہو کہ اس رات یعنی پندرہویں شعبان کی رات کو کیا ہے؟ آپ فرماتی ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں کیا ہے؟ تو حضور نے ارشاد فرمایا: اس رات میں اس سال تمام پیدا ہونے والے بچے لکھ دیے جاتے ہیں اور اس سال مرنے والے سارے انسان لکھ دیے جاتے ہیں اور اس رات ان کے اعمال اٹھائے جاتے ہیں اور ان کے رزق اتارے جاتے ہیں_ (مشکوۃ المصابیح جلد ۱ صفحہ ۲۵٤)
شب برات کو قیام کرنا اور دن میں روزہ رکھنے کا حکم حدیث پاک سے ثابت ہے اور یہ رات غفلتوں میں گزارنے کا نہیں بلکہ عبادت و ریاضت میں مشغول رہنے اور رحمت و انوار سے اپنے دامن کو بھرنے اور اعمال میں نیکیوں کے اضافہ کرنے کی رات ہے چنانچہ حضرت علی سے روایت ہے: ” عن على قال قال رسول الله صلى الله عليه وسم اذا كانت ليلة النصف من شعبان فقوموا ليلها وصوموا يومها_ فان الله ينزل فيها لغروب الشمس الى سمائ الدنيا فيقول الا من مستغفر لي فاغفر له الا مسترزق فارزقه الا مبتلى فاعافيه الا كذا الا كذا حتى يطلع الفجر” حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم سے روایت ہے آپ نے فرمایا: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب شعبان کی پندرہویں تاریخ ہو تو اس شب کو قیام کرو اور اس کے دن میں روزہ رکھو_ کیونکہ اللہ تعالی اس رات سورج ڈوبتے ہی آسمان دنیا کی طرف نزول اجلال فرماتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے: "کیا کوئی مغفرت کا طلب گار ہے کہ میں اس کو بخش دوں، کیا کوئی رزق چاہنے والا ہے کہ میں اس کو رزق عطا کروں، کیا کوئی مصیبت زدہ ہے کہ میں اس کو عافیت دوں، کیا کوئی ایسا ہے؟ کیا کوئی ایسا ہے؟ یہاں تک کہ فجر طلوع ہو جاتی ہے_