قربانی کے ایک مسئلے کی وضاحت
از: مفتی صادق مصباحی
ہمارے یہاں عام طور پر بڑے جانور کی قربانی کے سلسلے میں، مدرسے والے، لوگوں سے فی نفر کے اعتبار سے ایک متعینہ رقم لے لیتے ہیں ۔ (جب کہ قصاب، پہلے سے، جانور خرید کر رکھے ہوئے ہوتا ہے۔ وہ قربانی کرنے والوں کے نام سے جانور نہیں خریدتا) اور وقت مقررہ پر لوگوں کے نام سے قربانی کر دی جاتی ہے ۔
مسئلہ یہ ہے کہ قربانی، صحیح اور درست ہونے کے لیے، جانور کا، قربانی کرنے والے کی ملکیت میں ہونا شرط ہے۔ جیسا کہ عامہء کتب فقہ میں اس کی وضاحت ہے۔
ظاہر ہے کہ قربانی کرنے والوں کے نام سے جانور نہیں خریدا گیا، تو اس پر ان کی ملکیت بھی ثابت نہ ہوئی۔
چوں کہ یہ مسئلہ فقہ کے کئی ابواب سے متعلق ہے۔ جانور کی خریداری کا تعلق کتاب البیوع سے ہے۔ جانور قربان کرنا، کتاب الاضحیہ سے تعلق رکھتا ہے، تو قصاب کو خریداری اور کسی عالم کو اس کے ذبح کرنے کا وکیل بنانا، بابِ وکالت سے متعلق ہے۔
ایسے ہی کسی نے اپنے پیر یا عالم کے نام سے قربانی کی، تو ملکیت یہاں بھی نہیں پائی گئی ۔
تو ملکیت کے ثبوت کے بغیر، کیا محض ان کی اجازت سے قربانی ہو جائے گی ؟
چوں کہ اس مسئلہ میں حقیر کو کچھ الجھن تھی، حل کے لیے استاد گرامی حضرت محقق مسائل جدیدہ مفتی محمد نظام الدین رضوی برکاتی کی جانب رجوع کیا۔ حضرت نے بہت آسانی سے میری مشکل آسان فرمادی۔
میں نے مناسب سمجھا کہ حضرت نے جو کچھ تفہیم فرمائی، اسے حضرت کے شکریہ کے ساتھ، اپنے الفاظ میں، احباب کے ساتھ شیئر کر دوں۔ شاید ان کے کچھ کام آئے!
استاد گرامی کا جواب
یہ تمام قربانیاں صحیح اور درست ہیں؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ
قصاب نے اگر چہ جانور اپنے پیسے سے خریدا ہے اور وہی اس کا مالک ہے، لیکن اس نے بیچنے کے لیے خریدا ہے۔
تو جب کسی کے نام سے اس جا نور کی قربانی کی جاتی ہے، یعنی جب یہ متعین ہو جاتا ہے کہ اس جانور کی، فلاں کے نام سے قربانی کرنی ہے، تو جس وقت وہ جانور، ذبح کے لیے، عالم، یا قصاب کے حوالے ہو گیا ، اسی وقت جس کی طرف سے قربانی ہوتی ہے وہ اس کا مالک ہو جاتا ہے ۔
اب پیسہ خواہ اسی وقت ادا کر دیا جائے، یا اس سے پہلے ادا کیا جا چکا ہو، یا اس کے بعد ادا کیا جائے ۔
در اصل اِس وقت جو بیعیں ہوتی ہیں وہ بیع تعاطی ہوتی ہیں ۔ اور بیع تعاطی میں قبض من احد الجانبین کافی ہے۔ یعنی یا تو دام پر قبضہ ہو جائے یا سامان پر قبضہ ہو جائے۔
تو جس وقت وہ جانور کسی معین شخص کی طرف سے قربان کیے جانے کے لیے لٹایا جاتا ہے، اس وقت سب سے پہلے وہ آدمی مالک ہو جاتا ہے جس کی طرف سے اس کی قربانی ہو رہی ہے۔
چوں کہ ایک طرف سے قبضہ پا لیا گیا تو یہ بیع تام ہو گئی۔اور ملکیت ثابت ہو گئی ۔ اگر پہلے سے دام ادا کر دیا گیا ہو تو سبحان اللہ ورنہ بعد میں جب چاہیں ادا کر دیں۔
اسی طرح ، کچھ لوگ اپنے پیر کی طرف سے یا کسی بڑے عالم کی طرف سے اجازت لے کر قربانی کر لیتے ہیں، تو بظاہر یہاں تو ملکیت بلکل نہیں ہے، کیوں کہ یہاں پیر صاحب سے صرف یہ پوچھا گیا ہے کہ ایک بکرے کی آپ کے نام سے قربانی کردی جائے ؟ اور انھوں نے کہ دیا "ہاں۔” مگر ملکیت نہ پائے جانے کے باوجود یہ قربانی صحیح اور درست ہے۔
اس کی وجہ بھی وہی ہے کہ جب وہ مرید یہ متعین کرتا ہے کہ خصی یا بکرے کی قربانی، پیر صاحب یا عالم صاحب کی طرف سے ہوگی اور پھر اس جانور کو ذبح کے لیے لٹایا جاتا ہے یا ذبح کرنے کے لیے لے جایا جاتا ہے تو اب یہ متعین ہو جاتا ہے کہ وہ جانور پیر صاحب / عالم صاحب کے لیے ہے، تو اس وقت سب سے پہلے اس مرید کی طرف سے مثلاً وہ جانور پیر صاحب کے لیے ہبہ یا نذرانہ ہوتا ہے، اور چوں کہ پیر صاحب نے اجازت دے دی ہے تو یہاں قبضہ بھی پا لیا جاتا ہے۔ یعنی بطور ہبہ پیر صاحب اس پر قابض ہو گئے، اب اس کے بعد جب قربانی ہوتی ہے تو یہ قربانی صحیح ہو جاتی ہے۔
یہاں ملکیت بطور ہبہ ہے، اور پہلے مسئلے میں بیع تعاطی پائی جاتی ہے، جیسے ہی جانور کھول کر لے گئے کہ فلاں کی طرف سے ذبح کرنا ہے، تو فلاں کے لیے جانور متعین ہوتے ہی اس کے حق میں اس کی خریداری نافذ ولازم ہو جاتی ہے ۔
واللہ تعالیٰ اعلم