قدم سے قدم ملا کر کھڑے ہونے کا تحقیقی جائزہ
تحریر : شہباز احمد مصباحی
صف بندی میں قدم سے قدم ملا کر کھڑے ہونے کا تحقیقی جائزہ
نماز باجماعت کی صف بندی کے سلسلے میں احادیث کریمہ میں بڑی تاکید آئی ہے ۔ احادیث کریمہ میں خوب مل کر، برابر برابر کھڑے ہونے کو بیان کرنے کے لیے مختلف الفاظ آئے ہیں، ان کی لفظی تشریح سمجھ لینے کے بعد ان حدیثوں کو سمجھنا قدرے آسان ہوجاتا ہے؛ لہٰذا ہم پہلے حدیث بیان کرتے ہیں ، پھر ان الفاظ کی تشریح کے بعد اس طرح کی روایات کا صحیح معنی ومطلوب تک پہنچتے ہیں ۔
صحیح بخاری میں ہے:
❶ عَنْ أَنَسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ” أَقِيمُوا صُفُوفَكُمْ ؛ فَإِنِّي أَرَاكُمْ مِنْ وَرَاءِ ظَهْرِي ". وَكَانَ أَحَدُنَا يُلْزِقُ مَنْكِبَهُ بِمَنْكِبِ صَاحِبِهِ، وَقَدَمَهُ بِقَدَمِهِ.
(صحیح البخاری، کتاب الأذان ، ص: 180،رقم الحدیث: 725،ناشر : دار ابن کثیر، دمشق)
اسی میں ہے :
❷ وقال النعمان بن بشیر : رایت الرجل منا یلزق کعبه بکعب صاحبه ۔
(مرجع سابق)
ایک اور حدیث ہے:
❸ قال: أقيمت الصلاۃ فأقبل علینا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم بوجهه، قال : أقيموا صفوفکم وتراصوا ۔
(مرجع سابق ،ص: 179، رقم الحدیث: 719)
سنن ابی داؤد میں ہے :
❹ عن انس بن مالک عن رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم قال: رصوا صفوفکم وقاربوا بینھا، وحاذوا بالاعناق ،فوالذي نفسي بیدہ إني لأری الشیطان یدخل من خلل الصف کأنھا الحذف ۔
(سنن ابی داؤد، ج: ١ ،ص: ٩٧ ،کتاب الصلاۃ ، اصح المطابع)
لفظی تشریح:
ــــــــــــــــــــــــ
یلزق منکبه بمنکب صاحبه –– یلزق، فعل مضارع ،صیغہ واحد مذکر غائب ، باب: افعال، معنیٰ : وہ اپنے کندھے کو اپنے ساتھی کے کندھے سے چپکاتے تھے ۔
رصوا صفوفکم –– رصوا ،فعل امر، صیغہ جمع مذکر حاضر، معنیٰ : ایک کو دوسرے سے ملانا، جوڑنا، مضبوطی کے ساتھ جوڑنا۔ قرآن مجید میں ہے : کانھم بنیان مرصوص (سورۃ الصف) گویا کہ وہ سیسہ پلائی دیوار ہیں ۔ معنیٰ : اپنی صفیں خوب اچھی طرح ملاؤ ۔
قاربوا–– فعل امر، صیغہ جمع مذکر حاضر، معنیٰ : قریب قریب ہوجاؤ ، اسی طرح ہے :قارب الخطو، قدم سے قدم ملانا، قدم ملاکر چلنا۔
حاذوا بالاعناق –– حاذوا ،فعل امر، صیغہ جمع مذکر حاضر، معنیٰ :گردنوں کو مقابل میں، برابری کے ساتھ، سیدھ میں رکھو۔
تراصوا–– فعل امر، صیغہ جمع مذکر حاضر، معنیٰ : سیسہ پلائی دیوار ہوجاؤ، خوب جُڑجاؤ، اسی سے ہے: تراص القوم، لوگوں کا لڑائی یا نماز میں ایک دوسرے سے خوب مل کر کھڑا ہونا۔
تفہیم معنیٰ :
ان الفاظ کے معانی جب معلوم ہوگئے تو اب غور کرتے ہیں کہ کیا ان کو اپنے ظاہری معنیٰ پر محمول کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اگر ہاں، تو صف بندی کا وہ طریقہ جو دوسری کتب حدیث میں ہے ان پر بھی عمل ہوپائے گا کہ نہیں؟
پہلی حدیث میں ہے:
"وکان أحدنا یلزق منکبه بمنکب صاحبه وقدمه بقدمه "۔ اور ہم میں سے ہر شخص، اپنا کندھا اپنے ساتھی کے کندھے سے، اور اپنا قدم اس کے قدم سے چپکاتا (ملاتا) تھا ۔ یہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے ۔
اسی طرح دوسری حدیث ہے:
قال النعمان بن بشیر : رایت الرجل منا یلزق کعبه بکعب صاحبه ۔
(صحیح البخاری، ج:1،ص:180)
حضرت نعمان بن بشیر – رضي الله عنه – فرماتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ اپنا ٹخنہ اپنے ساتھی کے ٹخنے سے ملاتا تھا ۔
ان دونوں حدیثوں میں ” الزاق ” سے مراد "الزاقِ حقیقی ” نہیں ہوسکتا ، بلکہ محاذات (سیدھ میں ہونا) مراد ہوگا۔ اس لیے کہ اگر کوئی الزاقِ حقیقی مراد لے گا تو خرابی یہ لازم آئے گی کہ صف بندی کے باب میں جو دوسری احادیث وارد ہیں ان پر عمل نہیں ہوپائے گا، جب کہ عمل بالحديث کا تقاضا یہ ہے کہ جہاں تک ہوسکے تمام تر احادیث پر عمل کیا جائے؛ کہ اس باب میں اِعمال کا حکم دیا گیا ہے، اِہمال کا نہیں ۔ بلکہ حقیقی مراد لینے کی صورت میں اسی حدیث پر عمل مشکل ہے، اس طور پر کہ جس صیغہ سے قدم کا قدم سے الزاق مذکور ہے، اسی طرح منکب کا منکب سے الزاق بھی منقول ہے اور دونوں کا ایک ساتھ الزاق نہیں ہوسکتا۔
نیز صفیں درست کرنے کے باب میں کچھ احادیث میں "رکبة ” (گھٹنا، زانو) اور "اعناق” ( گردنیں) جیسے الفاظ وارد ہوئے ہیں، پھر ان پر عمل کیسے کیا جائے گا؟ اس لیے کہ رکبة اور اعناق میں الزاق حقیقی ناممکن ہے ۔ لازمی طور پر ماننا پڑے گا کہ ان احادیث کے الفاظ سے حقیقی معنی مراد نہیں، بلکہ ان سے محاذات، صفوں کو سیدھی کرنا مراد ہے ۔
حدیث مذکورہ کی مراد سے متعلق شیخ الاسلام، امام الشان، علامہ ابن حجر عسقلانی شافعی – رحمة الله عليه – فرماتے ہیں:
” المراد بذلک المبالغہ فی تعدیل الصف وسد خللہ” ۔ "الزاق” سے مراد صف کو برابر کرنے اور خلل پُر کرنے کے لیے مبالغہ ہے۔
(فتح الباری، ج:2، ص: 611 ، کتاب الاذان، باب الزاق المنکب بالمنکب والقدم بالقدم فی الصف ،ناشر : دار طیبہ، الریاض)
واضح ہوگیا کہ” الزاقِ قدم” سے مراد صف کو برابر کرنا اور درمیانی خلا کو پر کرنا ہے، اس سلسلے میں ابوداؤد کی ایک حدیث پاک بھی ملاحظہ فرمائیں جسے میں نے اوپر میں حدیث نمبر ٤؍ کے تحت ذکر کیا ہے ۔
صحابی رسول، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اپنی صفیں مضبوطی کے ساتھ ملاؤ، انھیں قریب رکھو اور گردنوں کو برابر ایک سیدھ میں رکھو، قسم ہے اس کی جس کی دست قدرت میں میری جان ہے، میں شیطان کو دیکھتا ہوں کہ وہ صف کی خالی جگہ میں گھس آتا ہے،گویا وہ بھیڑ کا بچہ ہے ۔
اس حدیث میں صفوں کی درستی، قریب قریب کھڑے ہونے اور ایک نمازی کو دوسرے نمازی کی سیدھ میں رہنے کی تاکید ہے۔ معلوم ہوا کہ صف بندی، اصل میں ان باتوں پر عمل پیرا ہونے میں ہے ۔
خلفائے راشدین و صحابہ کا عمل
یہی معنیٰ و مراد، خلفائے راشدین اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین کے قول و عمل سے ثابت ہے ۔اس سے متعلق چند احادیث ملاحظہ ہوں:
❶ نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
” صفیں درست کرو، کیونکہ صفوں کا درست کرنا، نماز کی تکمیل سے ہے”
(صحیح البخاری، کتاب الاذان، ص: 179)
❷ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بصرہ سے مدینہ تشریف لائے تو ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ کے زمانہ کے لحاظ سے اس زمانہ میں کونسی بات ناپسندیدہ پائی ؟ انہوں نے فرمایا : اور تو کوئی خاص بات نہیں ، البتہ یہ کہ تم لوگ صفوں کو سیدھی نہیں کرتے ہو۔
(مرجع سابق، ص:180)
❸ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہماری صفوں کو سیدھی اور برابر فرماتے تھے، ایک دن ایسا ہوا کہ آپ ﷺ باہر تشریف لائے اور نماز پڑھانے کے لیے اپنی جگہ پر کھڑے بھی ہوگئے، یہاں تک کہ قریب تھا کہ آپ تکبیر کہہ کر نماز شروع فرما دیں کہ آپ کی نگاہ ایک شخص پر پڑی، جس کا سینہ صف سے کچھ آگے نکلا ہوا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: تم لوگ اپنی صفیں ضرور سیدھی اور درست رکھا کرو ، ورنہ اللہ تعالٰی تمہارے درمیان مخالفت پیدا کردے گا۔
(سنن الترمذی، ج:1،ص: 53، ابواب الصلوۃ، ناشر: مجلس برکات مبارک پور)
❹ امیرالمومنین، سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ صفوں کو درست کرنے کے لیے کچھ لوگوں کو متعین کردیتے، صفوں کی درستی کی اطلاع کے بعد ہی تکبیر کہتے۔ حضرت علی و حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہما بھی ایسا ہی کرتے تھے۔دونوں کہتے تھے کہ تم سب سیدھے ہوجاؤ اور حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے : تقدم یا فلاں! تاخر یا فلاں! فلاں آگے ہوجاؤ، فلاں پیچھے ہوجاؤ ۔
( مرجع سابق)
❺ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: صفیں قائم رکھو اور کندھوں کو برابر رکھو، خالی جگہ کو پر کرو اور شیطان کے لیے خالی جگہ نہ چھوڑو۔ جس نے صف کو ملایا، اللہ – عَزَّوَجَلَّ – اس کو ملائے گا اور جس نے صف کو قطع کیا، اللہ تعالیٰ اس کو قطع کرے گا ۔
(سنن ابی داؤد، ج:1،ص:97 ،کتاب الصلاۃ)
مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ خلفائے راشدین اور دیگر حضرات صحابہ کرام– رضی اللہ تعالٰی عنہم– صفوں کی درستی کا کافی اہتمام کرتے تھے ۔ کسی بھی حدیث میں حکم الزاق نہیں ہے، معلوم ہوا کہ اصل مقصود ٹخنوں سے ٹخنے چپکانا نہیں، اگر یہ ضروری ہوتا تو ضرور خلفائے راشدین اس کا حکم دیتے ۔
بلکہ یہ تو ہمارے یہاں کے عرف عام میں بھی شامل ہے کہ جب یہ کہا جاتا ہے :
(١) ہم آپ کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں ۔
(٢) قدم سے قدم ملا کر چلیں۔
(٣) کندھے کندھا ملاکر کھڑے ہوں۔ تو ان کا مطلب کوئی یہ نہیں لیتا کہ ہمارا قدم فلاں کے قدم کے ساتھ یا ہمارا شانہ فلاں کے شانے کے ساتھ چپکا ہوا ہے ، اسی طرح کندھے سے کندھا ملاکر کھڑے ہونے سے مراد بالکل ایک سیدھ میں کھڑا ہونا یا صف بندی کرنا مراد ہوتا ہے ۔ اسی طرح حدیث میں بھی قدم سے قدم ملا کر کھڑے ہونے سے مراد محاذات (سیدھ میں ہونا) ہے ۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ شرع میں صف بندی کی بڑی تاکید ہے، یہ اس انداز میں ہوکہ ایک نمازی کا مونڈھا دوسرے نمازی کے محاذات میں اور اس کا ٹخنہ دوسرے کی بالکل سیدھ میں ہو ۔ جن روایتوں میں الزاق کا حکم ہے، اس سے مراد محاذات ہے ۔ یہی خلفائے راشدین اور صحابہ کرام کے اقوال و افعال سے ثابت ہے ۔ واللہ تعالی اعلم.
از قلم: شہباز احمد مصباحی (ارول)
جامعۃ المدینہ ــ پڑاؤ (بنارس)