پاسبانِ فکرِ اسلامی… اعلیٰ حضرت
از قلم:غلام مصطفٰی رضوی
(بموقع یومِ ولادت اعلیٰ حضرت)
اللہ کریم کی حکمت ہے کہ ہر عظیم شخصیت کو زمانی ضروریات وتقاضوں کے مطابق نوازتا ہے۔ عہدِ غزالی و عہدِ غوثیت میں فلاسفہ کا زورتھا، اس لیے انھیں فلسفۂ خام کے مقابل اسلامی حکمت ودانش سے پُر علم عطا کیا گیا۔ عہدِ غزالی میں نظریاتی برائیوں اور شعور سے وراء ُ الوریٰ عقائد کے انکار کی مادی فکر کے مقابل فلسفۂ اسلامی کی بلندیوں سے نواز کر اصلاحِ عقیدہ کا ساماں کیا گیا۔
عہدِ غوثیت میں طبِ یونانی کی تدقیق نے طبی ایجادات میں کمال دکھایا، علم وتحقیق میں خدائی انعامات سے نوازے جانے کے باوجود تکبر نے انسان کو دھریت کا شکار بنایا؛ ایسے میں توحید کی عظمتوں کو راسخ کرنے کے لیے حضور غوث اعظم کو بے پناہ کرامتوں کا ادراک بخشا گیا۔
مجددالفِ ثانی کے دور میں عظمت توحید پر حملہ تھا، انھیں توحید کی ناقابلِ تردید سچائیوں کے اظہار کے لیے عقلی و روحانی علوم سے آراستہ کیا گیا۔ یوں ہی عہدِ استعمار میں ناموسِ رسالت پر چہار جانب سے حملہ تھا، آریا، انگریز و اُنکے ہمنواؤں کی یورش نے ناموسِ رسالت پر شب خوں مارا، ان حالات میں مشیت نے استدلال کی ناقابلِ تردید صلاحیتوں سے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کو نوازا، اور محبت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درس سے آپ نے اسلام کی عظیم خدمت انجام دی۔ خلافِ شریعت راہوں کا خاتمہ کیا، منکرات کے مقابل راہِ سُنّت کو اُجاگر کیا۔ بے شرع پیروں کے خلاف آپ نے فتاوے صادر فرمائے۔
امام احمد رضا کے عہد میں سائنس و فلسفہ کا بڑا زور تھا، انگریز نے ایجادات و سائنسی ترقیات کے ذریعے یہ گمان کر لیا تھا کہ اب اسلامی عقائد؛ سائنس کے سامنے زیر اور سِپر ہوجائیں گے، اور اگلی صدیاں سائنس کے غلبے کی ہوں گی۔ ایسے میں اسلامی عقائد کے تحفظ کے لیے آپ نے سائنس و فلسفہ کے مقابل قرآنی حقائق پیش کیے اور ’’سائنسی نظریات کو قرآن کی کسوٹی پر پرکھنے‘‘ کی فکر دے کر فکری ومادی حملوں سے اسلام کا تحفظ کیا۔
اس ضمن میں آپ نے اسلامی فکر دی؛ قرآن وسائنس سے نصرانی سائنسی افکار کی تردید میں علم و فن کے جوہر دکھائے؛ ان کے جلوے: فوزِ مبین در ردِ حرکتِ زمین؛ نزولِ آیاتِ فرقان بسکونِ زمین وآسمان؛ الکلمۃالملہمۃ؛ کشف العلۃ؛ معین مبین بہرِ دورِ شمس وسکونِ زمین‘‘ میں ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں، ان میں علمِ لدنی کے وہ جلوے دکھائے ہیں؛ جن کے مطالعہ سے علمی بلندی اور ایمان کی تازگی حاصل ہوتی ہے۔
*فکرِ اسلامی کی پاسبانی:*
[۱]امام احمد رضا نے فکرونظر کو قرآن وسُنّت کی طرف موڑ دیا، جس پر آپ کی ایک ہزار کے قریب کتابیں شاہد ہیں۔
[۲] آپ کے فتاویٰ میں اسلاف کی عظمتیں موجود ہیں، مختلف فیہ مسائل میں استدلال کی قوت سے ’’قولِ فیصل‘‘ کا صدور اور اختلاف کو رفع کردینا وہ خوبی ہے جو فقیہانہ شان اُجاگر کرتی ہے۔ چشم کشا کو ’’فتاویٰ رضویہ‘‘ (جدید۳۰؍مجلدات؛ قدیم۱۲؍ مجلدات) کافی ہے۔جس کی گہرائی وگیرائی کو اقبالؔ، کوثرؔنیازی اور نزہۃالخواطر میں علی میاں ندویؔ نے خراج تحسین پیش کیاہے۔
[۳]معاشرتی برائیوں کے خاتمہ کے لیے جو کتابیں لکھیں وہ اصلاحی وتجدیدی شان ظاہر کرتی ہیں۔ایسی کتابیں سو سے زائد ہیں۔جس پر ’’امام احمد رضا اور ردبدعات‘‘ازیٰسٓ اختر مصباحی شاہد ہے۔
[٤]قرآن مقدس کے بعد کثیر احادیث سے استدلال وہ خوبی ہے جو بے مثل ہے، عموماً معاصرین کے یہاں کسی موضوع پر دلیل میں چند احادیث پر ہی اکتفا ملتا ہے، آپ ایک موضوع پر درجنوں اور کہیں تو سیکڑوں احادیث سے مع روایت و درایت استنباط کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آپ کی محدثانہ بصیرت پر ’’جامع الاحادیث‘‘ دس جلدوں میں مولانا حنیف خان رضوی نے مرتب کی؛ جس کے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ نیز مولانا عیسیٰ رضوی کی متعدد جلدوں میں تحریر شائع ہو چکی ہے۔
[۵]خانقاہوں میں غیر شرعی رسوم کے خلاف قلمی کاوش اور دائرۂ شرع میں ہونے والے عوامل کی حمایت میں مدلل فتاویٰ بے نظیر ہیں۔ اس طرز کے بعض فتاویٰ عربی ترجمہ بھی ہو چکے ہیں- بعض رسائل انگلش میں ترجمہ ہو کر مطبوع ہیں-
[٦]شان یہ ہے کہ خدماتِ دینیہ کے اعتراف میں موافق ومخالف سبھی رطب اللسان ہیں۔جس پر درجنوں کتابیں حیطۂ تحریر میں آچکی ہیں۔
[۷]معاصر علمائے عرب نے زبردست خراجِ عقیدت پیش کیا، جن میں ائمۂ حرمین شریفین، مکہ معظمہ و مدینۂ منورہ؛ شام و مصر اور فلسطین کے قد آور علما و اساتذہ و محدثین نے نوع بہ نوع القاب سے نوازا۔جس کی تفصیل ’’امام احمد رضا اور عالم اسلام‘‘ازپروفیسر محمد مسعود نقشبندی میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ راقم نے بھی اپنے دو مقالات میں اس رخ سے تحقیق پیش کی ہے-
[۸] تحقیق و تدقیق کے رُخ سے گزری کئی صدیوں میں واحد شخصیت ہے؛ جس پر عالمی جامعات ویونیورسٹیوں میں اس قدر سرعت کے ساتھ.Ph.D., M.Phil., M.Ed. وغیرہ کے لیے مقالات و Thesisلکھے گئے۔
[۹]شام و مصر، یمن وعراق کی درس گاہیں آپ کی علمی تحقیقات کو اجاگر کر رہی ہیں۔ اربابِ علم ودانش آپ کی خدمات کو خراجِ عقیدت پیش کر رہے ہیں۔عربی زبان میں درجنوں کتابیں شائع ہیں۔ یوں ہی ترکی سے حدائق بخشش کا ترکی ترجمہ مطبوع ہے-
[۱۰]درجنوں نصابی کتابوں میں آپ کی نگارشات کی شمولیت مقبولیت کا اظہار ہی تو ہے۔ نیز عدالتوں اور کورٹوں میں شرعی فیصلوں کے ضمن میں آپ کے معرکہ آرا فتاویٰ سے استفادہ مقبولیت کا نشاں ہے۔
اسلامی اقدار کا محافظ
[۱]امام احمد رضا نے فرقہ پرستوں کے فتنہ و حرب سے اس وقت مسلمانوں کو باخبر کیا جب کہ اس قدر نقصان نہیں ہوا تھا، اس دور میں گاندھی کے سائے میں بڑے بڑے اصحابِ جبہ پناہ گزیں تھے، کاش! مشرکوں سے متعلق مسلمان آپ کی آواز پر بیدار ہو لیتے تو ہزاروں فسادات جھیلنے نہ پڑتے اور مسلمانوں کی حق تلفی کا تسلسل بھی شاید ظہور میں نہ آتا۔
[۲] تحریکِ ترکِ موالات نے مسلمان اساتذہ کی جائز ملازمتیں چھُڑائیں، طلبا کو تعلیم سے کاٹ دیا، مسلمان جاہل اور مشرک تعلیم یافتہ ہوئے، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ اور مدرسہ عالیہ کلکتہ تباہ ہوئے؛ اور ہندو یونیورسٹی بنارس پھلی پھولی، یہیں سے مسلمان تعلیمی میدان میں ایسے پیچھے ہوئے کہ اب تک سر نہ اُٹھا سکے، امام احمد رضا نے شرعی بنیادوں پر ترکِ موالات کی مخالفت کی تھی، آپ کی مومنانہ فراست مستقبل کے خدشات دیکھ رہی تھی، مسلمان آپ کے فتاویٰ پر عمل کر لیتے تو تعلیمی پستی نہ آتی اور سچر کمیٹی کی رپورٹ کا منفی ریمارک مشاہدہ نہ ہوتا-
[۳] یورپی و یہودی مصنوعات کا بائیکاٹ آج ہورہا ہے، ۱۹۰۱۲ء میں امام احمد رضا نے ’’تدبیرِ فلاح و نجات و اصلاح‘‘ میں مسلم پروڈکٹس کے استعمال کی فکر دی تھی؛ صنعت و حرفت اور بینکنگ کی ترغیب دی تھی؛ جس پر عمل کیا جاتا تو مسلم معیشت Strongہوتی۔اور مسلمان یہود ونصاریٰ کے دستِ نگر نہیں ہوتے۔
[۴] ۱۹۰۱۲ء میں بِلاسودی بینکاری کا جو نظریہ آپ نے دیا تھا وہ مسلم معیشت کے عروج کا اشاریہ تھا۔
[۵]آپ نے اسلامی تمدن کی بقا کے لیے انگریزی تمدن سے ہر رُخ سے نفرت کا درس دیا اور نصاریٰ کی تذلیل کی۔
[٦]مسلم تشخص کے لیے اسلامی شعائر پر عمل کی ترغیب دی۔مشرکین ونصاریٰ کے مراسم کی سخت مذمت کی۔جن پرآپ کی متعدد کتابیں موجود ہیں۔مسلمانوں کو مرتد بنانے والی’’شدھی کرن‘‘ تحریک کے مقابل جماعت رضائے مصطفٰی قائم کر کے لاکھوں افرادکے ایمان کی حفاظت کی۔
[۷]مسلمانوں میں عملی اتحاد کے لیے محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا درس پیش کیا۔
[۸]ادبی نقطۂ نظر سے ذہنی عیاشی کے عہد میں ’’نعت‘‘ جیسی پاکیزہ صنف میں شاعری کی اور مسلم امہ کومدینہ امینہ سے مربوط کر کے یہودونصاریٰ کے عزائم کو خاک میں ملا دیا۔ آپ کا قصیدۂ سلامیہ ’’مصطفٰی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام‘‘ عالمِ اسلام کااردو میں قومی ترانہ بن چکا ہے۔
[۹]مادی ہنگام کے درمیان اسلامی روحانی نظام کی بقا کے لیے آپ نے قادری سلسلہ میں بیعت وارشاد کے ذریعے لاکھوں افراد کو توبہ کرائی، آپ کا سلسلہ عالم اسلام میں بڑا پھیلا ہوا ہے،جس کی اس دور میں سب سے زیادہ توسیع حضور تاج الشریعہ علامہ اختر رضاخان قادری ازہری علیہ الرحمۃ نے کی؛ نیز دیگر مشائخ کرام نے بھی سلسلے کو فروغ بخشا-
[۱۰]آپ کا ترجمۂ قرآن کنزالایمان روحِ قرآن سے قریب، مؤدب، لسانی خصوصیات کا حامل، جامع، اردو کا سنگھار، حلاوتِ ایمانی کا مظہر اور مقبولِ عام ہے۔جس کی اشاعت لاکھوں میں ہوتی ہے۔ گیارہ زبانوں میں اس کے ترجمے چھپ چکے۔
ایسے جلیل القدر بندۂ مومن کی یاد تازہ کرنا در حقیقت مسلمانوں کے شان دارماضی کو حال سے جوڑنے، اور وقار کی بحالی کا باعث ہوگا، امام احمد رضا حوصلہ افزا تاریخ کا استعارہ ہیں۔ جن کی نگارشات کا مطالعہ ’’ہر لحظہ نیا طور، نئی برقِ تجلی‘‘ کا لطف دیتا ہے۔
از قلم:غلام مصطفٰی رضوی
نوری مشن مالیگاؤں
٢٣ مئی ٢٠٢١ء
gmrazvi92@gmail.com