فلسطینیوں کی آہ و بکا اور ہماری بے حسی
ازقلم:انصار احمد مصباحی
مجھے یاد آ رہا ہے، آج سے دس سال پہلے، میں نے اپنا پہلا مکمل مضمون فلسطینیوں پر ”آہ اہل فلسطین! نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن“ عنوان سے لکھا تھا۔
پچھلے کئی دنوں سے لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ غزہ کی سلگتی چھتیں نظروں کے سامنے آ جاتی ہیں، بموں اور گولیوں کی چنخار بار بار کانوں میں ٹکڑا رہی ہیں، باپ کے جنازے کو کندھا دیتے 6 سال کے بچے آ جا تے ہیں، خون میں لت پت فلسطین کی چھوٹی بچیاں دامن پکڑ کر لپٹ جاتی ہیں، سنہرے بالوں والی عہد تمیمی سامنے آکر کھڑی ہوجاتی ہے۔
دھیرے دھیرے ان بچوں کی ایک بھیڑ اکٹھی ہوگئی تو میں نے لکھنے کا ارادہ ترک کر دیا۔
ان بے سہارے اور بھوکے پیاسوں پر لکھا ہی کیا جا سکتا ہے!
چند گھنٹے بعد دوبارہ تازہ دم ہوکر بیٹھا کہ کچھ تو لکھنا ہی چاہیے۔ پھر وہی خونی زمین، وہی شعلے، وہی خوف و سراسیمگی، وہی ایک ہاتھ میں قومی جھنڈا اور دوسرے ہاتھ سے اپنے سر سے سے خون کا فوارہ روکتے بچے، وہی لاشیں، وہی بھوک، وہی چیخ و پکار۔
میں ان کے سامنے رہ کر ٹائرڈ ہو رہا تھا۔ فورا ان سے دامن بچاکر بھاگ نکلا۔
لکھنے کی عادت پڑی تھی، آخر اردو کا لکھاری ہوں۔ ایک بار اور کوشش کرنے بیٹھ گیا۔ شاید کوئی ٹاپک آ جائے۔ لیکن………………
ارے! تم لوگ پھرسے آگئے؟ کہا نا! تم پر کچھ لکھا نہیں جا سکتا۔ نہ اونچی تعلیم ہے، نہ اسٹیٹس ہے، نہ ہی کسی امیر کبیر یا کسی سیلیبریٹی کے بیٹے بیٹی ہو! الجھے بال، مظلوم آبا کی مظلوم اولاد۔ کبھی ہاتھ میں پتھر لے لئے کبھی بھائی یا باپ کے جنازے کو کندھا دے کر رو لیے، یا کبھی گری ہوئی عمارتوں کے ملبے میں بیٹھ کر اپنی مذہبی کتاب کی تلاوت کر لیے!
اب تم ہی بتاؤ! اس پر کوئی کتاب بنے گی، کوئی کہانی مرتب ہوگی، کوئی شاہ کار افسانہ تالیف ہو سکے گا؟ کوئی دل چسپ مضمون تحریر ہو سکے گا!
تحریر کے لئے چاہیے کوئی سلگتا عنوان، کوئی اختلافی موضوع، یا کوئی سنسنی خیز خبر جیسے سیلیبریٹی کا قتل، سیاسی الٹ پھیر یا کوئی ایکسی ڈینٹ ۔
یا پھر تحریر کے لئے حسن و عشق چاہیے۔ ہائی پروفائلڈ محبوبہ کی رنگین زلفوں کا اسیر مجنوں، محبت میں ناکام عاشق کی دیوانگی یا یک طرفہ محبت کا دردناک انجام۔
چلو جاؤ یہاں سے! زمانے کے ستائے غریب اور بھوکے بچے! تمہاری طرف امن کے رکھوالے توجہ نہیں کرتے، اقوام متحدہ تم پر ترس نہیں کھاتی، صنعت کار ، عالمی لیڈران اور مشہور شخصیات تمہارے ساتھ کھڑے نہیں ہیں، اور تو اورخود تمہارے نام پر کھانے والوں کو تمہاری فکر نہیں ہے، تو پھر میں کیوں لکھوں تمہارے بارے میں؟
مجھے کوئی دوسرا عنوان سوچنے دو!
اطمینان سے بیڈ پر دراز ہوکر چاند کے مسئلے پر تبصرہ کرنے پر مصروف ہوگیا۔ کمینٹ در کمینٹ کا سلسلہ اتنا دراز ہوا کہ کب رات کے تین بج گئے ، پتا ہی نہیں چلا، بات انا کی آگئی تھی، اپنی توانائی بھر، اینٹ کا جواب پتھر سے دینے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ بہت تھک گیا تھا۔ اب بس آنکھ لگنے ہی والی تھی کہ وہ چھوٹی بچیاں سامنے آکر پھر سےکھڑی ہو گئیں۔
”چاچا ہم پر لکھو نا! ہماری گلیاں کیوں بھول گئے! ہمارے اندر تحریر میں پائی جانے والی ساری توانیاں موجود ہیں۔ جب ہاسپیٹل کا کچڑا اٹھانے والا”کالو بھنگی“ پر شاہ کار افسانہ لکھا جا سکتا ہے، تو آج ستر سالوں سے ہمارا پورا ملک ظلم و درندگی کی چکی میں پس رہا ہے“۔
میں ان کی آہ و بکا سے تنگ آگیا تو لکھنے کا ارادہ بالکل ملتوی کردیا۔ پیچھے سے کوئی پکار رہا تھا، شاید عہد تمیمی یا ان کا کوئی ساتھی تھا۔ وہ کہ رہا تھا:
چاچا جان! ہم پر لکھ سکو تو لکھو ورنہ یہ ہماری چوڑیاں رکھ لو! تمہارے ہاتھوں میں قلم نہیں، چوڑاں اچھی لگیں گی!
اب میں فیصلہ نہیں کر پا رہا ہوں کہ مجھے چوڑیاں اور قلم میں سے کیا منتخب کرنا ہے؟