نفلی نمازوں کے فضائل
تحریر: شہباز احمد مصباحی
قرآن مجید اور احادیث طیبہ میں نفل نماز کی اہمیت و فضلیت کثرت سے بیان کی گئی ہے۔ یہ وہ عبادت ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی قربت، اس کی رحمت اور مغفرت ملتی ہے ۔نفل نماز جنت میں لے والا اور جہنم سے چھٹکارا دلانے والا عمل، درجات کی بلندی کا باعث اور شکر الہی بجا لانے کا بہترین ذریعہ ہے ۔ نفل ادا کرنے والے سے اللہ رب العزت محبت کرنے لگتا ہے اور اس کی دعائیں قبول فرماتا ہے ۔ آئیے! اب ہم نماز نفل کے چند فضائل بیان کرتے ہیں:
نوافل سے قرب الٰہی نصیب ہوتا ہے:
اللہ عزوجل کے نزدیک بندوں کے اعمال میں سب سے زیادہ محبوب فرائض ادا کرنا ہے، اس کے بعد نفل کی ادائیگی ہے۔ یہ وہ عمل ہے جس کے ذریعے بندے کو اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل ہوتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم فرمایا کہ حدیث قدسی ہے:
جو میرے کسی ولی سے دشمنی کرے تو اس سے میرا اعلان جنگ ہے۔ میرا بندہ کسی شی سے اس قدر تقرب حاصل نہیں کرتا، جتنا فرائض سے کرتا ہے اور نوافل کے ذریعے ہمیشہ قرب حاصل کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ میں اسے محبوب بنالیتا ہوں، اگر وہ مجھ سے سوال کرے تو عطا کروں گا اور پناہ مانگے تو پناہ دوں گا ۔(صحیح بخاری، کتاب الرقاق،باب التواضع ،ج:2، ص:563،ناشر : مجلس برکات ،جامعہ اشرفيہ مبارک پور )
حضرت عمرو ابن عبسہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں، فرمایا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے کہ رب بندے سے آخری رات کے وسط میں بہت قریب ہوتا ہے، اگر تم یہ کرسکو کہ اس وقت اللہ کے ذاکرین میں سے بنو تو بن جاؤ ۔(مرأۃ المناجیح، ج:2،ص:250، ناشر: ادبی دنیا، دہلی)
نماز نفل سے فرائض میں کمال پیدا ہوتا ہے:
ہمارے فرائض پر حصول ثواب میں جو کمی ہوجاتی ہے تو اس کی تلافی قیامت کے دن نفل نماز سے کی جائے گی ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
قیامت کے دن سب سے پہلے بندوں کے جس عمل کا حساب لیا جائے گا وہ ان کی نماز ہے، اگر وہ درست ہوئی تو یقیناً وہ کامیاب اورسرخ رو ہوگا اور اگر نماز خراب ہوئی تو ناکام و نامراد ہوگا، پھر اگر فرائض میں کچھ کمی رہی ہو تو اللہ عزو جل فرمائے گا: دیکھو کیا میرے بندے کے نامۂ اعمال میں کچھ نوافل ہیں کہ اس کے ذریعہ فرائض کی کمی پوری کی جاسکے ؟ پھر اس کے تمام اعمال کا حساب اسی طرح ہوگا۔( سنن ترمذی، ابواب الصلوۃ، ج:1، ص:94، ناشر : مجلس برکات جامعہ اشرفيہ مبارک پور )
فرائض کی کمی سنتوں اور نوافل سے پوری کی جائے گی، کیوں نہ ہو کہ وہ سنتوں والے محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم ہماری کمی پوری کرنے ہی تشریف لائے ہیں، گرتوں کو اٹھانا اور بگڑتوں کو بنانا انہیں کا کام ہے ۔ (مرأۃ المناجیح، تسبیح کا بیان، ج:2،ص: 299، ادبی دنیا، دہلی)
جنت میں سونے کا محل:
صحابی رسول حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے چاشت کی بارہ رکعت نماز پڑھی، تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ جنت میں سونے کا محل بنائے گا۔ ( سنن ترمذی، ابواب الصلوۃ، ج:1، ص:108،ناشر : مجلس برکات جامعہ اشرفيہ مبارک پور )
مرأۃ المناجیح میں ہے:
جو بارہ رکعت چاشت پڑھنے کا عادی ہوتو اللہ تعالیٰ اس کے نام جنت میں ایک سونے کا بے نظیر محل کردے گا، کیوں کہ وہاں مکانات تو پہلے سے بنے ہوئے ہیں ۔ یا یہ مطلب ہے کہ جنت کے میدانی علاقے میں اس کے لیے سونے کا محل بنادے؛ کیوں کہ کچھ علاقہ خالی بھی ہے جس میں باغ و مکانات انسان کے اعمال کے بعد بنائے جاتے ہیں ۔(مرأۃ المناجیح، ج:2،ص:290، ناشر: ادبی دنیا)
گناہ مٹا دیے جاتے ہیں:
جو بندہ نفل نماز پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے اس کے گناہوں کو مٹادیتا ہے۔ حضرت سہل بن معاذ بن انس رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
جو شخص نماز فجر سے فارغ ہو تو اپنے مصلے پر بیٹھا رہے یہاں تک کہ وہ اشراق کی نفل پڑھ لے اور اچھی بات کہے تو اس کے گناہ بخش دیے جائیں گے اگرچہ سمندر کے جھاگ سے زیادہ ہوں ۔(سنن ابو داؤد، کتاب الصلاۃ، ج: 1،ص:191، ناشر: اصح المطابع)
حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا: اس کے گناہ صغیرہ کتنے بھی ہوں اس نماز اشراق پڑھنے اور مصلے پر رہنے کی برکت سے معاف ہوجائیں گے ۔( مرأۃ المناجیح ، ج:1،ص:290)
نماز نفل سے خیر طلب کی جاتی ہے:
اس نماز سے بندہ اپنے پروردگار سے خیر طلب کرتا ہے، یہ دو رکعت نماز ہے،جسے نماز استخارہ کہا جاتا ہے ۔ بعد نماز مخصوص انداز میں دعا کی جاتی ہے جیسا کہ احادیث کریمہ میں اس کا ذکر ہے ۔ اس کی فضیلت کا بیان مرأۃ المناجیح میں ہے:
حدیث شریف میں ہے جو استخارہ کرلیا کرے وہ نقصان میں نہ رہے گا اور جو استخارہ کرلیا کرے وہ نادم نہ ہوگا۔ (حوالہ سابق،ص:294)
نفلی اعمال کی ادائیگی سے شکر الہی کی بجا آوری ہوتی ہے: حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم اتنی دیر تک نماز پڑھتے رہتے کہ آپ کے قدم مبارک یا پنڈلیوں پر ورم آجاتا، جب آپ سے اس کے متعلق کچھ عرض کیا جاتا تو فرماتے: کیا میں اللہ عزوجل کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟ ۔(صحیح بخاری ج:1،ص:152،ناشر: جامعہ اشرفیہ مبارک پور )
کثرت نوافل سے جنت میں نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی رفاقت نصیب ہوگی: حضرت ربیعہ بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں: میں حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارگاہ میں رات کے آخری حصے میں حاضر رہا کرتا تھا، ایک بار آپ کے وضو وغیرہ کے لیے پانی لے کر حاضر ہوا ،حضور سید العالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : "سل ماشئت” جو چاہو، مانگ لو، عرض کی : ” أسئلک مرافقتک فی الجنۃ ” میں حضور سے سوال کرتا ہوں کہ جنت میں حضور کی رفاقت عطا ہو ، فرمایا: اور کچھ ؟ عرض کی: بس میری مراد تو یہی ہے، فرمایا: تو کثرت سجود سے میری اعانت کر ۔
(مشکات المصابیح، باب السجود وفضلہ،ص: 84، مجلس برکات،مبارک پور )
گھر میں نوافل کی ادائیگی،برکت لاتی ہے: حضرت جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی نماز پڑھ لے تو اپنی نماز کا کچھ حصہ اپنے گھر کے لیے بھی رکھے کہ اللہ تعالیٰ اس نماز کی برکت سے اس کے گھر میں خیروبرکت رکھے گا ۔
(مرأۃ المناجیح، ج:2،ص:280،ناشر: ادبی دنیا)
اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں کثرت سے نفل نماز ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کی برکتوں سے مالا مال فرمائے ۔ (آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم)
تحریر: شہباز احمد مصباحی
جامعۃالمدینہ – پڑاؤ ،چندولی