نعت رسول
از: توفیق احسن برکاتی
قلزمِ نور میں آ، فیض کے دریا میں اتر
حسنِ محبوبِ خدا دیکھ، نگاہیں بھر کر
لمس پایا جو بدن کا تو رگِ گل پھڑکی
اور خوش ہیں یہ گلستانِ محبت کے شجر
ایسی مہکار تھی جس راہ سے گزرے آقا
ان کی پا بوسی کو تیار تھے بے جان حجر
نطق ایسا کہ فصیحانِ عرب گنگ ہوئے
مصدرِ فیضِ سخن کا تھا بیانوں میں اثر
ان کے گیسو میں ستاروں کا تبسم رقصاں
ان کے ابرو میں سمایا تھا ہلالی منظر
ان کی ہر بزم میں چمکے ہیں ہدایت کے نجوم
ان کے ہر وصف میں بستا ہے ادب کا پیکر
ان کی تابندہ نگاہی پہ نگاہیں قرباں
ان کی شائستہ مزاجی میں مزاجِ ساغر
فکرِ احسن یہی کہتی ہے سخن ور سن لے
نعت لکھنے میں ضروری ہے ادب کا شہپر
از: توفیق احسن برکاتی
استاذ جامعہ اشرفیہ مبارک پور