مستخرجات کے اصول و فوائد
از قلم: شہباز احمد مصباحی
احادیث طیبہ جن کتب میں پائی جاتی ہیں ان کی تدوینی نوعیت کے اعتبار سے کئی اقسام ہیں، انھیں میں سے ایک "مستخرجات” بھی ہے۔
محدثین کی اصطلاح میں "مستخرج” وہ کتاب ہے جس میں مصنف کسی سابق مصنف کی روایت کردہ احادیث کو اپنی سند کے ساتھ روایت کرے–– اس طور پر کہ اس کی اپنی سند سابق مصنف کی سند کے علاوہ ہو–– اور اس کے شیخ یا اس کے اوپر میں یہ واسطہ مل جائے ۔
( تدریب الروای فی شرح تقریب النواوی ، الحدیث الصحیح، ص: 78، ناشر: دارالکتب العلمیہ ،بیروت )
استخراج کی شرط:
شیخ الاسلام، حضرت علامہ ابن حجر عسقلانی شافعی –رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ – فرماتے ہیں:
مستخرِج کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ شیخ ابعد تک نہ پہنچے؛ وہ یوں کہ ایسی سند کو چھوڑ دے جو شیخ اقرب تک پہنچانے والی ہو۔ ہاں اگر کوئی عذر ہو، مثلاً : شیخ ابعد تک پہنچنے میں علوِسند، یا اہم اضافہ پیش نظر ہو؛ تو ایسا کرسکتا ہے ۔
مزید فرمایا:
کبھی کبھی مستخرِج مطلوبہ سند نہ ملنے کی صورت میں حدیث کو ساقط کردیتا ہے اور کبھی صاحب کتاب ہی کی سند ذکر کردیتا ہے ۔
(مرجع سابق)
مستخرجات کے فوائد:
مستخرجات کے تقریباً دس فوائد ہیں، جن کو سیدنا امام جلال الدین عبدالرحمن بن ابی بکر سیوطی شافعی – رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ – اور دیگر محدثین نے ذکر کیا ہے، ان میں سے چند فوائد ہدیۂ قارئین ہیں:
(1) طلب علوّ اسناد:
مثلاً: مستخرج کے مصنف نے سیدنا امام بخاری – رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ– کی سند کے مطابق روایت کی، لیکن انھوں نے سند میں ایک درجہ بلند کرتے ہوئے کسی راوی کے بجائے اس کے شیخ سے روایت کردی ۔
(2) حدیث کی تعداد میں اضافہ:
مستخَرج میں بعض اوقات حدیث کے اضافی الفاظ بیان ہوجاتے ہیں، جس کی وجہ سے بعض نامکمل احادیث، مکمل ہوجاتی ہیں۔
(3) کثرت طرق کے سبب حدیث کی قوت میں اضافہ:
اگر اصل مصنف کی روایت کردہ حدیث کا مفہوم دوسری حدیث کے خلاف ہے تو کثرت طرق کی وجہ سے اسے ترجیح دی جاسکتی ہے ۔
(4) اندیشۂ تدلیس کا ازالہ:
بعض اوقات اصل مصنف مدلس سے عنعنہ والی روایت نقل کرتا ہے تو مستخرِج روایت میں سماع کی تصریح کردیتا ہے ۔
(5) مبہم کی تعیین:
کبھی مستخرَج علیہ میں کوئی راوی مبہم ہوتا ہے ۔ جیسے راوی کا قول: حدثنا فلان او رجل او فلان وغیرہ أو غیر واحد –– ایسی صورت میں مستخرِج کی حدیث سے اس کی تعیین ہوجاتی ہے ۔
(6) مہمل کی تمییز:
کبھی اصل کتاب میں کوئی ایسا راوی ہو، جس کا ہم نام کوئی راوی ہو، ان دونوں کے شیوخ بھی ایک ہوں ۔ جیسے : دونوں راویوں کا "محمد” ہو تو مستخرج سے اس حدیث کی تمییز ہوجاتی ہے ۔
( تدریب الروای فی شرح تقریب النواوی – الحدیث الصحیح– ص: 81، مفہوماً – تیسیر مصطلح الحدیث ، ص: 52،53،مکتبۃ المعارف للنشر والتوزیع ، ریاض)
مستخرجات سے حدیث نقل کرکے اسے اصل مصنف کی طرف منسوب کیا جاسکتا ہے؟
کسی کے لیے جائز نہیں ہے کہ مستخرجات سے حدیث نقل کرے اور اسے مستخرَج علیہ مثلاً بخاری و مسلم، یا شرح معانی الآثار کی طرف منسوب کردے ۔
وجہ یہ ہے کہ اصحاب مستخرجات نے الفاظ میں امام بخاری اور امام مسلم رحمۃ اللہ تعالٰی علیہما کی مکمل موافقت کا اہتمام نہیں کیا ہے، اس لیے کہ انھوں نے تو وہی الفاظ بیان کیے ہیں جو ان کے شیوخ کے ذریعے ان تک پہنچے ہیں ممکن ہے کہ وہ الفاظ اصل کتاب میں موجود نہ ہوں ۔
مستخرجات سے احادیث، نقل کرنے کے شرائط:
اگر کوئی مستخرجات سے حدیث نقل کرے اور اصل کتاب کی طرف منسوب کرے تو اس کے لیے دو شرطیں لازم ہیں ۔
(الف) مستخرج کی حدیث کا اصل کتاب ( بخاری و مسلم) سے موازنہ کرلے ۔
(ب) یا ناقل کہے : صاحب مستخرج نے اسے اپنے الفاظ میں روایت کیا ہے۔
( التقريب والتيسير للامام النووی ،ص: 27، دارالکتاب العربی)
*بخاری و مسلم یا کسی ایک پر کتب مستخرجات:*
حضرت امام، سید، شریف، محمد بن جعفر الکتانی (متوفی: ١٣٤٥ھ) –رحمۃ اللہ علیہ – نے اپنی کتاب "الرسالۃ المستطرفہ” میں اختصار کے ساتھ تقریباً چالیس مستخرجات کا تذکرہ ان کے مصنفین کے ساتھ کیا ہے، ان میں سے چند مستخرجات یہ ہیں:
مستخرجات بخاری:
❶ ــــ المستخرج علی صحیح البخاری للاسماعیلی ❷ ـــ المستخرج علی صحیح البخاری لابن ابی ذھل ❸ ـــ المستخرج علی صحیح البخاری للغطریفی ❹ ـــ المستخرج علی صحیح البخاری لابن مردویہ الکبیر۔
مستخرجات مسلم:
❶ ــــ المستخرج علی صحیح مسلم لابی بکر ❷ ـــ المستخرج علی صحیح مسلم للجوزقی ❸ ـــ المستخرج علی صحیح مسلم للجوینی ❹ ـــ المستخرج علی صحیح مسلم لابی عوانۃ۔
مستخرجات صحیحین
❶ ــــ المستخرج علی صحیحی البخاری و مسلم لأبی نعیم ❷ ـــ المستخرج علی صحیحی البخاری و مسلم لابن الاخر ❸ ـــ المستخرج علی صحیحی البخاری و مسلم للبرقانی ❹ ـــ المستخرج علی صحیحی البخاری و مسلم لمنجویۃ۔
مستخرجات سنن
جس بخاری و مسلم پر مستخرجات تحریر کی گئیں اسی طرح سنن وغیرہ پر بھی کی گئی ہیں۔
❶ ــــ المستخرج علی سنن الترمذی لمنجویۃ
❷ ـــ المستخرج علی سنن ابی داؤد لقاسم بن اصبغ الاندلسی
❸ ـــ المستخرج علی توحید ابن خزیمہ لابی نعیم الاصبہانی
❹ ـــ المستخرج علی الدار قطنی لابی ذر الھروی
❺ ـــ المستخرج علی منتقی ابن الجارود
(الرسالۃ المستطرفہ لبیان مشھور کتب السنۃ الشریفۃ ، ص: 26 تا 32،ملتقطاً، ناشر: دار البشائر الاسلامیہ، بیروت)