مسلم اسکولوں میں اسلامی تعلیمات کا فقدان اور نسل نو کی تباہی
شھباز نصیری مصباحی
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اگر آج کوٸی قوم ترقی کے منزل پر گامزن ہے تو وہ تعلیم کی وجہ سے ہے اگر کسی قوم کو فلاح و بہبودی ملی ہے تو پہلے وہ قوم تعلیم سے آرستہ و پیراستہ ہوٸی ہے اور خود ہمارا مذہب یعنی مذہب اسلام کا آغاز لفظ اقراء سے ہوا ہے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ترقی کے مراحل طے کرنے کے لیے تعلیم ضروری ہے، لیکن عصر حاضر میں اگر ہمارے معاشرے کا معاٸنہ کیا جاۓ تو معلوم ہوگا کہ ہمارے معاشرے کے اکثر مسلم بچے اور بچیاں تعلیم سے نا آشنا ہیں خاص طور پر اسلامی تعلیمات سے کوسو دور نظر آتے ہیں، جو بچے دنیوی تعلیم حاصل کر رہے ہیں انہیں دین سے کوٸی وابستہ نہیں، یہی وجہ ہے کہ آج اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیز میں ہماری قوم کے ان بچوں کو جو صرف دنیوی تعلیم میں محو ہیں اور دین سے بیگانہ ہو چکے ہیں یہ کہ کر گمراہ کیا جارہا ہے کہ مذہب اسلام بہت سخت مذہب ہے، قید و بند والا مذہب ہے،
اس میں انسانوں کو کسی طرح کی بھی چھوٹ حاصل نہیں ہے، بلا کسی فاٸدے کے سخت ترین گھاٹیوں سے گزارا جاتا ہے۔
پھر افسوس کہ ہمارے مسلم بچے جو دین سے اندھے ہو چکے ہیں ان کی بہکی ہوٸی باتوں میں آکر اپنا مذہب بدلنے پر تیار ہو جاتے ہیں انہیں صحیح اور غلط کی تمیز نہیں ہو پاتی ہے اور یہ سب کے سب مسلم عصری تعلیم گاہوں میں اسلامی تعلیمات کے فقدان کا نتیجہ ہے ورنہ ہمارا مذہب تو سب سے آسان مذہب ہے۔ آخر یہ سب کب تک ہوتا رہے گا؟ ہمارے بچے کب تک اپنی زندگی کو تباہی کے دھانے پر ڈالتے رہیں گے اور اغیار کی باتوں پر اپنا دھرم بدلتے رہیں گے؟ کیا اس کے حل و تدارک کے لیے کوٸی راستہ نکلے گا؟ لہذا اس کے سد باب کے لیے کوشش ہی نہیں بلکہ مکمل لاٸحہ عمل تشکیل دینا وقت کی اہم ضرورت ہے اور اس وقت سب سے اہم کام مسلمانوں کے اسکولوں میں اسلامی تعلیمات کا ہونا ضروری ہے تاکہ ہمارے بچے دنیوی علوم کے ساتھ ساتھ دینی علم سے بھی بہرہ ور ہوکر مذہب اسلام پہ ثابت قدم رہے۔
کیوں کہ جو بچے مدرسے میں اپنی علمی پیاس بھجاتے ہیں وہ تو دین اسلام سے آراستہ ہوجاتے ہیں رہی بات ان بچوں کی جو اسکولوں اور کالجوں کا رخ کرتے ہیں وہ دین میں عدم فہمیت کی وجہ سے دین کے معاملے میں بے راہ روی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اسی لیے عصر حاضر میں ضروری ہے کہ مسلم اسکولوں اور کالجوں میں علوم دنیوی کے ساتھ دینی علوم بھی شامل کیا جاۓ تاکہ ہمارے بچے دونوں طرح کے علوم سے سیراب ہو کر اپنی زندگی کو کار آمد بنا سکے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ لوگ اس پر ذرا بھی توجہ نہیں دے رہے ہیں جبکہ بچوں کی اسلامی تعلیم و تربیت والدین کی اولین ذمہ داری ہے، جب کہ انہیں دنیوی تعلیم سے آراستہ کرنا ثانوی فریضہ ہے۔ یہ تو سمجھ میں آتی ہے کہ انہیں صرف دینی تعلیم دی جاۓ، دنیوی تعلیم سے بالکل ہی کورا رکھا جاۓ، حالاں کہ یہ بھی اسلامی نقطٸہ نظر کے سراسر خلاف ہے۔ لیکن یہ کہ حبِ سیم و زر میں انہیں دینی تعلیم سے دور کر کے صرف دنیوی تعلیم فراہم کرنا کسی طرح کی بھی عقل مندی نہیں ہے، یہ قرآن و سنت کی تعلیمات کی صریح مخالفت ہے جس کے اخروی نتاٸج نہایت ہی خطر ناک ہے۔ لہذا والدین پر لازم ہے کہ سب سے پہلے بچوں کی اسلامی تربیت کریں اس کے بعد دوسری تعلیم دیں تاکہ ایمان جیسی دولت عظمیٰ کی حفاظت و صیانت ہو سکے ۔
شھباز نصیری مصباحی
اتردیناج پور (بنگال)