تعلیم برائے زندگی نہ کہ زندگی برائے تعلیم

تعلیم برائے زندگی نہ کہ زندگی برائے تعلیم

Table of Contents

تعلیم برائے زندگی نہ کہ زندگی برائے تعلیم

( طریقہ نہ کہ نتیجہ)

مولانا محمد خالد رضا مصباحی

تمام مخلوقات میں نوع بنی آدم کو جو عظمت و بزرگی ، عزت و شرافت حاصل ہے وہ ما سوا کو کہاں میسر ؟ انسان کی عظمت و بزرگی کیوں کر نہ ہو کہ وہ ایسی مخلوق ہے جس کے اندر معلومات کو ترتیب دے کر مجہولات تک رسائی کا عظیم ملکہ ودیعت کیا گیا ہے ۔ گرد و پیش کے ماحول کا جائزہ لینے سے یہ بات بخوبی عیاں ہو جاتی ہے کہ نوع بنی آدم کے افراد اپنے افعال و کردار نہایت سلیقہ و سنجیدہ انداز میں انجام دینے کے عادی ہیں ۔ مگر افسوس کہ آج انسان اپنے تمام معاملات دینیات ، اخلاقیات ، سیاسیات بلکہ اپنی تعلیم و تربیت تک کو صحیح اصول و ضوابط کے مطابق ترتیب نہیں دے پا رہا ہے ۔ سیاست میں خود غرضی اور مفاد پرستی ، اخلاقیات میں ریاکاری و دکھاواپن تو تعلیم و تربیت کا میدان بھی زبوں حالی اور پسماندگی سے خالی نہیں ہے ۔

تعلیم و تربیت کا صحیح مقصد

انسان کو اللہ تعالیٰ کا صالح بندہ بنایا جائے یعنی طلبہ کی فطری صلاحیتوں کو اجاگر کرکے انہیں ذہنی، جسمانی، عملی اور اخلاقی اعتبار سے اس لائق بنایا جائے کہ وہ کائنات میں مرضی کے مطابق تصرف کر سکیں۔ اور انفرادی، عائلی اور اجتماعی حیثیت سے ان پر جو ذمہ داری عائد ہوتی ہیں ان سے کما حقہ عہدہ بر آ ہو سکیں۔
لیکن آج کل طلبہ کے سامنے مقصد تعلیم یہ نہ رہا بلکہ صرف ذاتی مفاد مثلاً خودستائی، مال و دولت کی ذخیرہ اندوزی اور معاشرے کا ڈکٹیٹر کہلانا ہے۔ طلبہ کے اندر یہ فاسد نظریات و مہلک خیالات تعلیم و تربیت کے اصول و ضوابط کو پس پشت ڈالنے اور خود ان طلبہ کی نفسیاتی اور ذہنی صلاحیتوں کو نظر انداز کرنے کے سبب پروان چڑھ رہے ہیں۔

محققین کے نزدیک تعلیمی نظریات تین طرح کے ہیں : اشتراکی، جمہوری، اسلامی

ان میں سب سے پختہ کامل نتیجہ خیز اسلامی نظریہ ہے۔ اگر تعلیمات کو اسلام کے منہج پر جاری کیا جائے تو انسان اس وقت بھی اپنی عظمت رفتہ حاصل کر سکتا ہے ۔ افعال کو صحیح طریقے سے انجام دینا چاہیے اگرچہ بسا اوقات غلط طرز تعلیم سے بھی مقصد حاصل ہو جاتا ہے لیکن یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اس طرح سے حاصل کیا ہوا مقصد دیر پا نہیں ہوتا ۔ موجودہ دور میں ہمارے سارے افعال و کردار محتاج اصلاح ہیں۔ نظام تعلیم کو ہی سامنے رکھیں تو یہ بات عیاں ہو جائے گی کہ رائج تعلیم اول تا آخر محض نظری ہے جس کے اندر کتابی تعلیم اور زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔ تعلیم کو اس کے صحیح مقصد کے لیے حاصل نہیں کیا جا رہا بلکہ عام طور پر ڈگریاں لے کر نوکریاں حاصل کرنے کے لئے حاصل کی جاتی ہے ۔اسکول کے اندر امتحان میں کامیابی پر زور دیا جاتا ہے لیکن زندگی کی تربیت پر نظر خطا بھی نہیں کی جاتی۔

پورے نظام تعلیم میں بس کتابیں ہی ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ استاذ اور کتابوں کو ہٹا کر طلبہ کو احوال زندگی سمجھنے اور دیکھنے کا موقع نہیں دیا جاتا جس کے سبب طالب علم زندگی کے نشیب و فراز کو سمجھنے اور دیکھنے سے بالکل محروم رہتا ہے، تعلیم اور حقیقی زندگی میں کوئی ربط و ضبط نہ ہونے کی بنا پر طالب علم اس سے گھبرا جاتا ہے اور کنارہ کشی کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔

موجودہ دور میں ایک طالب علم کی کامیابی صرف یہ سمجھی جاتی ہے کہ وہ امتحان میں اعلیٰ نمبروں سے پاس ہو جائے اور مضمون میں زیادہ سے زیادہ نمبرات حاصل کرے جس کی وجہ سے اساتذہ اور سر پرست بلکہ طالب علم بھی ہر ممکن کوشش کرتا ہے گویا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ زندگی تعلیم کے لئے ہے جبکہ معاملہ اس کے برعکس ہے۔ بے انتہا جد و جہد اور محنت و کوشش کے نتیجے میں اسناد تو اعلی نمبروں سے بن جاتی ہے لیکن عدم تحریر اور فقدان تربیت کے سبب میدان عمل میں ناکام ثابت ہو جاتا ہے۔ میدان عمل میں اعلیٰ نمبر سے کامیاب طالب علم کی ناکامی قابل افسوس ہے اور اس کی ذمہ داری اصول و ضوابط سے ناواقف ذمے داران کے سر جاتی ہے جو صرف تعلیم پر زور دیتے ہیں اور تربیت سے غافل رہتے ہیں ۔
لہٰذا تعلیم و تربیت میں یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ طالب علم کی زندگی صرف تعلیم کے لئے نہیں ہوتی بلکہ تعلیم اس کی زندگی سنوارنے اور اسے با عزت انسان بنانے کے لئے دی جاتی ہے۔ اگر یہ نظریہ سامنے رکھ کر بچوں کو تعلیم دی جائے اور ان کی تربیت کا بھی بھر پور اہتمام کیا جائے تو عمدہ اسناد کے ساتھ ساتھ میدان عمل کے بھی شہسوار ہونگے اور صحیح معنوں میں مثقف و عالم کے القاب سے ملقب ہونگے ۔

مولانا محمد خالد رضا مصباحی

نواری بازار،جہانگیر گنج، امبیڈکر نگر
Mob: 9555024952

مزید پڑھیں

قلم کی طاقت قلم کی سطوت

تاریخِ ادیان و مذاھب

دنیا میں بت پرستی کی ابتداء

شیئر کیجیے

Leave a comment