مسلمان کے لیے رمضان ایک تحفہ
غلام مصطفی رضا نظامی
رمضان اسلامی مہینہ کا نواں ماہ ہے عربی لغت میں رمضان کا مادہ *رمض* ہے جس کا معنی سخت گرمی اور تپش کے ہیں- اس مہینہ کا نام رمضان رکھا گیا تواریخ میں اس کی دو وجہ ملتی ہے ایک یہ کہ جب اس مہینہ کا نام رکھا گیا اس وقت سخت گرمی کا موسم تھا اس لیے اس مہینہ کا نام رمضا. رکھا گیا، دوسری وجہ یہ ھیکہ اس مہینہ میں مسلمان روزہ سے ہوتا ہے جس کی وجہ سے بھوک وپیاس کی شدت کو محسوس کرتا ہے اس لیے اس ماہ کا نام رمضان رکھا گیا_
العلامة الشيخ علي بن سلطان محمد القاري مرقات المفاتیح میں فرماتے ہیں کہ رمضان *رمضاء* سے مشتق ہے اس کا معنی سخت گرم زمین ہے لہذا رمضان کا معنی سخت گرم ہوا_
رمضان کا یہ نام اس لیے رکھا گیا کہ جب اہل عرب نے پرانی لغت سے مہینوں کے نام منتقل کیے تو انہیں اوقات اور موسموں کے ساتھ موسوم کر دیا- اتفاقًا رمضان سخت گرمی کے موسم میں آیا تھا اس لیے اس کا نام رمضان رکھ دیا گیا اور یہی راجح قول ہے_ واللہ اعلم
یہ ماہ قوم مسلم کے لیے بہت ہی برکت اور ذریعہ نجات کا پروانہ لیکر آتا ہے کیوں کہ اس ماہ میں روزہ، تراویح، شب قدر، عشرات کے فضائل، اعتکاف اور صدقہ فطر جیسی عبادات و نیکیاں ہمیں نصیب ہوتی ہے اور سب سے اہم یہ کہ اللہ تعالی ہمیں اس ماہ میں دعادتوں کا اجر دوسرے ماہ کے بنسبت بڑھا کر عطاء کرتا ہے
رمضان کی عظمت و فضیلت
ماہ رمضان کی عظمت و فضیلت کا پتہ ہمیں اس طرح بھی لگتا ہے کہ یہ واحد ماہ ہے جس کا نام قرآن مجید کے اندر آیا جیسا کہ اللہ تعالی سورہ البقرۃ کے آیت ۱۸۵ میں ارشاد فرماتا ہے
"شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِۚ-فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُؕ-وَ مَنْ كَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَؕ-یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ٘-وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ”
ترجمہ:- رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا لوگوں کے لیے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلہ کی روشن باتیں تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے ضرور اس کے روزے رکھے اور جو بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا اور اس لیے کہ تم گنتی پوری کرو اور اللہ کی بڑائی بولو اس پر کہ اس نے تمہیں ہدایت کی اور کہیں تم حق گزار ہو_
اس آیت سے ہمیں ماہ رمضان کی دو اہم فضیلتوں کا پتہ چلتا ہے_ پہلی یہ کہ اس مہینہ میں قرآن کریم اترا اور دوسری یہ کہ روزوں کے لیے اس مہینہ کا انتخاب ہوا_
مکمل قرآن کریم رمضان شریف کی شب قدر (جو رمضان کے آخری عشرہ کے طاق راتوں میں سے کسی ایک رات میں آتا ہے) میں لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر اتارا گیا اور بیت العزت میں رہا_
جیسا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے "اِنَّـآ اَنْزَلْنَاهُ فِىْ لَيْلَـةِ الْقَدْرِ” بیشک ہم نے اس کو شب قدر میں اتارا _
پھر آگے اسی سورۃ میں ارشاد فرمایا "وَمَآ اَدْرَاكَ مَا لَيْلَـةُ الْقَدْرِ لَيْلَـةُ الْقَدْرِ خَيْـرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ تَنَزَّلُ الْمَلَآئِكَـةُ وَالرُّوْحُ فِيْـهَا بِاِذْنِ رَبِّـهِـمْ مِّنْ كُلِّ اَمْرٍ سَلَامٌ هِىَ حَتّـٰى مَطْلَعِ الْفَجْرِ”
ترجمہ:- اور آپ کو کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے۔ شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس میں فرشتے اور روح نازل ہوتے ہیں اپنے رب کے حکم سے ہر کام پر۔ وہ صبح روشن ہونے تک سلامتی کی رات ہے۔
پھر بیت العزت سے وقتًا فوقتًا حکمت کے مطابق جتنا جتنا رب العالمین کو منظور ہوا جبریل امین لاتے رہے اور یہ نزول ۲۳ سال کے عرصہ میں مکمل ہوا_
رمضان المبارک اللہ تعالی کی رحمت، بخشش و مغفرت اور نجات کا مہینہ ہے جیسا کہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ رمضان کا پہلا عشرہ رحمت کا ہے کہ اللہ تعالی پہلے عشرہ میں اپنے بندوں پر رحمت و برکت کا نزول فرماتا ہے اور دوسرا عشرہ مغفرت کا ہے کہ جوبھی بندہ دوسرے عشرہ میں صدق دل سے توبہ کرتا ہے اور اللہ کے حضور مغفرت کی دعا مانگتا ہے تو اللہ تعالی اس کی بخشش فرما دیتا ہے اور تیسرا عشرہ جہنم سے نجات پانے کا ہے_
یہ ماہ اللہ تبارک وتعالی کو بہت محبوب ہے ھجری سال کی مثال حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹوں کے مثل ہے جس میں حضرت یوسف علیہ السلام حضرت یعقوب علیہ السلام کو سب سے زیادہ محبوب ہے اسی طرح ماہ رمضان تمام مہینوں میں سب سے زیادہ محبوب ہے_
روزہ کی فضیلت:
اس ماہ میں سب سے اہم عبادت روزہ ہے یہی وجہ ہے کہ اس ماہ کو ماہ صیام بھی کہتے ہیں اس ماہ کا روزہ امت محمدیہ پر فرض کیا گیا ہے جیسا کہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے "يأَيُّهاَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَيْکُمُ الصِّيَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ (سورہ البقرة، آیت ۱۸۳
’’اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ‘‘
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روزہ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا۔
"مَنْ صَامَ رَمَضَانَ اِيْمَانًا وَّ اِحْتِسَابًا غُفِرَ لَه مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِه. (الصحیح البخاری)
’’جس نے بحالتِ ایمان ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
"اَلصَّوْمُ جُنَّةٌ مِنَ النَّارِ کَجُنَّةِ أَحَدِکُمْ مِنَ الْقِتَالِ.”
’’روزہ جہنم کی آگ سے ڈھال ہے جیسے تم میں سے کسی شخص کے پاس لڑائی کی ڈھال ہو۔‘‘
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
"كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِها إِلَی سَبْعِمِائَةِ ضِعْفٍ إِلَی مَا شَائَ اﷲُ، يَقُوْلُ اﷲُ تَعَالَی إِلَّا الصَّوْمُ فَإِنَّهُ لِی، وَأَنَا أَجْزِی بِهِ.”
’’آدم کے بیٹے کا نیک عمل دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک آگے جتنا ﷲ چاہے بڑھایا جاتا ہے۔ ﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے : روزہ اس سے مستثنیٰ ہے کیونکہ وہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزاء دونگا۔‘‘
مندرجہ بالا حدیث مبارکہ سے ہمیں اس بات کا درس ملتا ہے کہ اعمال صالحہ کا ثواب صدقِ نیت اور اخلاص کی وجہ سے دس گنا سے بڑھ کر سات سو گنا تک بلکہ بعض دفعہ اس سے بھی زیادہ ہوتا ہے لیکن روزہ کا ثواب بے حد اور بے اندازہ ہے۔ یہ کسی ناپ تول اور حساب کتاب کا محتاج نہیں، اس کی مقدار اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا
روزے کی اس قدر فضیلت کے درج ذیل اسباب ہیں :
پہلا سبب : روزہ لوگوں سے پوشیدہ ہوتا ہے اسے ﷲ کے سوا کوئی نہیں جان سکتا جبکہ دوسری عبادتوں کا یہ حال نہیں ہے کیونکہ ان کا حال لوگوں کو معلوم ہو سکتا ہے۔ اس لحاظ سے روزہ خالص ﷲ تعالیٰ کے لئے ہی ہے۔ *فانّا لِيْ* سے اسی کی طرف اشارہ ہے۔
دوسرا سبب : روزے میں نفس کشی، مشقت اور جسم کو صبر و برداشت کی بھٹی سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس میں بھوک، پیاس اور دیگر خواہشاتِ نفسانی پر صبر کرنا پڑتا ہے جبکہ دوسری عبادتوں میں اس قدر مشقت اور نفس کشی نہیں ہے۔
تیسرا سبب : روزہ میں ریاکاری کا عمل دخل نہیں ہوتا جبکہ دوسری ظاہری عبادات مثلاً نماز، حج، زکوٰۃ وغیرہ میں ریاکاری کا شائبہ ہو سکتا ہے۔
حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ کا فرمان ہے کہ میری امت کو ماہ رمضان میں پانچ چیزیں ایسی عطا کی گئیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی علیہ السلام کو نہ ملیں۔
پہلی یہ کہ جب رمضان المبارک کی پہلی رات ہوتی ہے تو ﷲ تعالیٰ ان کی طرف رحمت کی نظر فرماتا ہے اور جس کی طرف ﷲ تعالیٰ نظر رحمت فرمائے اسے کبھی بھی عذاب نہ دے گا۔دوسری یہ کہ شام کے وقت ان کے منہ کی بو (جو بھوک کی وجہ سے ہوتی ہے) ﷲ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے۔تیسرے یہ کہ فرشتے ہر رات اور دن ان کے لئے مغفرت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں۔چوتھے یہ کہ ﷲ تعالیٰ جنت کو حکم دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے ’’میرے (نیک) بندوں کے لئے مزین ہوجا عنقریب وہ دنیا کی مشقت سے میرے گھر اور کرم میں راحت پائیں گے۔پانچواں یہ کہ جب ماہ رمضان کی آخری رات آتی ہے تو ﷲ تعالیٰ سب کی مغفرت فرمادیتا ہے۔رمضان کے اس مبارک ماہ کی ان تمام فضیلتوں کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں کو اس مہینہ میں عبادت کا خاص اہتمام کرنا چاہیے اور کوئی لمحہ ضائع اور بے کار جانے نہیں دینا چاہیے۔