مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں

مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں

Table of Contents

مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں

از قلم:ابوضیاغلام رسول مِہرسعدی

مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں
مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں

 

ہمارے پیارے آقا مکی مدنی مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا فرمان عالیشان ہےکہ "مومنوں کی مثال تو ایک جسم کی طرح ہے کہ اگر ایک عُضْو(حصہ) کوتکلیف پہونچے تو ساراجسم اس تکلیف کو محسوس کر تاہے.،،

(بحوالہ بخاری شریف ج4

ص103حدیث6011)

لہذا ہم اپنے بھائی، برادر اہل خانہ، رشتے دار، پڑوسی اور تمام امت مسلمہ کا خاص خیال رکھتے ہوئے عزمِ مصمم کرلیں کہ ہم بلاوجہ شرعی جھگڑا کرکے نہ کسی کو تکلیف دیں گے اور نہ خود تکلیف لیں گے.

کیونکہ جھگڑا کی نحوست اتنی خطرناک ہوتی ہے کہ کبھی کبھی نعمتیں ہم سے چھین لی جاتی ہیں. جیسا کہ "شب قدر” کی تعیُّن کے تعلق سےحدیث پاک میں ہے! حضرت سیدنا عُبادہ بن صامِت رضی اللہ تعالٰی عنہ سےروایت ہےکہ مکی مدنی آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم باہر تشریف لائے تاکہ ہم کو شب قدر کے بارے میں بتائیں کہ (کہ شب قدر کس رات میں ہےمگر ) دومسلمان آپس میں جھگڑ رہے تھے. آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا :”میں اس لیے آیا تھا کہ تمہیں شب قدر بتاؤں لیکن فلاں فلاں شخص جھگڑرہے تھے. اس لئے اس کا تَعیُّن اٹھا لیا گیا. اور ممکن ہے کہ (اب) اسی میں تمہاری بہتری ہو. اب اس کو (آخری عشرے کی) نویں، ساتویں، اور پانچویں راتوں میں ڈھونڈو.،،(بخاری شریف ج1ص663)

اس سے ہمیں درس عبرت پکڑ نی چاہئے کہ جھگڑا کی نحوست کتنی خطرناک ہوتی ہےکہ جس کی بنیاد پر رحمت سے دوری کا سبب بن جاتاہے.

مگر افسوس صد افسوس! کہ کون کس کو سمجھائے؟ آج تو بڑے فخر سے کہاجارہاہے کہ "اس دنیا میں شریف بن کر تو گُزارہ ہی نہیں ہوگا، ہم تو شریفوں کے ساتھ شریف اور بدمعاشوں کے ساتھ بدمعاش ہیں !

مسلمانو! ہم تو ایک دوسرے کے محافظ ونگہبان تھے ہم کو کیا ہوگیاہے؟ ہمارے پیارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں کہ مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں کہ جسم میں کہیں تکلیف ہوتو پوراجسم اس تکلیف کو محسوس کر تا ہے اور سارا جسم بےچین وبےقراررہتاہے

بلکہ جسم کے بعض دوسرے حصے اس تکلیف والے حصے کو آرام پہنچانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اے کاش کہ مسلمان بھی اپنے مسلمان بھائی کے لئے ایسا ہوجاتے.

اور دوسرے مسلمان بھائی کی تکلیف سے ہم بھی بےچین ہو کر ان کی تکلیف کو دور کر نے کی کوشش کرتے.

تکلیف دور کرنے کاثواب بھی کیاخوب ہے

اللہ کے پیارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا. "میں نے ایک شخص کو جنت میں گھومتے ہوئے دیکھا کہ جدھر چاہتاتھانکل جاتا تھا. جانتے ہو کیوں؟ صرف اس لئے کہ اس نے اس دنیا میں ایک درخت راستے سے اس لئے کاٹ دیا تھا کہ مسلمانوں کو راہ چلنے میں تکلیف نہ ہو.،،

(بحوالہ مسلم شریف 1410)

ایک حدیث کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ "جب تک تم اپنے بھائی کی مدد میں رہوگے اللہ تعالیٰ تمہاری مدد میں رہے گا.

مسلمان لڑائی کرنے والا اور جھگڑا کرنے والا نہیں ہوتا.

لڑنا ہےتواپنے نفس کےساتھ لڑیں! آپس میں لڑائی جھگڑا اور لُوٹ مار سے پرہیزکریں. اگر لڑناہی ہے تومردودشیطان اور نفس امّارہ سے لڑیں. مگرآپس میں بھائی بھائی بن کر رہیں. آپس میں جھگڑا کرنے کا کتنا بڑا نقصان ہے وہ تودیکھ ہی لیاکہ شب قدر کی تعیِین اُٹھالی گئی. اس کے علاوہ بھی آپس میں لڑائی جھگڑا کرنے سے نہ جا نےکیسی کیسی عظیم نعمتوں اور رحمتوں سے ہم محروم کئے جاتے ہونگے؟ اللہ پاک ہمارے حال زارپررحم فرمائے اور اس بات کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم اگرچہ بہاری، بنگالی، نیپالی، کرناٹکی،قادری، چشتی،نقشبندی،سہروردی،

رضوی،اشرفی،برکاتی،رشیدی،

نوری اور کوئی شیخ،

پٹھان،وغیرہ سے تعلق رکھتے ہوں مگر ہم سب تو عَرَبی آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے غلام ہیں. ہمارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نہ بہاری ہیں نہ بنگالی، نہ یوپیَن، نہ کرناٹکی، بلکہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم تو "عَرَبی” ہیں. اے کاش! ہم حقیقی معنوں میں عَرَبی آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے دامن کرم سے لِپٹ کر سچے غلام رسول بن جائیں اور تمام نسلی لسانی فروعی اختلافات کو مٹاکرایک اور نیک بن جائیں. "اتحاد زندگی ہے اختلاف موت”

فردقائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں

موج ہے دریا میں اور بیرُون دریا کچھ نہیں

ایک ہوجا ئیں تو بن سکتےہیں ہیں خورشید مبیں

ورنہ ان بکھرے ہوئے ستاروں سے کچھ نہیں ہوتا

ہم ایک دوسرے کی ہمدردی اور غمگساری کرنے والے بن جائیں اور خوشیاں پہونچانے والے بن جائیں.

مسلمانوں کے دل خوش کرنے کی بھی عجیب برکتیں ہیں

پیارے نبی کریم اشرف الاولین وآخرین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا فرمان جنت نشان ہے :”جو شخص کسی مسلمان کے دل میں خوشی داخل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس خوشی سے ایک فرشتہ پیدا فرماتاہے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت اور توحید بیان کرتا ہے. جب وہ بندہ اپنی قبر میں چلاجاتاہے تووہ فرشتہ اس کے پاس آکر پوچھتا ہے :” کیا تومجھے نہیں پہچانتا؟،، وہ کہتاہے کہ توکون ہے؟ تووہ فرشتہ کہتاہے کہ میں وہ خوشی ہوں جسے تونے فلاں مسلمان کے دل میں داخل کیا تھا، اب میں تیری وحشت میں تیرامونس ہوں گا اور سوالات کے جوابات میں ثابت قدم رکھوں گا اور روز قیامت میں تیرے پاس آؤں گا اور تیرے لئے تیرے رب کی بارگاہ میں سفارش کروں گا اور تجھے جنت میں تیرا ٹھکانا دکھاؤں گا.(بحوالہ الترغیب والترہیب ج3ص266حدیث23)

کیا اب بھی ہم ایک دوسرے سے پیارومحبت اور بھائی چارگی کابرتاؤ نہیں کریں گے؟ اور دوسرے مسلمان بھائیوں کے دلوں کو خوش کرنے کی کوشش نہیں کریں گے؟ یہ میرا سوال ہے مجھ سمیت ہرایک مسلمان سے!

نیزمسلمان ایک دوسرے کو مارنے، کاٹنےاور لُوٹنے، ایک دوسرے کو برباد کرنے والا نہیں ہوتاہے بلکہ خیر خواہ ہوتاہے.

اللہ پاک ہمیں ایک دوسرے کا خیر خواہ بنائے اور شریعت وسنت کی پابندی کےساتھ زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ سیدالمرسلین واشرف الاولین وآخرین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم

فقط

از قلم:ابوضیاغلام رسول مِہرسعدی

خلیفہ حضور شیخ الاسلام، حضور قائد ملت حضرت علامہ الشاہ سید محمد محمود اشرف اشرفی جیلانی کچھوچھہ مقدسہ ومفتی انوار الحق خلیفہ حضور مفتی اعظم ھندرضی اللہ عنہ بریلی شریف

مقام بوہر پوسٹ تیلتاضلع کٹیہار بہار انڈیا

٢٦رمضان المبارک 1442ھ بمطابق 9مئی 2021ءبروز اتوار بعد فجر

فیضان مدینہ مسجد علی بلگام کرناٹک انڈیا

آخری سرمایہ کیا ہے؟

شیئر کیجیے

Leave a comment