مقرر کے لئے کتنی شرائط ہیں؟
ازقلم:گلزار علی مصباحی
سوال:
مقرر کے لئے کتنی شرائط ہیں؟
الجواب بعون الوہاب:
مقرر کے لئے چار شرائط ہیں،ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر نہیں کر سکتا۔
اعلی حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
واعظ(مقرر) کے لئے (چار شرائط ہیں)
پہلی شرط:
*یہ ہے کہ مسلمان ہو، دیوبندی عقیدے والے مسلمان ہی نہیں ان کا وعظ (تقریر) سننا حرام اور دانستہ (جان بوجھ کر) انھیں واعظ بنانا کفر ہے۔*
علماء حرمین شریفین نے فرمایا ہے کہ: "من شک فی کفرہ و عذابہ فقد کفر"
ترجمہ:
جس نے ان کے کفر اور عذاب میں شک کیا اس نے کفر کیا۔(در المختار، کتاب الجہاد باب المرتد مطبع مجتبائی دہلی جلد اول صفحہ ٣٥٦، حسام الحرمین علی منحر الکفر والمین مطبع اہل سنت و جماعت بریلی صفحہ ٩٤)*
*اسی طرح تمام وہابیہ و غیر مقلدین فانھم جمیعا اخوان الشیاطین ( کہ وہ سب شیطانوں کے بھائی ہیں)*
دوسری شرط:
*سنی ہونا، غیر سنی کو واعظ بنانا حرام ہے، اگر چہ بالفرض وہ بات ٹھیک ہی کہے۔*
*حدیث میں ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں "من وقر صاحب بدعۃ فقد اعان علی ھدم الاسلام”*
*ترجمہ: جس نے بد مذہب کی توقیر کی اس نے دین اسلام کے ڈھانے پر مدد دی۔*( کنز العمال حدیث نمبر ١١٠٢ مو سسۃ الرسالہ بیروت جلد اول صفحہ ٢١٩)
تیسری شرط:
*عالم ہونا، جاہل کو واعظ کہنا نا جائز ہے۔ جیسا کہ ارشاد( یعنی حدیث شریف میں) ہے: "اتخذ الناس روسا جھال فسئلوا فافتوا بغیر علم فضلوا و اضلوا”*
*ترجمہ: لوگوں نے جاہلوں کو سردار بنا لیا پس جب ان سے سوال کیا گیا تو انھوں نے بے علم احکام شرعی بیان کرنے شروع کئے تو اپنے آپ بھی گمراہ ہوئے اور آوروں کو بھی گمراہ کیا۔*(صحیح البخاری کتاب العلم باب کیف یقبض العلم، قدیمی کتب خانہ کراچی، جلد اول صفحہ ٢٠)
چوتھی شرط:
*فاسق نہ ہونا، تبین الحقائق وغیرہ میں ہے: "لان فی تقدیمہ للامامۃ تعظیمہ وقد وجب علیہم اھانتہ شرعا”*
*ترجمہ: کیونکہ اسے امامت کے لئے مقدم کرنے میں اس کے تعظیم ہے حالانکہ شرعا مسلمانوں پر اس کی توہین واجب ہے۔*( تبین الحقائق، باب الامامت والحدث فی الصلاۃ المطبعۃ الکبری بولاق مصر جلد اول صفحہ ١٣٤)
*اور جب یہ سب شرائط مجتمع ہوں سنی صحیح العقیدہ عالم دین متقی وعظ فرمائے تو عوام کو اس کے وعظ میں دخل دینے کی اجازت نہیں، وہ ضرور مصالح شرعیہ کا لحاظ رکھے گا، ہاں اگر کسی جگہ کوئی خاص مصلحت ہو جس پر اسے اطلاع نہیں تو پیش از وعظ مطلع کر دیا جائے،* واللہ تعالیٰ اعلم۔( فتاویٰ رضویہ جلد ٢٩ صفحہ ٧٠،٧١ مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور کراچی،پاکستان)
عالم کی تعریف کیا ہے؟
بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ صرف کسی مدرسہ سے عالم یا فاضل کی ڈگری حاصل کرنے سے آدمی عالم اور فاضل بن جاتا ہے، یہ ایک بڑی غلط فہمی ہے۔ بلکہ در حقیقت عالم وہ ہے جو مکمل طور پر عقائد سے واقف ہو اور اپنی ضروریات کے مسائل کسی کے سہارے لئے بغیر از خود کتاب سے نکالنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
مجدد اسلام، اعلی حضرت، امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا بریلوی رضی اللہ عنہ عالم کی تعریف یوں فرماتے ہیں:
*”عالم کی تعریف یہ ہے کہ عقائد سے پورے طور پر آگاہ ہو اور اپنی ضروریات کو کتاب سے نکال سکے بغیر کسی کے مدد کے”*
( احکام شریعت،حصہ دوم،صفحہ ٢٣١)
اس سے یہ معلوم ہوا کہ عالم ہونے کے لئے درس نظامی، عالم یا فاضل کورس کرنے سے ہی کوئی عالم نہیں ہو جاتا،بلکہ اس کے لئے مستقل صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے۔
اعلی حضرت ایک جگہ اور فرماتے ہیں:
*سند(ڈگری) کوئی چیز نہیں، بہتیرے(بہت)سند یافتہ محض بہرہ (علم دین سے خالی) ہوتے ہیں، اور جنہوں نے سند نہ لی ان کی شاگردی کی لیاقت بھی ان سند یافتوں میں نہیں ہوتی،علم ہونا چاہیے۔* ( فتاویٰ رضویہ جلد ٢٣ صفحہ ٦٨٣)
حضور فقیہ ملت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: *صحیح معنی میں عالم دین بننے کے لئے علماء اہل سنت خصوصاً اعلی حضرت امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان کی تصنیفات کا زیادہ سے زیادہ مطالعہ کرو۔*
*عالم کی سند مل جانے کو کافی نہ سمجھو بلکہ زندگی بھر تحصیل علم میں لگے رہو اور یقین کرو کہ زمانہ طالب علمی میں صرف علم حاصل کرنے کی صلاحیت پیدا کی جاتی ہے اور حقیقت میں علم حاصل کرنے کا زمانہ فراغت کے بعد ہی ہے۔*(انوار الحدیث صفحہ ٤٢٣،مطبوعہ کتب خانہ امجدیہ دہلی)
آج کل بہت سے ایسے علماء پائے جاتے ہیں جو عالم اور فاضل کی ڈگری تو حاصل کر چکے ہیں لیکن اب تک وہ مکمل طور پر عقائد سے واقف نہیں۔ ایسے لوگ جب تقریر کرتے ہیں تو کبھی کبھی غلط عقائد اور غلط مسائل بیان کر دیتے ہیں،جس کی وجہ سے معاشرے میں اختلاف و انتشار پھیل جاتا ہے۔
لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ لوگ کافی مطالعہ کریں تاکہ صرف سںند یافتہ عالم نہ رہے بلکہ حقیقت میں عالم ہو جائیں۔
عقائد و مسائل کی جانکاری کے لئے مذکورہ کتاب مطالعہ میں رکھیں:
شرح عقائد، ہدایہ، فتاوی رضویہ، کنزالایمان، بہار شریعت، تفسیر نعیمی، مراٰۃ المناجیح، قانون شریف، احیاء العلوم، حسام الحرمین، الصوارم الہندیہ، حدوث الفتن و جھاد اعیان السنن (اردو ترجمہ بنام فتنوں کا ظہور اور اہل حق کا جہاد)، منصفانہ جائزہ اور دیگر معتمد علماء اہل سنت کی کتابیں۔ خاص طور پر اعلی حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کتابیں زیادہ سے زیادہ مطالعہ کریں۔
خیر الاذکیاء، استاذ العلماء ، صدر العلماء حضرت علامہ محمد احمد مصباحی صاحب(ناظمتعلیمات الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور فرماتے ہیں):
*”اعلٰی حضرت قدس سرہ کی کتابوں کا مطالعہ کیجئے کہ حقیقی علم ان کتابوں سے آپ کو حاصل ہوگا اور ساتھ ساتھ طرز تحقیق، طرز بیان، طرز گفتگو بھی معلوم ہوگا، جو چیزیں آپ کو بہت سی کتابوں میں نہیں ملیں گی وہ آپ کو اعلٰی حضرت کے رسائل میں ملیں گی اور میں بارہا یہ سیمیناروں میں، مجمعوں میں کہا ہے اور نجی مجلسوں میں بھی کہ بر صغیر کے ماحول میں اعلیٰ حضرت کے رسائل کے مطالعے کے بغیر کوئی شخص کما حقہ عالم نہیں ہوسکتا،
یہاں ہم نصاب کی تکمیل کرنے والے کو سند جاری کردیتے ہیں عالم فاضل اس کو بتا دیتے ہیں، لیکن جس قدر وہ اعلٰی حضرت کی کتابوں سے دور ہوگا، اسی قدر اس کے اندر سطحیت زیادہ ہوگی اور جس قدر وہ کتب اعلٰی حضرت کو گہرائی اور گیرائی سے دیکھے گا اسی قدر اس کے اندر ژرف نگاہی اور تعمق پیدا ہوگا اور اسی قدر اس کے علم میں جلا آئیگی۔”*
*”آپ خود اس کا مطالعہ کرکے تجربہ کرسکتے ہیں اور اس کا مطالعہ کرنا اور تجربہ کرنا ضروری بھی ہے، دوطرح کے انسان ہوتے ہیں، ایک تو کم علم ہوتے ہیں، ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے علم کو روشنی بخشنے کے لیے اعلیٰ حضرت کے رسائل کا مطالعہ کریں، اور کچھ وہ ہوتے ہیں جنھوں نے درس نظامی کا کورس مکمل کرلیا اور ہر درجہ میں فرسٹ نمبر حاصل کیا تو سمجھ لیا کہ ہم بہت بڑے علامہ، فہامہ ہوگئے، وہ اعلٰی حضرت کی کتابوں کا مطالعہ کریں گے تو معلوم ہوگا کہ طفل مکتب بھی نہیں ہیں جب ان کی تصانیف اور تحقیقات کو دیکھیں گے تو اندازہ ہوگا کہ کس جبل شامخ اور کس بلند پہاڑ کے سامنے ہم ہیں، کہتے ہیں۔*
*”جب تک اونٹ نے پہاڑ نہیں دیکھا ہے تب تک وہ سمجھتا ہے کہ اس سے بڑا کوئی نہیں ہے اور جب پہاڑ کے سامنے آتا ہے تب اس کو اپنی بساط معلوم ہوتی ہے تو اپنی بساط اور حقیقت معلوم کرنے کے لیے بھی ہم اس جبل شامخ کی کتابوں کا مطالعہ کریں، اس سے استفادہ بھی کریں اور ساتھ ساتھ اپنی اوقات بھی معلوم کریں کہ اتنی عمر صرف کرنے کے بعد ہم کہاں تک پہنچے۔”*(نوائے دل ص 243)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو کثرت مطالعہ کی توفیق عطا فرمائے، آمین بجاہ النبی الامین الکریم صلی اللہ علیہ وسلم۔
ازقلم: گلزار علی مصباحی
راۓگنج، اتر دیناج پور، بنگال
١٠ شوال المکرم ١٤٤٢ھ ,٢٣ مئی ٢٠٢١