کفرفقہی کے اقسام واحکام (قسط چہارم)

کفرفقہی کے اقسام واحکام (قسط چہارم)

Table of Contents

کفرفقہی کے اقسام واحکام

(قسط چہارم)

کفرفقہی کے اقسام واحکام (قسط چہارم)
کفرفقہی کے اقسام واحکام (قسط چہارم)

از قلم: طارق انور مصباحی

ضروریات دین کی دوقسمیں ہیں۔

ضروریات دین کی قسم اول کو ضروریات دین کہا جاتا ہے۔ضروریات دین کی قسم دوم کوضروریات اہل سنت کہا جاتا ہے۔ضروریات دین قسم اول کے انکار کی چار صورتیں ہیں۔ان چاروں صورتوں کا تفصیلی بیان مرقوم ہوچکا۔اجمالی تذکرہ مندرجہ ذیل ہے۔

(1)ضروریات دین کا مفسر انکار:اس کو کفرکلامی اور کفر متعین کہا جاتا ہے۔

(2)ضروریات دین کا بطورنص وظاہر انکار:اس کو کفر فقہی قطعی اور کفر متبین کہا جاتا ہے۔متکلمین اس کفر کوضلالت وگمرہی کہتے ہیں۔یہ تعبیری اوراصطلاحی اختلاف ہے۔

(۳)ضروریات دین کا ظنی انکار:اس کوکفر فقہی ظنی کہا جاتا ہے۔

(۴)ضروریات دین کا مرجوح انکار:اس کوکفر احتمالی کہا جاتا ہے۔اس صورت میں حکم کفر نہیں دیا جاتا۔

ضروریات اہل سنت کا انکار

ضروریات اہل سنت کا انکار فقہائے احناف اوران کے مؤیدین کے یہاں کفرفقہی ہے۔ متکلمین اس انکار کو ضلالت وگمرہی کہتے ہیں۔تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔

ضروریات اہل سنت کے انکار پرکفر فقہی کا حکم عائد ہونے کی دوشرطیں ہیں:

(۱)منکر کو اس کے قطعی ہونے کا علم ہو۔(۲)تاویل فاسد کے سبب انکار کیا ہو۔

دیگر صورتیں مندرجہ ذیل ہیں۔

(۱)اگر لاعلمی کی حالت میں ضروریات اہل سنت کا انکار کیا تونہ فقہائے احناف کے یہاں کفر فقہی کا حکم ہے،نہ ہی متکلمین کے یہاں ضلالت وگمرہی کا حکم ہے۔

(۲)اگر منکر کواس کے قطعی ہونے اورضروریات اہل سنت میں سے ہونے کا علم ہے، اس صورت میں بلا تاویل انکارکرے تو یہ استخفاف بالدین او رکفر عنادی ہے۔اس صورت میں فقہا ومتکلمین دونوں کے یہاں منکر پر کفر کا حکم عائد ہوگا۔ یہ کفر کلامی ہے۔

ضروریات اہل سنت کے انکارکی صورتیں

ضروریات اہل سنت کا انکار،خواہ نص کے طریقے پر ہو،یا بطور مفسرہو، یعنی انکار صریح متبین ہو، یا صریح متعین ہو۔دونوں کاحکم ایک ہے۔ ضروریات اہل سنت کا انکار متکلمین کے یہاں گمرہی اور فقہائے احناف اوراس کے مؤیدین کے یہاں کفر فقہی ہے۔

انکار صریح کی دونوں قسموں میں اجتہاد جاری نہیں ہوگا۔انکار مفسر،یعنی انکار صریح متعین قطعی بالمعنی الاخص انکار ہوتاہے۔قطعی بالمعنی الاخص میں اجتہاد کی اجازت نہیں۔ایسا نہیں کہ بعض کے یہاں انکار ثابت ہو اور بعض کے یہاں انکار ثابت نہ ہو۔

انکار بطریق نص یعنی انکار صریح متبین,قطعی بالمعنی الاعم انکار ہوتاہے۔قطعی بالمعنی الاعم میں بھی اجتہاد کی اجازت نہیں۔ فقہا ومتکلمین دونوں کے یہاں انکار ثابت ہو گا اور انکار میں احتمال بعید ہو گا۔احتمال بعید فقہا کے یہاں معتبر نہیں۔

ضروریات اہل سنت کا لزومی انکار ہوتووہاں اجتہاد ہوگا۔بعض کے یہاں انکارلزومی ثابت ہوگا،بعض کے یہاں ثابت نہیں ہوگا۔اسی اعتبارسے منکر کے حکم میں بھی اختلاف ہو گا۔یہاں لزوم بین کی صورت میں متکلمین کے یہاں حکم ضلالت ثابت ہوگا۔

حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی خلافت راشدہ کی حقانیت ضروریا ت اہل سنت میں سے ہے۔ضروریات دین میں سے نہیں۔(مطلع القمرین:ص 78)

کوئی کہے کہ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ بلا فصل ہیں تو اس نے صریح لفظوں میں حضرات خلفائے ثلاثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی خلافت کا انکار نہ کیا،لیکن خلیفہ چہارم خلیفہ بلا فصل اسی وقت ہوں گے جب ماقبل کے تینوں خلفائے راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی خلافت کوکالعدم قرار دیا جائے۔اس کے علاوہ کوئی راہ نہیں۔

خلیفہ چہارم کوخلیفہ بلافصل ماننے سے ماقبل کے تینوں خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین کی خلافت کا کالعدم ہونا لزو م بین کے طورپر ثابت ہے۔ اسی طرح تاویل فاسد کے سبب وہ لوگ خلافت خلفائے ثلاثہ کا صریح انکار بھی کرتے ہیں۔خلفائے ثلاثہ کی خلافت کے انکار کے سبب ماقبل کے تبرائی شیعہ فقہا کے یہاں کافر اور متکلمین کے یہاں گمراہ ہیں۔

تیرہویں صدی ہجری سے روافض نے کفر کلامی کی راہ اختیارکرلی۔وہ قرآن مجید کو ناقص اورحضرات ائمہ اہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کوحضرات انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام سے افضل بتانے لگے۔یہ دونو ں امر کفر کلامی ہیں۔اسی سبب سے مابعد کے تبرائی روافض پر کفر کلامی کا حکم عائد ہوا۔ روافض میں فرقہ تفضیلیہ پر کفرکاحکم نہیں۔وہ گمراہ وبدعتی ہیں۔

فتاویٰ رضویہ سے ضروریات اہل سنت سے متعلق سوال وجواب مندرجہ ذیل ہے:

سوال:کیا شیعوں کے سب فرقے اورغیر مقلدین سب سے سب کافر ہیں؟

الجواب:ان میں ضروریات دین سے کسی شئ کا جومنکر ہے،یقینا کافر ہے،اور جو قطعیات کے منکر ہیں،ان پر بحکم فقہا لزوم کفر ہے،اور اگر کوئی غیر مقلد ایسا پایا جائے کہ صرف انھیں فرعی اعمال میں مخالف ہو،اورتمام عقائد قطعیہ میں اہل سنت کا موافق،یا وہ شیعی کہ صرف تفضیلی ہے توایسوں پر حکم تکفیر ناممکن ہے:واللہ تعالیٰ اعلم
(فتاویٰ رضویہ: جلد 14 ص281-جامعہ نظامیہ لاہور)

توضیح: منقولہ بالا عبارت میں قطعیات سے ضروریات اہل سنت مرادہیں،جو ضروریات دین کی قسم دوم ہے۔ قسم دوم کے انکارکو کفرفقہی بتایا گیا۔ قسم دوم کا مفسرانکار بھی متکلمین کے یہاں ضلالت وگمرہی ہے۔ کفر کلامی کوکفر التزامی کہا جاتا ہے اورکفر فقہی کوکفر لزومی کہا جاتا ہے،حالاں کہ کفر فقہی میں بھی لزوم والتزام دونوں صورتیں ہوتی ہیں،لیکن کفر فقہی میں تاویل بعید موجود ہوتی ہے،لہٰذا متکلمین کے یہاں التزام کفر میں اس کا شمار نہیں کیا جاتا۔

ضروریات دین کا غیر مفسر انکار ہوتوانکارہی میں تاویل بعید موجود ہوگی۔

اگر ضروریات اہل سنت کا مفسر انکار ہوتو انکار میں تاویل بعید نہیں،لیکن ضروریات اہل سنت قطعی بالمعنی الاعم امور ہیں۔جن دلائل سے ان کا ثبوت ہوتا ہے۔ ان دلائل کے ثبوت یا دلالت میں تاویل بعید ہوتی ہے،مثلاًقرآن مجید کی آیت مقدسہ کسی مفہوم پربطور نص دلالت کرے،بطور مفسر دلالت نہ کرے تو دلالت میں تاویل بعید ہے۔آیت قرآنیہ کے ثبوت میں تاویل بعید نہیں،بلکہ تمام آیات قرآنیہ اور نظم قرآنی کے الفاظ وحروف متواتر لفظی ہیں اوران کا ثبوت قطعی بالمعنی الاخص کے طریقے پر ہے کہ تاویل وشبہہ کی کوئی گنجائش نہیں۔

اگر کوئی حدیث متواتر معنوی ہو،متواتر لفظی نہ ہو،اور کسی مفہوم پر بطور مفسر دلالت کرے تو دلالت قطعی بالمعنی الاخص ہے،لیکن ا س متواتر معنوی حدیث کا ثبوت قطعی بالمعنی الاعم ہے۔ اس کے ثبوت میں احتمال بعید ہے۔

ضروریات دین اورضروریات اہل سنت کی تشریح

ضروریات اہل سنت کا دونام ہے:(۱)قطعی غیرضروری (۲)ضروریات دین کی قسم دوم۔ضروری دینی کی قسم اول اورقسم دوم کا بیان مندرجہ ذیل عبارت میں ہے۔

قال الہیمتی الشافعی ناقلًا عن تقی الدین السبکی الشافعی:
(ثم المعلوم بالضرورۃ من الشرع قسمان-احدہما ما یعرفہ الخاصۃ والعامۃ-والثانی ما قد یخفی علٰی بعض العوام-ولا ینافی ہذا- قولنا انہ معلوم بالضرورۃ-لان المراد من مارس الشریعۃ-عَلِمَ مِنہَا ما یحصل بہ العلم الضروری بذلک-وہذا یحصل لبعض الناس دون بعض بحسب الممارسۃ وکثرتہا اوقلتہا اوعدمہا۔

فالقسم الاول من انکرہ من العوام والخواص فَقَد کَفَرَ-لانہ کَالمُکَذِّب لِلنَّبِیِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی خبرہ-ومن ہذا القسم انکار وجوب الصلٰوۃ والصوم والزکاۃ والحج ونحوہا وتخصیص رسالتہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ببعض الانس-فمن قال ذلک-فلا شک فی کفرہ وان اعترف بانہ رسول اللّٰہ-لان عموم رسالتہ الٰی جمیع الانس مما یعلمہ الخواص و العوام بالضرورۃ من الدین۔

والقسم الثانی من انکرہ من العوام الذین لم یحصل عندہم من ممارسۃ الشرع-ما یحصل بہ العلم الضروری،لم یکفر-وان کانت کثرۃ الممارسۃ توجب للعلماء العلم الضروری بہ)
(الفتاوی الحدیثیہ: ص144-دار الفکر بیروت)

توضیح:منقولہ بالاعبارت میں ضروریات دین کی دونوں قسم کا بیان ہے۔

ضروریات اہل سنت کے انکار پر کفرفقہی کا حکم

(1)قال الہیتمی:(وَلَا یَکفُرُ بانکار قطعی غیر ضروری کاستحقاق بنت الابن السدس مع بنت الصلب-

وظاہر کلام الحنفیۃ کُفرُہٗ-ویجب حملہ اَی بناءً علٰی قواعدہم علٰی مُنکِرٍ عَلِمَ اَنَّہٗ قَطعِیٌّ-وَاِلَّا فَلَا یَکفُرُ-اِلَّا اذا ذکر لہ اہل العلم انہ من الدین وانہ قطعی فتمادی فیما ہو علیہ عنادًا فَیَکفُرُلظہور التکذیب منہ حینئذ کما دل علیہ کلام امام الحرمین)
(الفتاوی الحدیثیہ ص141-دار الفکربیروت)

توضیح: (وظاہر کلام الحنفیۃ کفرہ)سے ثابت ہے کہ فقہائے احناف قطعی غیر ضروری (ضروریات اہل سنت)کے انکار پر حکم کفر جاری کرتے ہیں۔

(علم انہ قطعی)سے ثابت ہے کہ منکر کوضروریات اہل سنت کی قطعیت کا علم ہو۔

منقولہ بالا عبارت میں ضروری دینی کی قسم دوم کوقطعی غیر ضروری کہا گیا اور یہ بتایا گیا کہ حنفی فقہا قطعی غیرضروری کے انکار پر بھی کفر کا حکم عائد کرتے ہیں۔

فقہائے احناف کے یہاں ہرقطعی کے انکار پر حکم کفر عائد ہوگا۔خواہ وہ امرقطعی بالمعنی الاخص(ضروریات دین) ہو،یا قطعی بالمعنی الاعم (ضروریات اہل سنت)،جب کہ منکر کو معلوم ہوکہ یہ قطعی ہے۔ضروریات اہل سنت کے انکار پر کفر فقہی کا حکم عائدہوتا ہے۔

امام الحرمین عبد الملک بن ابومحمد جوینی شافعی (۹۱۴؁ھ-۸۷۴؁ھ) کے کلام سے واضح ہے کہ اگرکسی نے ضروریات اہل سنت میں سے کسی امر کا انکار لاعلمی کی حالت میں کیا، پھر اسے بتادیا گیاکہ یہ قطعی ہے،اس کے باوجود محض اپنی ہٹ دھرمی کے سبب انکار کیا تو یہ استخفاف بالدین وکفرعنادی ہے۔اس کے سبب متکلمین کے یہاں بھی کفر کا حکم عائدہو گا۔

اگر عناد وہٹ دھرمی کے سبب انکار نہیں کیا،بلکہ تاویل فاسد کے سبب انکارکیا تو متکلمین کے یہاں ضلالت وگمرہی کاحکم ہے اور فقہائے احناف کے یہاں کفر کا حکم ہے۔

(2)قال الامام احمد رضا القادری:(اقول:تحقیق المقام اَنَّ اَکثَرَ الحَنفیۃ یُکَفِّرُونَ بانکارکل مقطوع بہ-کما ہومُصَرَّحٌ فی رد المحتار وغیرہ-وہم ومن وافقہم،ہم القائلون بانکارکل مجمع علیہ-بَعدَ مَا کَانَ الاِجمَاعُ قَطعِیًّا نَقلًا وَدَلَالَۃً-وَلَاحَاجَۃَ اِلٰی وجود النص-وَالمُحَقِّقُونَ لَا یُکَفِّرُونَ اِلَّا بانکارمَا عُلِمَ مِنَ الدِّینِ ضَرُورَۃً بحیث یشترک فی معرفتہ الخاص والعام المخالطون للخواص-فان کان المجمع عَلَیہِ ہکذا-کَفَرَ مُنکِرُہ-وَاِلَّا،لَا-وَلَا حَاجَۃَ عند ہم اَیضًا اِلٰی وجود نَصٍّ-فَاِنَّ کَثِیرًا مِن ضَرُورِیَاتِ الدِّین مِمَّا لَا نَصَّ عَلَیہِ کَمَا یَظہَرُبِمُرَاجَعَۃِ ”الاعلام”وغیرہ)
(المعتمد المستند ص195- المجمع الاسلامی مبارک پور)

توضیح: (تحقیق المقام ان اکثر الحنفیۃ یکفرون بانکارکل مقطوع بہ)سے ثابت ہے کہ اکثر فقہائے احناف ہر قطعی کے انکار پر حکم کفر جاری کرتے ہیں۔

قطعی کی دوقسم ہے:قطعی بالمعنی الاخص اور قطعی بالمعنی الاعم۔قطعی بالمعنی الاخص ضروریات دین ہیں اور قطعی بالمعنی الاعم ضروریات اہل سنت۔

فقہائے کرام اکبر ظن کو بھی قطعی بالمعنی الاعم کہتے ہیں۔وہ قطعی ملحق ہے۔
وہ متکلمین کے یہاں ظنی ہے۔

وہ اجماعی امر جومتکلمین کے یہاں قطعی بالمعنی الاعم ہو،وہ ضروریات اہل سنت میں سے ہے۔اس کے انکار پر فقہائے احناف حکم کفر جاری کرتے ہیں۔

(3)قال العلامۃ البدایونی:(وَاَمَّا مَا ثَبَتَ قَطعًا-وَلَم یَبلُغ حَدَّ الضَّرُورۃِ-کاستحقاق بنت الابن السدس مع البنت الصلبیۃ باجماع المسلمین-فظاہرکلام الحنفیۃ الاکفار بجحدہ-فانہم لَم یَشتَرِطُوا فی الاکفارسوی القطع فی الثبوت-لا بُلُوغ العلم بہ حَدَّ الضَّرورۃ-ویجب حملہ ما اذا عَلِمَ المُنکِرُثُبُوتَہٗ قَطعًا-لِاَنَّ مَنَاطَ التَّکفِیرِ-وہو التکذیب او الاستخفاف بالدین-اِنَّمَا یَکُونُ عِندَ ذلک-اَمَّا اِذَا لَم یَعلَم،فَلَا-اِلَّا اَن یَذکُرَ لَہٗ اَہلُ العِلمِ ذلک-اَی اَنَّ ذٰلِکَ الاَمرَ مِنَ الدِّینِ قَطعًا-فَیَتَمَادّٰی فِیمَا ہُوَ فِیہِ عِنَادًا-فَیُحکَمُ فِی ہٰذَا الحَالِ بِکُفرِہ لِظُہُورِ التَّکذِیبِ)
(المعتقدالمنتقد ص212-المجمع الاسلامی مبار ک پور)

توضیح: (ویجب حملہ علی ما اذا علم المنکرثبوتہ قطعا)سے ثابت ہے کہ منکر کوضروریات اہل سنت کی قطعیت کا علم ہو۔

(فانہم لم یشترطوا فی الاکفارسوی القطع فی الثبوت)سے ثابت ہے کہ فقہائے احناف ہرقطعی کے انکار پر حکم کفر نافذکرتے ہیں۔

(4)قال الامام احمد رضا القادری:(اقول وحق التحقیق ما اَشَرنَا اِلَیہِ مرارًا من الفرق بین الکفر والاکفار-فالکفریتحقق عند اللّٰہ تَعَالٰی بتحقیق التکذیب او الاستخفاف-ولا یشترط معہ ثبوت اصلًا-فضلاً عن القطع-فضلًاعن الضرورۃ-والاکفار لا یَجُوزُ اِلَّا اِذَا تَحَقَّقَ لَنَا قَطعًا اَنَّہ مُکَذِّبٌ اَو مُستَخِفٌّ-وَلَا قَطعَ اِلَّا فی الضروریات-لِاَنَّ فی غیرہا-لَہٗ اَن یَقُولَ:لَم یَثبُت عِندِی-اَمَّا اِذَا اَقَرَّ بالثبوت ثم جحد-فقد عُلِمَ التَّکذیب- وَلَا وَجہَ حِینَئذ لِلتَّوَقُّف فی الاکفار لِحُصُولِ العِلمِ بوجود المدار-فَالحَقُّ مع الحنفیۃ علٰی ہذا الوجہ الذی قَرَّرنَا-فاحفظ فانہ مُہِمٌّ)
(المعتمد المستندص212-المجمع الاسلامی مبارک پور)

توضیح:(اما اذا اقربالثبوت ثم جحد)سے ثابت ہے کہ منکر کوضروریات اہل سنت کی قطعیت کا علم ہو۔

منقولہ بالااقتباس میں امام احمدرضا قادری قدس سرہ العزیزنے فقہائے احناف کے مذہب کی خوبی بیان فرمائی، لیکن وہ باب تکفیر میں متکلمین کے مذہب پر ہیں۔فقہا کے مذہب پر نہیں۔کسی امر کی خوبی بیان کرنا الگ امر ہے، اور اسے اختیارکرنا الگ امرہے۔

(5)قال الشامی:(ولذا ذکر فی المسایرۃ-اَنَّ مَا ینفی الاستسلام او یوجب التکذیب فہوکُفرٌ-فما ینفی الاستسلام،کُلُّ مَا قَدَّمنَاہُ عَن الحنفیۃ -اَی مِمَّا یدل علی الاستخفاف وما ذکر قبلہ من قتل نبی-اذ الاستخفاف فیہ اظہر-وما یوجب التکذیب جَحدُ کُلِّ مَا ثَبَتَ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم اِدِّعَاءَہ ضرورۃً-واما ما لم یبلغ حد الضرورۃ کاستحقاق بنت الابن السدس مع البنت باجماع المسلمین فظاہر کلام الحنفیۃ الاکفار بجحدہ-فانہم لم یشرطوا سوی القطع فی الثبوت-ویجب حملہ علٰی ما اذا عَلِمَ المنکر ثبوتہ قَطعًا-لان مناط التکفیر وہو التکذیب اوالاستخفاف عند ذلک یکون-اما اذا لم یعلم فلا-الا ان یذکر لہ اہل العلم ذلک فیلج-الخ) (ردالمحتار جلد چہارم:ص407-دارالفکر بیروت)

توضیح: (ویجب حملہ علی ما اذا علم المنکرثبوتہ قطعا)سے ثابت ہے کہ منکر کوضروریات اہل سنت کی قطعیت کا علم ہو۔

(فانہم لم یشرطوا سوی القطع فی الثبوت)سے ثابت ہے کہ فقہائے احناف ہرقطعی کے انکار پر حکم کفر نافذکرتے ہیں۔

ضروریات اہل سنت کی قطعیت کا علم ہوجانے کے بعد تاویل کے ساتھ اس کا انکار فقہائے احناف اور ان کے مؤیدین یہاں کفر فقہی ہے۔اگرضروریات اہل سنت کے علم قطعی کے بعد ضروریات اہل سنت کا بلا تاویل انکار کرے تو یہ استخفاف بالدین اورکفرعنادی ہے۔ اس صورت میں فقہا ومتکلمین سب کے یہاں حکم کفر عائد ہوگا۔

کسی نے لاعلمی کے سبب ضروریات اہل سنت کا انکار کیا توحکم کفر جاری نہیں ہوگا۔

(6)قال الحصکفی:(والکفرلغۃً-اَلتَّسَتُّرُ-وَشَرعًا-تکذیبہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی شیء مما جاء بہ من الدین ضرورۃ)
(الدرالمختارجلد چہارم:ص407)

(7)قال الشامی فی شرح قول الحصکفی:(وظاہر کلامہ تخصیص الکفر بجحد الضروری فقط-مَعَ اَنَّ الشرط عندنا ثبوتہ علٰی وجہ القطع -وان لم یکن ضروریًّا-بل قد یکون استخفافًا من قول او فِعلٍ کَمَا مَرَّ)
(ردالمحتار جلد چہارم:ص407-دارالفکر بیروت)

توضیح:(مع ان الشرط عند نا ثبوتہ علی وجہ القطع -وان لم یکن ضروریا)سے ثابت ہے کہ فقہائے احناف ہرقطعی کے انکار پر حکم کفر نافذکرتے ہیں۔

فقہائے احناف اور ان کے مؤیدین ہر قطعی امر کے انکارپر حکم کفر جاری کرتے ہیں، خواہ وہ ضروریات دین میں سے ہو،یا ضروریات اہل سنت میں سے۔

کسی نے لاعلمی کے سبب ضروریات اہل سنت کا انکار کیا توحکم کفر جاری نہیں ہوگا۔
ضروریات اہل سنت کی قطعیت کاعلم ہونے کے باوجود تاویل فاسد کے سبب ضروریات اہل سنت کاانکار کرے توفقہائے احناف کفرفقہی کا حکم نافذکرتے ہیں۔

ضروریات اہل سنت کی قطعیت کاعلم ہونے کے باوجود بلاتاویل ضروریات اہل سنت کاانکار کرے تویہ استخفاف بالدین ہے۔اس صورت میں متکلمین بھی حکم کفر نافذکرتے ہیں۔یہ کفر کلامی ہے۔

فقہائے کرام کے یہاں جو ظنی ملحق بالقطعی ہے، یعنی قطعی کی قسم سوم، اس کے انکار پر فقہائے احناف حکم کفر جاری نہیں کرتے۔ان شاء اللہ تعالیٰ تفصیل مرقوم ہو گی۔

از قلم: طارق انور مصباحی

مزید پڑھیں

کفرفقہی کے اقسام واحکام (قسط سوم)

کفرفقہی کے اقسام واحکام(قسط دوم)

کفرفقہی کے اقسام واحکام (قسط اول)

شیئر کیجیے

Leave a comment