خود کشی کی مذمت؛ اسباب اور حل
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
عمران رضا عطاری مدنی (بنارس)
تخصص فی الحدیث ناگپور
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کسی شخص کا اپنے آپ کو قصداً اور غیر قدرتی طریقے سے ہلاک کرنے کا عمل خُودکُشی (suicide) کہلاتا ہے۔
خُودکُشی (suicide) شریعت میں ناجائز و گناہ اور سخت حرام ہے۔ قرآن پاک اور احادیث میں اس کی سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔
کسی بھی چیز پر تصرف کرنے کے لیے اس کا مالک ہونا ضروری ہے۔ خودکشی کرنا اس وجہ سے ناجائز و حرام ہے کہ درحقیقت انسان کا اپنا جسم اور زندگی اس کی ذاتی ملکیت اور کسبی نہیں بلکہ ﷲ عزوجل کی عطا کردہ امانت ہیں۔ زندگی اللہ تعالیٰ کی ایسی عظیم نعمت ہے جو بقیہ تمام نعمتوں کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی لیے اسلام نے جسم و جان کے تحفظ کا حکم دیتے ہوئے تمام افرادِ معاشرہ کو اس امر کا پابند بنایا ہے کہ وہ ہر حال میں اپنی زندگی کی حفاظت کریں ۔ اسلام نے ان اسباب اور موانع کے تدارک پر مبنی تعلیمات بھی اسی لیے دی ہیں تاکہ انسانی زندگی پوری حفاظت و توانائی کے ساتھ کارخانۂ قدرت کے لیے کار آمد رہے۔ اسلام کسی انسان کو خود اپنی جان تلف کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔
اس کو اس طرح سمجھیں کہ شراب پینا اور سور کا گوشت کھانا حرام ہے جس کی بالکل بھی اجازت نہیں دی جا سکتی، لیکن جب انسان کو اپنی جان کی حفاظت کے لیے کچھ بھی کھانے پینے کو نہ مل سکے تو اس وقت شریعت نے لازم قرار دیا ہے کہ وہ شراب یا ناپاک گوشت کو کھائے تاکہ وہ اپنی جان کو بچا سکے۔
اللہ پاک فرماتا ہے :
اِلَّاۤ اَنْ یَّكُوْنَ مَیْتَةً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِیْرٍ فَاِنَّهٗ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖۚ-فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَاِنَّ رَبَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ.
ترجمہ : مگر یہ کہ مردار ہو یا رگوں کا بہتا خون یا بد جانور کا گوشت کہ وہ نجاست ہے یا وہ بے حکمی کا جانور جس کے ذبح میں غیرِ خدا کا نام پکارا گیا تو جو ناچار ہوا نہ یوں کہ آپ خواہش کرے اور نہ یوں کہ ضرورت سے بڑھے تو بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
(القرآن الکریم، السورۃ: الانعام، الآیۃ:144)
اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ چار قسم کی اشیاء کھانا حرام ہے : (1) مردار۔ (2) رگوں میں بہنے والا خون۔ (3) سور کا گوشت اور (4) نافرمانی کا جانور یعنی جس کو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے علاوہ کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو۔
لیکن اگر کوئی مجبور ہو اور ضرورت اُسے ان چیزوں میں سے کسی کے کھانے پر مجبور کر دے اور وہ اس حال میں کھائے کہ نہ خواہش سے کھانے والا ہو اور نہ ضرورت سے بڑھنے والاتو بے شک رب کریم عَزَّوَجَلَّ بخشنے والا، مہربان ہے اور وہ اِس پر کوئی مؤاخذہ نہ فرمائے گا۔
مجبوری کی حالت میں مردار وغیرہ چیزیں بقدرِ ضرورت حلال ہوں گی اور مجبوری سے مراد جان جانے یا عُضْو ضائع ہوجانے کا ظنِ غالب ہونا ہے۔
(صراط الجنان فے تفسیر القران، مذکورہ آیت کے تحت)
اس عبارت سے بھی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ شریعت مطہرہ نے انسان کو کس قدر پابند کیا ہے کہ وہ اپنی جان کی حفاظت کرے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
قرآن مجید میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے :
• وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَة.
ترجمہ : اور اپنے ہاتھوں خودکو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ (القرآن الکریم، السورۃ: البقرۃ، الآیۃ:195)
• وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا.
ترجمہ : اور اپنی جانیں قتل نہ کرو بیشک اللہ تم پر مہربان ہے۔
(القرآن الکریم، السورۃ: النساء، الآیۃ:29)
کسی کو بِلااجازتِ شرعی قتل کرنا ایسا بُرا کام ہے کہ ایک شخص کے قتل کو تمام انسانوں کا قتل قرار دیا گیا، اللہ پاک قراٰنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاؕ.
ترجمہ : جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیا۔
(القرآن الکریم، السورۃ: المائدۃ، الآیۃ:32)
معلوم ہوا کہ اپنا یا کسی دوسرے کا قتل کرنا شرعی طور پر ناجائز و حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔
کئی احادیث میں نبی اکرم ﷺ نے خود کشی کرنے کی مذمت اور عذاب کو بیان فرمایا ہے چناں چہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
✿ مَنْ تردَّى مِنْ جَبَلٍ فَقَتَلَ نَفْسَهُ، فَهُوَ فِي نَارِ جَهَنَّمَ يتردَّى فِيهِ خَالِدًا مخلَّدًا فِيهَا أَبَدًا، وَمَنْ تحسَّى سُمًّا فَقَتَلَ نَفْسَهُ، فَسُمُّهُ فِي يَدِهِ يتحسَّاه فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدًا مخلَّدًا فِيهَا أَبَدًا، وَمَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ بِحَدِيدَةٍ، فَحَدِيدَتُهُ فِي يَدِهِ يَجَأُ بِهَا فِي بَطْنِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خالدًا مخلَّدًا فيها أبدًا.
ترجمہ : جس شخص نے خود کو پہاڑ سے گرا کر ہلاک کیا تو وہ دوزخ میں جائے گا، ہمیشہ اس میں گرتا رہے گا اور ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہے گا۔ اور جس شخص نے زہر کھا کر اپنے آپ کو ختم کیا تو وہ زہر دوزخ میں بھی اس کے ہاتھ میں ہوگا جسے وہ دوزخ میں کھاتا ہوگا اور ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہے گا۔ اور جس شخص نے اپنے آپ کو لوہے کے ہتھیار سے قتل کیا تو وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہوگا جسے وہ دوزخ کی آگ میں ہمیشہ اپنے پیٹ میں مارتا رہے گا اور ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہے گا۔‘‘
(صحیح بخاری، جلد: 5، ص:2179، رقم الحدیث : 5442 ،کتاب الطب، باب شرب السم والدواء به وبما يخاف منه والخبيث، طبع ؛ دار ابن كثير)
✿ الَّذِي يَطْعَنُ نَفْسَهُ إِنَّمَا يَطْعَنُهَا فِي النَّارِ، وَالَّذِي يَتَقَحَّمُ فِيهَا يَتَقَحَّمُ فِي النَّارِ، وَالَّذِي يَخْنُقُ نَفْسَهُ يَخْنُقُهَا فِي النَّارِ.
ترجمہ : جو شخص کوئی چیز چبا کر اپنی جان کو ختم کرتا ہے تو وہ دوزخ میں بھی اسی طرح اپنے آپ کو ختم کرتا رہے گا، اس طرح جو شخص اپنی جان کو گڑھے وغیرہ میں پھینک کر ختم کرتا ہے تو وہ دوزخ میں بھی ایسے ہی کرتا رہے گا، اور جو شخص اپنی جان کو پھانسی کے ذریعے ختم کرتا ہے تو وہ دوزخ میں بھی ایسے ہی کرتا رہے گا۔
(مسند الإمام أحمد بن حنبل، ج:15، ص:380، رقم الحدیث:9618، طبع : مؤسسة الرسالة الناشرون)
✿ كان فيمن كان قبلكم رجل به جرح، فجزع، فأخذ سكينا فحز بها يده، فما رقأ الدم حتى مات، قال الله تعالى: بادرني عبدي بنفسه، حرمت عليه الجنة.
ترجمہ : تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک آدمی زخمی ہو گیا۔ اس نے بے قرار ہوکر چھری لی اور اپنا زخمی ہاتھ کاٹ ڈالا۔ جس سے اس کا اتنا خون بہا کہ وہ مرگیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میرے بندے نے خود فیصلہ کر کے میرے حکم پر سبقت کی ہے، لہٰذا میں نے اس پر جنت حرام کر دی۔‘‘
(صحیح بخاری، جلد: 3، ص:275، رقم الحدیث : 2376 ،کتاب الانبياء، باب: ما ذكر عن بني إسرائيل ، طبع ؛ دار ابن كثير)
✿ رَجُلًا مِمَّنْ كَانَ قَبْلَكُمْ خَرَجَتْ بِهِ قُرْحَةٌ. فَلَمَّا آذَتْهُ انْتَزَعَ سَهْمًا مِنْ كِنَانَتِهِ. فَنَكَأَهَا. فَلَمْ يَرْقإِ الدَّمُ حَتَّى مَاتَ. قَالَ رَبُّكُمْ: قَدْ حَرَّمْتُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ.
ترجمہ : پچھلی امتوں میں سے کسی شخص کے جسم پر ایک پھوڑا نکلا، جب اس میں زیادہ تکلیف محسوس ہونے لگی تو اس نے اپنے ترکش میں سے ایک تیر نکال کر اس پھوڑے کو چیر ڈالا جس سے مسلسل خون بہنے لگا اور نہ رکا۔ اس کی وجہ سے وہ شخص مر گیا۔ تمہارے رب نے فرمایا : میں نے اس پر جنت حرام کر دی ہے۔
(صحيح مسلم، ج:1، ص:107، رقم الحدیث:180، کتاب الایمان، طبع : دار إحياء التراث العربي)
✿ التقى النبي ﷺ والمشركون في بعض مغازيه، فاقتتلوا، فمال كل قوم إلى عسكرهم، وفي المسلمين رجل لا يدع من المشركون شاذة ولا فاذة إلا اتبعها فضربها بسيفه، فقيل: يا رسول الله، ما أجزأ أحد ما أجزأ فلان، فقال: (إنه من أهل النار). فقالوا: أينا من أهل الجنة، إن كان هذا من أهل النار؟ فقال رجل من القوم: لأتبعنه، فإذا أسرع وأبطأ كنت معه، حتى جرح، فاستعجل الموت، فوضع نصاب سيفه بالأرض وذبابه بين ثدييه، ثم تحامل عليه فقتل نفسه، فجاء الرَّجُلُ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ، فَقَالَ: (وَمَا ذاك). فأخبره، فقال: (إن الرجل ليعمل بعمل أهل الجنه، فيما يبدو للناس، وإنه من أهل النار. ويعمل بعمل أهل النار، فيما يبدو للناس، وهو من أهل الجنة).
ترجمہ : ایک غزوہ (غزوۂ خیبر) میں جب حضور نبی اکرم ﷺ اور مشرکین کا آمنا سامنا ہوا تو فریقین میں خوب لڑائی ہوئی، پھر (شام کے وقت) ہر فریق اپنے لشکر کی جانب واپس لوٹ گیا۔ پس مسلمانوں میں ایک ایسا آدمی بھی تھا جو کسی اِکا دُکا مشرک کو زندہ نہ چھوڑتا بلکہ پیچھا کرکے اسے تلوار کے ذریعے موت کے گھاٹ اتار دیتا تھا۔ لوگوں نے کہا : یا رسول اللہ! آج جتنا کام فلاں نے دکھایا ہے اتنا اور کسی سے نہیں ہوا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : وہ تو جہنمی ہے۔ پس لوگ کہنے لگے کہ اگر وہ جہنمی ہے تو ہم میں سے جنتی کون ہوگا! مسلمانوں میں سے ایک آدمی کہنے لگا : میں صورتِ حال کا جائزہ لینے کی غرض سے اس کے ساتھ رہوں گا خواہ یہ تیز چلے یا آہستہ۔ یہاں تک کہ وہ آدمی زخمی ہوگیا، پس اس نے مرنے میں جلدی کی یعنی اپنی تلوار کا دستہ زمین پر رکھا اور نوک اپنے سینے کے درمیان میں رکھ کر خود کو اس پر گرا لیا اور یوں اس نے خودکشی کرلی۔ جائزہ لینے والے آدمی نے حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض کیا : میں گواہی دیتا ہوں کہ واقعی آپ اللہ کے رسول ہیں۔ آپ نے دریافت فرمایا : بات کیا ہوئی ہے؟ اس شخص نے سارا واقعہ عرض کر دیا۔ پس آپ نے فرمایا : بے شک ایک آدمی جنتیوں جیسے عمل کرتا رہتا ہے جیسا کہ لوگ دیکھتے ہیں لیکن درحقیقت وہ جہنمی ہوتا ہے؛ اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کے دیکھنے میں وہ جہنمیوں جیسے کام کرتا رہتا ہے لیکن درحقیقت وہ جنتی ہوتا ہے۔‘‘
(صحیح بخاری، جلد: 4، ص:1541، رقم الحدیث : 3970 ، کتاب المغازي، باب غزوة خيبر ، طبع ؛ دار ابن كثير)
ان تمام آیات و احادیث سے معلوم ہوا کہ خود کشی کرنا دنیا و آخرت میں اپنے آپ کو عذاب اور ذلت پر پیش کرنا ہے۔ ہر مسلمان پر اس سے بچنا فرض ہے۔
ایک تحقیق
پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! خود کشی بُزدلی اور کم ہمتی کی دلیل ہے۔افسوس! آج کل خودکُشی کے واقعات میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے ایک مُعْتَبَر اور بین الاقوامی ادارے کے سروے کے بعد دیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں ہر سال تقریباً دس(10) لاکھ انسان خودکشی کرتے ہیں،دنیا کی کُل اموات میں خودکُشی کے باعث ہونے والی اموات کی شرح ایک عشاریہ آٹھ (1.8)فی صد ہے۔ ایک سروے کے مطابق اس شرح میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔(مختلف ویب سائٹ سے ماخوذ)
تحقیقاتی ایجنسیاں بتاتی ہیں کہ عالمی سطح پر ہر 40 سیکنڈ میں خود کے باعث ایک زندگی کا چراغ ہمیشہ کے لیے بجھ جاتا ہے۔
اور اگر وطن عزیز ہندوستان کی بات کریں تو ہر چار منٹ میں ایک اور ہر روز 381 خودکشیاں ہوتی ہیں اسی طرح سالانہ ڈیڑھ لاکھ سے زائد لوگ خودکشی کرتے ہیں جس کے باعث 6 لاکھ سے زیادہ خاندان متاثر ہوتے ہیں۔
پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! غور کیجیے ! انسانوں سے بھری اس دنیا میں ہر چالیس (40) سیکنڈز بعد کوئی نہ کوئی انسان اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کا چراغ گُل کر لیتا ہے۔ الامان و الحفیظ
آئیے خود کشی کے کچھ اسباب پر غور کرتے ہیں :
خُودکُشی (suicide) کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں چند زیر بحث ہیں ؛
❶ عشق مجازی
ہمارے پاکیزہ دین اسلام نے عشق مجازی کو ناجائز و حرام قرار دیا ہے ۔ اگر کسی سے حقیقی محبت ہو بھی تو اس کو نکاح کا جامہ پہنا کر شریعت کی حد میں رہ کر اپنے خواہشات پوری کی جائے ۔ لیکن آج کل شوشل میڈیا ، فیس بک یوٹیوب کی دنیا میں نوجوان اس طرح غرق ہوگئے اور فلموں، ڈراموں میں اس طرح گھر گئے ہیں کہ اسی نداز پر اپنی زندگی کو بھی رنگنے لگ گئے۔ پھر عشق مجازی ہوا ، نکاح نہ ہونے یا لڑکی کا کسی اور سے چکر ہونے یا اسی طرح کے دیگر اسباب کی وجہ سے ایک نہیں کئی واقعات پیش نظر ہیں کہ محض عشق مجازی میں مبتلا ہوکر کئی نوجوانوں نے خُودکُشی (suicide) کرلی۔ پھر انھیں یہ بھی خیال نہ رہا ہے میری دنیا و آخرت کا کیا ہوگا ؟ ان کے والدین کس قدر مشقت و آزمائش میں مبتلا ہوں گے ؟
← چند ماہ قبل مبارک پور اعظم گڑھ جانا ہوا، تو ایک عمر دراز شخص کو کام کاج کرتے دیکھا، ان کے متعلق ایک اسلامی بھائی نے بتایا کہ ان کے بچے چھوٹے چھوٹے ہیں ، گھریلو اعتبار سے بڑے غریب ہیں، ان بچوں کی کفالت کے لیے بڑی مشقتیں برداشت کرتے ہیں، ان کا ایک نواجوان تقریباً 21 سالہ لڑکا تھا، ممبئی کمانے کے لیے گیا تھا کہ کسی لڑکی سے پیار ہوگیا، لڑکی کی طرف سے Response نہ ملنے کی وجہ سے اسی لڑکی کے نام ایک ویڈیو بناتے ہوئے اس نے خود کشی کرلی اور پھر ممبئی سے اس کی لاش مبارک پور لائی گئی۔
اس مرض کا واحد علاج یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو سوشل میڈیا کے خرافات سے محفوظ رکھیں اور اپنی جوانی، عزت و پارسائی کی حفاظت کریں،اگر کسی سے محبت ہوئی بھی تو جائز طریقے سے گھر والوں سے بات کر کے نکاح کی صورت کریں، اگر نکاح کی صورت نہیں بنتی تو اپنے دل و دماغ سے اس کے خیالات کو بھی نکال دیں۔
❷ مقصد پورا نہ ہونا
کچھ لوگوں کا ایک مقصد ہوتا ہے جو ان کے لیے نہایت اہم ہوتا ہے جب وہ اپنے مقصد تک نہیں پہنچتے تو وہ مایوس ہو جاتے ہیں کہ میں اپنے ٹارگیٹ کو کبھی پورا نہیں کر پاؤں گا، ٹینشن کی وجہ سے وہ مایوسی کا شکار ہو کر اور اپنے مقصد میں کامیابی نہ ملنے کے غم میں خودکشی کر لیتے ہیں۔ جیسے کہ کچھ students امتحان میں ناکام ہونے کی وجہ سے بھی خود کشی کرلیتے ہیں ۔ حالاں کہ یہ سراسر جہالت ہے ۔ اگر کسی کو امتحان میں کامیابی نہیں ملی تو دوبارہ محنت و کوشش کریں کامیابی خود ہی اس کے پاس آئے گی، لیکن اس کا یہ حل نہیں کہ خود کشی کر لی جائے۔
← اسلامیہ کالج پشاور میں زوجو لوجی کی تعلیم حاصل کرنے والے پارا چنار کے ایک طالب علم نے اپنی تیسری کوشش میں ایم ڈی سی اے ٹی میں ناکامی کے بعد خودکشی کر لی۔
❸ غربت / قرض کا بوجھ
اگر لوگوں میں قناعت پسندی جیسا وصف آجائے تو شاید اس طرح کی شکایات بھی ہمارے معاشرے سے ختن ہو جائیں۔ جتنا اللہ نے دیا ہے اتنے پر راضی رہنے کا ذہن بنائیں !اگر رَہنے سَہنے، کھانے پینے وغیرہ میں حقیقی سادَگی اپنانے کاذِہن بن جائے تو تھوڑی آمَدَنی پر گزارہ کرنا ممکن ہے اور اس سبب سے شاید کوئی بھی مسلمان خودکُشی جیسا حرام اوردوزخ میں لےجانے والا کام نہ کرے ۔یاد رکھیے ! انسانی خواہشات سمندر سے زیادہ گہری اور زمین و آسمان سے زیادہ کشادہ ہیں۔ لیکن لوگوں میں دیکھیں تو سائیکل والا گاڑی کا خواب دیکھ رہا ہے اور گاڑی والا کار کے لیے بیتاب۔
کچھ افراد ایسے ہیں جو اتنے غریب ہیں جن کے پاس کھانے تک کی لیے رقم موجود نہیں تو وہ اس کے حل اور روزگار کی طرف جانے کے بجائے خود کشی کا راستہ اختیار کرتے ہیں پھر ان کے مرنے کے بعد گھر والوں کی حالت مزید مفلوج ہو جاتی ہے۔
← فروری2019ء کو کراچی میں ایک دل خراش واقعہ پیش آیا جب ایک ماں نے اپنی اڑھائی سالہ پھول سی بچّی سمندر میں پھینک دی،اس کے بعد خود بھی مرنا چاہتی تھی لیکن اسے بچا لیا گیا۔ بچّی کی لاش دو دن کے بعد ساحلِ سمندر سے مل گئی۔ قتل کی وجہ گھریلو ناچاقی اور غربت وغیرہ بتائی گئی۔
بعض افراد اپنی ضرورت سے زیادہ خواہشات کی تکمیل کے لیے خوب قرض لیں گے اور نہ پورہ کرنے کی صورت میں خود کشی کرکے سمجھتے ہیں کہ قرض لو ، خوب عیش کرو اور پھر خود کشی کرلو حالاں کہ اس نیت سے ابتداً قرض لینا ہی ناجائز و گناہ ہے۔
❹ بے جا ٹینشن / مایوسی
بعض اوقات انسان مایوس ہو جاتا ہے یا اس کو بیجا ٹینشن ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ سمجھتا ہے کہ میں کچھ نہیں کر سکتا، میرے اندر کچھ صلاحیت نہیں ہے ، اور یہ مایوسی کی کیفیت اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ وہ خود کشی کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔
مایوسی بھی خود کشی کی طرف لے جاتی ہے۔ حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں، مگر اُمید کا دامن ہاتھوں سے نہیں چُھوٹنا چاہیے۔ ایک آدھا بھرا ہوا گلاس میز پر رکھا ہو تو ایک اچھی امید والے انسان کو وہ آدھا بھرا ہوا نظر آئے گا، جب کہ ایک مایوس انسان کو یہی گلاس آدھا خالی دکھائی دیتا ہے۔اُمید اور نااُمیدی میں سوچ کا فرق ہوتا ہے،اللہ پاک کی رحمت پر نظر رکھتے ہوئے ہمیشہ مُثْبَت (Positive)سوچیں اور مَنْفِی (Negative) سوچ کو قریب بھی مت آنے دیں۔ ایک مسلمان کی شان یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اللہ پاک کی رحمت سے اُمید رکھنے والا ہوتا ہے۔قرآنِ پاک میں بھی یہی حکم ہے۔
❺ غیر فطنی دباؤ
بعض اوقات کسی دباؤ میں آکر کچھ افراد خود کشی کرلیتے ہیں ، جیسے : آج کل بعض اوقات ویڈیو کال آتی ہے دوسری طرف ویڈیو کال میں برہنہ عورت موجود ہوتی ہے اور ادھر سے ریکارڈنگ بھی ہورہی ہوتی ہے جیسے ہی کوئی شخص کال اٹھاتا ہے، تو اب عورت یا اس کا دوسرا بندہ یہ کہہ کر بلیک میل کرتے ہیں کہ اگر تم نے اتنے اتنے پیسہ نہ دیا تو ہم یہ ویڈیو وائرل کردیں گے ایسی صورت میں پیسا دیا تو ٹھیک ورنہ بے عزتی کے خوف سے بعض لوگ خودکشی کرلیتے ہیں ۔
کچھ ایسے بھی واقعات ہوئے ہیں کہ عورت سے زبدستی حرام کاری کی گئی اور اس کی وڈیوز وائرل کردی گئی جس کی وجہ سے اس نے خود کشی کرلی ۔
← انڈیا میں سابقہ محبوب نے سوشل میڈیا پر لڑکی کی فحش ویڈیو شیئر کردی ، شادی شدہ زندگی متاثر ہونے اور بدنامی کے خوف سے لڑکی اور اس کی ماں نے گلے میں پھندا ڈال کر خودکشی کرلی۔
یہ افسوسناک واقعہ بھارتی ریاست اترپردیش میں پیش آیا جس میں فحش ویڈیو سوشل میڈیا پر منظر عام پر آنے کی وجہ سے ایک ماں بیٹی نے انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے گلے میں پھندا لگا کر اپنی زندگیوں کا خاتمہ کرلیا۔
تفصیلات کے مطابق ، مقامی پولیس تھانہ سے متصل ایک گاؤں میں گھر کے باہر درخت سے لٹکی ہوئی 40 سالہ والدہ اور اس کی 22 سالہ بیٹی کی لاشیں ملیں۔ (گوگل)
← چند سال پہلے احمد آباد شہر کی ایک خاتون کے ماں باپ سے شوہر نے جہیز کا تقاضا کیا، انھوں نے حیثیت بھر چیزیں مہیہ بھی کردی مگر حد سے زیادہ لمبی چوڑی منہ مانگی چیزیں نہ ملنے پر اس خاتون نے احمد آباد کی سابرمتی ندی میں کود کر خود کشی کرلی۔
اس کا حل یہ ہے کہ کبھی بھی کسی انسان کے دباؤ میں نہ آئے۔ اگر اس طرح کبھی کوئی بلیک میل کرنے کی کوشش بھی کرے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہم فوراً سرکاری ایجنسیوں کو خبر کریں۔ اپنے گھر کے افراد اور بڑوں کو بھی اس بات پر مطلع کریں، تاکہ سب مل جل کر اس کے حل کے لیے اقدامات کریں ۔
❻ لڑائی جھگڑا
خود کشی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ گھر یا باہر کے افراد سے لڑائی جھگڑا ہوتا رہتا ہے۔ اسی بنا پر ظالم یا مظلوم بعض اوقات ان چیزوں سے بچنے کے لیے خود کشی کرکے سمجھتے ہیں ہم ان چیزوں سے بچ جائیں گے حالاں کہ ایسا کرکے وہ اپنے آپ کو آخرت میں پھنسا رہے ہیں ۔
← خاوند نے بیوی، 15اور12سال کی دو بیٹیوں اور 5 سالہ بیٹے کو چھریوں اور ڈنڈوں کے وار کرکے بے دردی سے قتل کردیا، ایک بیٹی (عمر 6سال) اور دو بیٹوں (عمر:3 اور 7سال) نے بھاگ کر جان بچائی۔ قتل کرنے کے بعد اس شخص نے خود کو کمرے میں بند کرکے آگ لگا کر خود کشی کرلی۔ پولیس کا کہنا تھا کہ ابتدائی تفتیش میں واقعہ گھریلو لڑائی جھگڑے کی وجہ سے پیش آیا۔
اگر کوئی اس مرض میں مبتلا ہے تو اسے چاہیے کہ اس کے تدارک کی کوشش کرے اور لڑائی جھگڑے کے اسباب پر غور کر کے ان کو دور کرے۔
علامات :
ماہرین نفس کا کہنا ہے جو شخص خود کو خودکشی کی آگ میں جھونکنے کی پلاننگ کرتا ہے تو وہ اپنے روز مردہ کی زندگی میں ناقابل یقین بدلاؤ کرتا ہے یا تو وہ حد سے زیادہ خوش یا حد سے زیادہ غمگین رہنا شروع کردیتا ہے اسی طرح وہ ایک دوسرے سے کہتا پھرتا ہے کہ وہ زندگی سے مایوس ہو چکا اسے اب جینے کا دل نہیں کر رہا اور اب میں زندگی سے ناامید ہو چکا ہوں وغیرہ۔
ان تمام اسباب کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک ذی شعور اور سمجھدار شخص فیصلہ کرے کہ کیا ان چیزوں میں مبتلا شخص کے لیے صرف ایک واحد حل خودکشی ہے یا کچھ اور بھی حل ہے ؟
یقیناً ہر سمجھدار شخص یہی کہے گا کہ خودکشی اس کا کوئی حل نہیں ہے۔ ہمیں ہر حال میں اللہ پر بھروسہ رکھنا ہے کبھی بھی اس کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا ، اگر تمام ظاہری راستے بند ہو بھی گئے تو اس کی رحمت کا دروازہ بھی بند نہیں ہوتا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاؕ-.
اللہ کی رحمت سے نااُمید نہ ہو بیشک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے۔
(القرآن الکریم، السورۃ : الزمر، الآیۃ:53)
پیارے اسلامی بھائیو :
کسی شخص کے متعلق معلوم چل جائے کہ یہ ڈپریشن کا شکار ہوکر ، کسی کی محبت میں آکر ، یا بلیک میل ہوکر یا کسی بھی سبب سے خود کشی کرنے والا ہے تو ہم پر ضروری ہے کہ ہم ہر ممکنہ کوشش کر کے اس کو بچائیں، قرآن اور احادیث میں جو اس کی مذمت اور عذابات بیان کیے گئے ہیں ، اس کے ذریعے ڈرائیں تاکہ وہ اپنے اس فعل سے باز آجائے ۔
اللہ پاک عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ 🤲🏻